آپ بھی ایسے لوگوں سے ضرور واقف ہونگے جو بات بات پر غیر جانبداری کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ کیوں؟ اِس لئے کہ وہ مضبوط موقف اپنانے سے قاصر ہوتے ہیں انھیں غیرجانبداری میںعافیت نظر آتی ہے۔عافیت کیا ہوتی ہے؟ عافیت تردّد اور اضطراب سے بچائو کا نام ہے ۔ آرام دہ اور پُرآسائش ماحول کے اندر آدمی اپنے حال میں مست رہتا ہے ۔ ہر قسم کی فکر اور فکرات سے آزاد ہو تاہے ۔ ٹکراور ٹکرائو کی کشمکشوں سے بے نیاز ہوتاہے ۔ چپقلشوں سے چھٹکارے کے کیف اور سرور کو محسوس کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر کچھ نہ کرنے کی لذت اور عش سے لطف اندوز ہونا جانتا ہے ۔ احساس ذمہ داری کے کرب اور عذاب سے ناآشنا ہوتاہے۔ یعنی ایک زندہ لاش ہوتا ہے جو نہ اِدھر کا ہوتاہے اور نااُدھر کا ۔ ناصر کاظمی کے بیٹے حسن کاظمی کا ایک شعر اِس موقع پر یا د آرہا ہے جو کچھ یوںتھاکہ ؎ افسوس یہ نہیں ہے کہ وہ میرا نہیں ہوا وہ شخص ساری عمر کسی کا نہیں ہوا آدمی کو کسی نا کسی کا ضرور ہونا چاہئے ۔غیرجانبدار کسی کا نہیں ہوتا۔ غیر جانبدار سے تو منافق بھی بہتر ہو تاہے کیونکہ وہ جس کی طرف بھی ہوتاہے چاہے وہ اپنی طرفداری ظاہر کرسکے یا نہ کرسکے وہ کسی ناکسی کی طرف ہوتا ضرور ہے ہر شخص کی کوئی نا کوئی پہچان ہوتی ہے ۔ غیرجانبدار کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ اب جو اپنی پہچان ہی کھو دے وہ ایک زندہ لاش نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ اللہ بخشے مجھے ریڈیو پاکستان کے ایک دوست ستار طاہر مرحوم کا ایک شعر آج تک نہیں بھولا۔ ؎ رُوپ گرگٹ کی طرح روز بدلتا کیا ہے دوست ہے یا میرا دشمن میری پہچان میں آ گذشتہ صدی میں ساٹھ کی دہائی میں جب دنیا میںدو سُپرپاور ز یعنی امریکہ اور سویت یونین ہوا کرتی تھیں اور بین الالقوامی سطح پر دنیا کے ممالک انہی دونوں کے زیر اثر بین الالقوامی تعلقات کے حوالے سے تقسیم تھے اُس وقت کے ہندوستان کے جواہر لال نہرو ، یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو، مصر کے جمال عبدالناصر ، انڈونشیا کے جنرل سہارتو وغیرہ نے غیر جانبدار ممالک کی ایک تحریک شروع کی تھی جو علیحدہ سے اپنا ایک غیر جانبدار انہ حلقہ اثر بنانے کے باوجود یوگو سلاویہ کو پارہ پارہ ہونے سے نہیں بچا سکی تھی اس لئے کہ کسی بھی سطح اور مقام پر غیر جانبداری کوئی اہمیت نہیںرکھتی۔ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیںہے۔ جو دوطرفہ نہ ہو آدمی یا جھوٹا ہوتا ہے یا سچا ، مسلمان ہوتاہے یا مشرک کافر، عیسائی ہندو سکھ یا بدھ مت کا پیروکار یا دہریہ یعنی اُسے کچھ نہ کچھ ہونا ہوتاہے جو کچھ بھی وہ ہوتا ہے اس کے علاوہ کچھ اور نہیںہوسکتا یعنی کوئی شہری یا پاکستانی ہوگا یا ہندوستانی ،برطانیوی امریکی یا فرانیسی وغیرہ دوہری شہرت کے حوالے سے بھی آدمی پاکستانی نژاد امریکی یا ہندوستانی نژاد برطانیوی شہری کہلائے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آج کی دنیا میں کوئی کہہ سکے کہ میں غیر جانبدار رہ کر اقوام عالم میں اپنی غیر جانبدار انہ شناخت کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔آدمی انفرادی اور ذہنی طور پر چاہے بین الالقوامی سرحدوں کا انکاری کیوں نا ہو وہ اپنی مرضی سے غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ آدمی یا مرد ہوتاہے یا عورت جوآدمی نامرد ہوتاہے اور ناہی عورت وہ بھی اپنی ایک جنسی شناخت رکھتا ہے لیکن جنس کے اعتبار سے غیر جانبدار ی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ جانبدار ی شعور کا جزولاینفک ہے ۔