گزشتہ کالم میں سابق صدر کے خلاف سنگین غداری مقدمے پر روشنی ڈالتے ہوئے مقدمے کے اہم پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا کہ اپریل 2010ء کو آئین میں اٹھارویں ترمیم کی گئی اور ترمیم کے بعد سابق صدر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جس کے مطابق کوئی شخص جو آئین شکنی، آئین کو معطل کرنے کا مرتکب ہو یا پھر آئین میں خلل ڈالنے یا غیر آئینی اقدام کا مرتکب ہو وہ غداری کا مرتکب ہو گا۔ اس میں بعد میں معاونت کے الفاظ بھی شامل بھی کئے گئے مگر اس ترمیم میں بھی ماضی کے اقدامات پر عملدرآمد کا کوئی ذکر نہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013ء کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد سابق صدر مشرف کے خلاف ایمرجنسی نافذ کرنے کے خلاف غداری کا مقدمہ فائل کیا، نجی محفلوں میں یہ بات بھی زیر بحث رہی کہ نواز شریف اس اقدام کے ذریعے فوج کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ محمد اکرام شیخ کو سابق صدر کے خلاف مقدمات کی پیروی کرنے والی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سابق صدر مارچ 2014ء کو عدالت کے روبروپیش ہوئے اس وقت سابق صدر نے اپنے خلاف تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ اسی برس اپریل میں سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کو کیس کی سماعت کی ہدائت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر سابق صدر عدالت کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں تو ان کا حق ہو گا کہ وہ اپنی سٹیٹ منٹ ریکارڈ کروا سکتے ہیں۔ عدالتی حکم میں یہ بھی درج تھا کہ سابق صدر کی عدم حاضری کی صورت میں بھی عدالت کو اپنی سماعت جاری رکھنے کا اختیار ہو گا جیسے ہی پی ٹی آئی انتخابات میں کامیاب ہو کر اقتدار میں آئی تو اکرام شیخ نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ 19نومبر کو خصوصی عدالت نے مقدمہ کی سماعت مکمل کر لی تھی اور عدالت نے دستیاب معلومات کے مطابق 28نومبر 2019ء کو فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تھا مگر سوال یہ ہے کہ عدالت کو عجلت میں فیصلہ کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ اسی اثناء میں نومبر کے آخری ہفتے میں ڈیفنس کے اٹارنی خواجہ احمد طارق رحیم نے لاہور ہائی کورٹ میں خصوصی عدالت کی طرف سے 28نومبر کو کیس کا فیصلہ سنانے کے خلاف درخواست دائر کر دی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت نے مقدمہ کی سماعت کے دوران شریک ملزمان کو شامل ہی نہیں کیا اور یہ کہ استغاثہ کی ٹیم بھی برخاست ہو چکی تھی۔ یہاں تک کہ حکومت نے پراسکیوٹر کی دوبارہ تقرری سے بھی انکار کر دیا تھا۔ خصوصی عدالت نے اب یہ اعلان کر رکھا ہے کہ حکومت کی طرف سے نئے پراسکیوٹرز کی تقرری اور دلائل سننے کے بعد 17دسمبر کو فیصلہ سنا دے گی۔ سابق صدر مشرف کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے ابھی تک کسی کو علم نہیں۔ لیکن اس حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور شکوک شبہات کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ پٹیشنر اور حکومت نے درست وجوہات بیان کی ہیں اس کے باوجود بھی یہ سوال تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا تمام قانونی تقاضے پورے کئے بغیر انصاف ممکن ہے؟ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ آخر سابق صدر مشرف کو ہی تمام معاونین کو نظر انداز کر کے خاص طور پر ٹارگٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر جسٹس ڈوگر کو برخواست نہ کیا جاتا تو کیا ان کے فیصلوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا؟ کیا عدالتیں کسی بغض کے باعث عجلت کا مظاہرہ کر رہی ہیں؟ ان سوالات کے جوابات یقینا ماہرین قانون اور ہمارے نظام عدل کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کیس کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کی آڑ میں پاک فوج کے خلاف معاملات کو چلایا جا رہا ہے باوجود اس کے کہ جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ نے بھر پور انداز میں معاملات سنبھالنے کی کوشش کی مگر اس کے باوجود بھی مسلسل ابہام پیدا کیا جا رہا ہے۔ اب تک فوج کے حوالے سے جارحانہ رویہ اختیار کیا جاتا رہاہے۔ ڈان لیکس اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے تنازعات کو دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ 2009 ء کے بعد سے شروع ہونے والا جوڈیشل ایکٹوازم آج بھی بدستور جاری ساری ہے اور نظام عدل میں انصاف کی فراہمی میں کہیںذاتی عناد کے آڑے نہیںآ رہی۔ یہاں تک کہ بعض فیصلوں میں بنیادی انسانی حقوق کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جہاں تک سابق صدر کے مقدمے کا تعلق ہے تو بلا شبہ خصوصی عدالت کوئی آخری عدالت نہ ہوگی خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد بھی بہت سے قانونی ذرائع دستیاب ہوں گے جن میں وزیر اعظم کے اختیارات سے لے کر صدر کے اختیاراتی استحقاق ہیں مگر میرے خیال میں یہاں تک نوبت ہی نہیں آئے گی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس حوالے سے بہت سی پیچیدگیاں اور مقدمہ کے بہت سے پہلو ہیں جو غور و فکر کے متقاضی ہیں خاص طور پر یہ سوال جواب طلب ہے کہ کہیں 18ویںترمیم میں بعض آئینی شقیں خاص طور پر سابق صدر کو ذہن میں رکھ کر تو تبدیل نہیں کی گئیںجن کے مطابق کوئی شخص جو آئین شکنی، آئین کو معطل کرنے کا مرتکب ہو یا پھر آئین توڑنے آئین کو معطل کرنے، آئین میں خلل ڈالنے یا غیر آئینی اقدام کا مرتکب ہو وہ غداری کا مرتکب ہو گا۔ بعد میں معاونت کے الفاظ بھی شامل کئے گئے مگر اس ترمیم میں بھی ماضی کے اقدامات پر عملدرآمد کا کوئی ذکر نہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013ء کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد سابق صدر مشرف کے خلاف ایمرجنسی نافذ کرنے کے خلاف غداری کا مقدمہ فائل کیا، نجی محفلوں میں یہ بات بھی زیر بحث رہی کہ نواز شریف اس اقدام کے ذریعے فوج کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ عجلت میں کئے گئے فیصلے ملک قوم کے مفادمیں نہ ہوں گے بلکہ عجلت کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا سسلین مافیا ہو گا۔(ختم شد)