مہذب ملکوں میں جہاں انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے‘ وہاں ریاست کا سارا بندوبست اس تگ و دو میں ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اس کے بنیادی حقوق ملتے رہے۔ صاف اور صحت بخش غذا تک رسائی بھی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ جو چیز لوگ پیکٹوں اور ڈبوں میں بند خریدتے ہیں‘ اس میں کیا اجزا استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ جاننا بھی ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اس لئے کہ اب اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ انسانی صحت اور زندگی کے معیار کو بہتر رکھنے کے لئے صحت بخش اور غذائیت سے بھر پور غذائوں کا کھانا ضروری ہے۔ یہ بات بھی ایسے مہذب ملکوں میں کہی اور سمجھی جا سکتی ہے کہ Eating well is a form of self respect. اس حوالے سے جن ملکوں نے قانون سازی کی اور صاف ستھری ‘ مضر صحت اجزا سے پاک غذا کو ہر انسان کے بنیادی حق کی طرح تسلیم کیا ان میں یورپی یونین کے ملک سر فہرست ہیں۔ مثلاً سویڈن ‘ جرمنی‘ نیدر لینڈ‘ برطانیہ جہاں صاف ستھری غذا کے قانون کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایک لمبی چوڑی دستاویز ہے جس کا ایک حصہ صرف اس بات پر مشتمل ہے کہ صاف ستھری اور غذائیت سے بھر پور غذا۔ بچوں کو کھلانا کس قدر بنیادی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی کہ بچے حتی الامکان ایسے کھانوں سے دور رہیں‘ جس میں مضر صحت اجزا شامل کئے گئے ہیں۔اس قانون کے تحت ایسی تمام غذائیں اور کھانے بچوں کو سکول لنچ میں دینے اور کھلانے پر پابندی لگا دی گئی۔اس کے ساتھ یہ قانون بھی لاگو ہو گیا کہ ایسی چیزیں جب عام سٹوروں پر فروخت ہوں گی تو ان کے ڈبوں پر ان مضر صحت اجزا کا درج کرنا ضروری ہو گا جس کی وجہ سے ان پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اب آپ کو دلچسپ بات یہ بتائوں کہ یورپی یونین کے فوڈ اینڈ ہیلتھ ایکٹ کے تحت جو غذائیں مضر صحت اور بیماریاں پیدا کرنے والی سمجھ کر ان پر پابندی لگائی وہ ہمارے ہاں بچے بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ مثلاً برگر‘ چپس‘ تلے ہوئے آلو‘ سوڈا ڈرنکس‘ فلیورڈ جوسز ۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کی کنٹینوں پر اسی قسم کے کھانے پینے کی اشیاء فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔ کچھ سکولوں نے کولڈ ڈرنکس پر پابندی عائد کر دی ہے لیکن باقی کی چیزیں بدستور ہمارے ہاں بچوں کی پسندیدہ ہیں۔ جن ملکوں نے ان چیزوں پر پابندی لگائی ہے وہاں بھی بچے ایسے فاسٹ فوڈز کے بہت شوقین ہیں اور وہ ان ذائقوں کے اتنے اسیر ہیں کہ وہ بھی یہ کھانا چاہتے ہیں لیکن چونکہ وہاں قانون اور آگاہی موجود ہے تو وہ ایسی چیزوں کو کبھی کبھار کی فہرست میں شامل کر دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ آگہی اور شعور کی وجہ سے اب وہاں فاسٹ فوڈ کی تیاری میں ایسی حفاظتی تدابیر اختیار کر لی جاتی ہیں جس سے ان کے نقصانات کم ہو سکیں۔ مثلا پراسیڈ اور فروزن چکن کی مصنوعات کی جگہ اگر تازہ گوشت سے بنی ہوئی برگر پیٹز کا استعمال کیا جائے تو وہ یقینا کم نقصان دہ ہو گا۔