اپنے وجود کے بارے میں باشعور ہوتے ہی آدمی جانبدار ہو جاتا ہے اپنے ہر تعلق کے بارے میںجانبدار ہوجاتاہے اسکی جانبداری کا معیار اور کیفیت مختلف درجوں کی حامل ہوسکتی ہے اس کی جانبداری سود مند او ربے سود ہوسکتی ہے اس میں وقتاً فوقتاً اتار چڑھائو پیدا ہوسکتے ہیں۔ اُسے اچھائی او ربرائی کے پیمانوں سے ماپا جاسکتاہے اُس کی سطح اور گہرائی میں اترا جاسکتاہے لیکن کسی طور بھی اُس کا انکار نہیںکیا جاسکتا۔ زندگی کے ہر موڑ مرحلے اور مقام پر لمحہ لمحہ آدمی کو جانبدار رہنا پڑتا ہے۔ آدمی کے خیالات، نظریات، عقائد ، تحفظات ، ضروریات اور رجحانات انگنت ہوتے ہیں۔ انھیں چند ہی بڑے بڑے درجات میںتقسیم کیا جاسکتاہے مثلاً خیالات ،نظریات اور عقائد وغیرہ جن مختلف درجوں میںمنقسم ہوسکتے ہیں وہ دینی ، سیاسی ، مذہبی ، روحانی ، اخلاقی ، نفسیاتی ، معاشرتی ، سائینسی ، مادی ، غیر مادی علاقائی اورلسانی وغیرہ ہوسکتے ہیں ۔ اسی طرح تحفظات، ضروریات اور احساسات کے رجحا نات، غم ، خوشی ، تکلیف درد، حسد ،خلوص ، منافقت سچ، جھوٹ ،خوش خلقی ، بدمعاشی بدنیتی ، غربت وامارت ڈر اور خوف کو بلندیوں اور پستیوں کے بڑے بڑے درجات میں تقسیم کیا جاسکتاہے ضروری نہیںکہ بیان کردہ سارے درجات ان تمام احساسات سوچوں اور فکرات کا احاطہ کر سکیں جس کا سامنا ہر فرد اپنے اندر کے مدوجزر سے کرتا رہتاہے اِسی لئے کہا جاتاہے کہ سب سے بڑا بیوقوف وہ ہوتاہے جو دوسروں کو بیوقوف سمجھتاہے ۔بڑے سے بڑا نامی گرامی عقلمند اور دانشور، بزرگ اور پارساء اپنے اندر کی سِلوٹو ں ، بدگمانیوں اور نیتوں کی بے حرمتیوں کو نہیںچھپا سکتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اب زمانہ ہر طرح کی اسکینگ کا زمانہ ہے اور صرف آوازوںکا اتار چڑھائو بھی آدمی کے اندر کی کیفیت کو بے نقاب کردیتاہے۔ ہم مسلمان ہیں اللہ نے لوگوں کو مجموعی طور پر دو حصو ں میں تقیسم کررکھا ہے ایمان والے اورمشرک ان دوسطوں کی اگلی پہچان حق اور باطل کے واضح ترین درجات سے کردی گئی ہے۔ آدمی یاحق پر ہوتاہے یا باطل کا پیروکار ۔حق کا پرستا ر آخرت کی ابدی زندگی پر یقین رکھنے کے باوجود دنیاوی زندگی کا انکاری نہیںہوتابلکہ اپنی دنیاوی زندگی کو اپنے ہاتھوں اور زبان سے اللہ کے احکامات کے علاوہ کسی جن و انس ، چرند ،پرند، نباتات اور جمادات کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر آخرت کی نجات کا متمنی ہو تاہے وہ ایک ایسا طرز زندگی اپنا تاہے جو اپنی ذات کے علاوہ بھی ہر ایک کے لئے خوشی اور اطمینان کا باعث ہو۔ جو ہر وقت ہر لمحہ اور ہر ساعت دشمن کیلئے بھی سچا اور امانت دار ہو۔ سب کے لئے حق کے ساتھ جانبدار ہو اور باطل کے لئے بھی غیر جانبدار نہ ہو۔ ہمارے ایمان کی مضبوط بنیادوں کا اندازہ امام جعفر صادق ؑ کے اِ س فرمان سے بخوبی لگایا جاسکتاہے جو ایک مسلمان کی جانبداری کو واضح کردیتاہے۔ ’’تین چیزوں کے بار ے میں کسی کیلئے عذر کی گنجائش نہیں ہے ادائے امانت اچھے آدمی کی ہو یا برے کی ۔ والدین کے ساتھ احسان دونوں نیک ہوں یابُرے ۔وفا عہد اچھے آدمی کے ساتھ ہو یا برے آدمی کے ساتھ‘‘ جانبداری کی گہرائیوں کو سمجھنے کے لئے یہ فرمان بہت مددگار ثابت ہوسکتاہے۔ حق وباطل میںملاوٹ نہ حق کو اور نہ ہی باطل کو خالص رہنے دیتی ہے اس طرح آدمی کہیں کا نہیں رہتا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ پھر غیرجانبدار ہوجاتاہے ۔آدمی کو غیر جانبداری کے دیوالیہ پن سے بچنا چاہئے۔ خداہمارا حامی و ناصر ہو ۔ آمین