اسی طرح سفید آٹے یعنی میدے کی جگہ اگر گندم کے آٹے سے تیار کئے برگر بن‘ پیزا اور شوارما بریڈ استعمال ہو تو مضر صحت اجزا نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگ سفید آٹے کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں جبکہ سفید آٹے یعنی میدے کا مسلسل استعمال بہت ساری بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ اسی طرح سفید چینی کی بجائے شکر اور گڑ کا استعمال صحت بخش ہے۔ بچوں کی غذائی عادات کیسی ہونی چاہیے۔ ان کو کیسے صحت مند غذائوں کی طرف راغب کیا جائے۔ اس کے ذمہ دار صرف والدین نہیں ہیں بلکہ ایک پورا ماحول ہے۔ ایک سرائوڈنگ ہے۔ جس سے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ میڈیا کا کردار بہت اہم ہے‘ اشتہارات اور ایڈورٹائزنگ کے ذریعے جو ماحول ہمارے اردگرد بنتا ہے اس میں مضر صحت اشیا کو فیشن‘ ذائقے اور سٹائل سے جوڑ کر بچوں اور نوجوانوں کو بآسانی اپنے جال میں پھنسا لیا جاتا ہے پھر وہ ان ذائقوں کے ایسے اسیر ہوتے ہیں کہ صحت مند غذائوں کے ذائقے ان کو بھاتے ہی نہیں۔ آج ہمارے ہر گھر میں مائوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ ان کے بچے سبزیاں اور دالیں نہیں کھاتے۔ سادہ غذائیں دیکھتے ہی ان بچوں کی بھوک اڑ جاتی ہے جبکہ اس وقت برگر شوارما اور اسی قسم کا کوئی فوڈ آئٹم سامنے آ جائے تو بھوک چمک اٹھتی ہے۔ صحت بخش اور غذائیت سے بھر پور غذا انسانی صحت کے لئے کس قدر ضروری ہے۔ اس کی تعلیم اور آگاہی کا کوئی اہتمام نہ تو تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں ہوتا ہے نہ یہ چوبیس گھنٹے سیاست کا راگ الاپنے والے میڈیا پر ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے تو کیا ہمارے ہاں بڑوں میں بھی صحت بخش اور متوازن غذائوں کا شعور بہت کم ہے۔ یورپی یونین کے جن ملکوں کا تذکرہ میں نے کالم کے آغاز میں کیا وہاں کے سکولوں میں غذا اور کھانا باقاعدہ نصاب کا حصہ ہے۔ ہر سکول کے بچوں کو ہر روز لنچ دیا جاتا ہے جس میں انہیں تازہ سبزیاں اور سلاد کھانے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ہر روز ایک گھنٹہ صرف کھانے کی سرگرمی رکھی جاتی ہے کہ کس طرح ہر غذائی جزو کو کھانے کا حصہ بنانا چاہیے۔ کھانا بوفے کی صورت لگا ہوتا ہے اور بچے اپنی پلیٹ خود بناتے ہیں مگر کسی کو اجازت نہیں کہ وہ صرف پاستا اور چکن سے پلیٹ بھرے بند گوبھی۔ بروکلی‘ گاجریں‘ کھیرے‘ سٹرابیری اور مختلف طرح کے پھل بھی کھانے کا حصہ بنانا ضروری ہوتے ہیں۔ اس طرح سکول کے چھوٹے بچے وہ سبق سیکھتے ہیں جو صحت مند زندگی گزارنے کے لئے از حد ضروری ہے اور پوری زندگی ان کے کام آتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے ہاں جو تعلیمی نصاب رائج ہے اس کو پوری اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ ایسے مضامین جس کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ ہی نہیں ان کو ختم کر کے ایسے مضامین شامل کریں جو عملی زندگی سے متعلق ہوں۔ اور غذائی شعور پر مبنی نصاب اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس کو سکول سے یونیورسٹی تک ہر سطح پر تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ سیاسی شعور کے بعد اب غذائی شعور کی تحریک عام کرنی چاہیے۔ کیونکہ سیاسی اور سماجی جدوجہد بھی وہی قوم کر سکتی ہے جو صحت مند ہو۔ اور صحت مند رہنے کے لئے صحت بخش کھانا کھانا ضروری ہے۔