نجی شعبہ سرمایہ دارانہ نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملکی معیشت کی اٹھان میں سرکاری شعبے کے مقابلے میں نجی شعبہ عمومی طور پر سرمایہ کاری کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں زیادہ موثررہتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی داخلی پیداوار میں نجی شعبے کا حصہ 60 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ سالانہ معاشی جائزے کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2021 میں پاکستان کے 9 کھرب روپے کے مجموعی تشکیل سرمائے میں تین چوتھائی حصہ نجی شعبے کا ہے اور مجموعی کھپت میںیہ حصہ 80 فیصد تک چلا جاتا ہے۔ اب یہ حقیقت تو واضح ہے کہ پاکستان ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے اور اس کا معاشی مستقبل اسی نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے ،جہاں نجی شعبہ پیداواری سرگرمیوں میں غالب ہے اور رہے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں پیداواری عمل کا حصہ بننے کے لیے آپ کے پاس نوکریا اپنا ذاتی کام یا کاروبار کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔لیکن کاش سرمایہ دارانہ معاشرے میں زندگی اتنی ہی حسین اور آسان ہوتی، مگر اس کا طبقاتی ڈھانچہ اس میں موجود مختلف طبقوں کے لیے آزادی کے مختلف مفہوم اور مواقع دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی مسابقتی روح کی حفاظت اور نچلے طبقے کے لیے مواقع کی فراہمی کے لیے حکومت کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے۔یہاں سوال تو یہ بنتا ہے کہ سرکار تو یہاں موجود ہے اور اپنے حکومتی فرائض بھی سرانجام دے رہی ہے ، تو ہم کس حکومتی کردار کی بات کر رہے ہیں۔ اس اہم سوال کا جواب ہم تھوڑی دیر میں دیتے ہیں۔ اس کی تمہید کے لیے ہم ذرا نجی شعبے کی پیداواری قوتوں کی اہیت کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔ نجی ملکیت کے تحت آزادانہ کاروبار سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی پیداواری یونٹ ہے۔ اب چاہے ایک سیٹھ کی ملکیت میں کوئی سٹیل مل ہو یا کوئی دکاندار پرچون کی دکان چلا رہا ہو، دونوں ہی سرمایہ دارانہ اصولوں کے تحت قائم ہیں۔سرمایہ دارانہ معاشرے کی بنیادیں ایک تکون پر استوار ہوتی ہیں۔جہاں پر لوگوں کی طبقاتی اور مالی حیثیت کے اعتبار سے درجہ بندی ہوتی ہے۔طبقاتی تقسیم میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،اگر نظام نچلے طبقات کو معاشی طور پر اوپر آنے کے مسابقتی مواقع فراہم کرہا ہو۔مگر فی الحال ہمارے ملک میں کتابی آزادانہ سرمایہ دانہ نظام رائج نہیں ہے اور شاید کبھی طویل عرصے تک نہ ہو۔ یہ المیہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہمارے جیسے بیشمار ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک بھی وسائل اور دولت کی شدید عدم تفاوت کا شکار ہیں۔اور اس ناانصافی پر مبنی صرف نام کا سرمایہ داری نظام پھر غیر رسمی معیشت کو جنم دیتا ہے۔ یہاں پر اسٹیل مل کا سیٹھ بھی ٹیکس چوری کا پیسہ چھپاتا ہے اور پرچون کا دکاندار بھی بغیر ٹریڈ لائسنس کے کام کرتا ہے۔ دونوں کو سرکاری اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنی پڑتی ہے۔ اور جب وہ اپنے کاروبار کو رسمی معیشت سے باہر رکھتے ہیں، تو پھر اس کی قیمت کاروبار بڑھانے کے لیے بینک قرضوں سے محرومی میں ادا کرتے ہیں۔ سیٹھ کو تو شاید اتنا فرق نہ پڑے کہ اس کے لیے بینک والے کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔ مگر پرچون والے کو تو بینکوں سے قرضہ ملنے کی گنجائش ویسی ہی کم ہوتی ہے، غیر رسمی معیشت میں تو اور بھی کم ہوجائینگی۔ اس کالم کے لیے ہماری توجہ کا مرکز سرمایہ دارانہ نظام کی وہ پیداواری قوتیں ہیں،جو اس کے تکون کے سب سے نچلے حصے میں ہوتی ہیں۔اسٹیٹ بنک کے مروجہ تعارف میں انہیں مائیکرو انٹرپرائزکہتے ہیں، جہاں زیادہ سے زیادہ نو افراد کام کرسکتے ہیں۔اس پیداواری یونٹ کا ذکر ہم اس کالم میں مائیکرو بیوپار کے نام سے کریں گے۔پاکستان مائیکرو فنانسس نیٹ ورک کی ایک اسٹڈی کے مطابق ملک میں مائیکرو بیوپار کا تعداد 58 لاکھ کے قریب ہے، جس میں زراعت، انڈسٹری اور خدمات تینوں کے سیکٹرز شامل ہیں۔یہ وہ چھوٹے کاروباری ہیں،جو کمرشل بینکوں کے قرضے کی شرائط پر پورا نہیں اترتے ہیں،یہ مائیکروفنانسس بینکوں سے قرض لینے کے اہل ہوتے ہیں۔پیشے کے حساب سے پرچون والے، بڑھئی، پلمبر، مکینک، ریڑھی بان، درزی، دستکار اور دوسرے چھوٹے کاروباری مائیکروبیوپار ہوسکتے ہیں۔ سال 2019ء میں مائیکرو فنانسس بینکوں نے 128,770مائیکرو بیوپاروں کو کل 19ارب روپے کے قرضے فراہم کیے، جو کہ مائیکرو فنانسس پورٹ فولیو کا صرف 7.2فیصد حصہ ہے۔یہاںیہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مائیکرو بیوپار کو مائیکرو فنانسس قرض کے علاوہ بھی کاروبار بڑھانے کے لیے مدد فراہم کی جاسکتی ہے اور سرکار کی اس کارخیر میں ضرورت ہوتی ہیں۔ اب ہم اس سوال کا جواب دیںگے کہ مائیکرو سطح کے کاروبار کی سپورٹ کے لیے حکومت کیا کام کر سکتی ہے۔ مسئلہ چھوٹے بیوپاری کو ہے،کہ وہ بہت کم سرمائے کے ساتھ غیر رسمی معیشت میں کام کررہے ہوتے ہیں اور کسی قسم کا بڑا مالی بار ان کو غربت کی سطح سے اٹھنے ہی نہیں دیتا ہے۔مائیکرو بیوپاروں کو رسمی معیشت میں لانے کی ضرورت تو ہے، لیکن اس کے لیییہ تو لازم نہیںہے کہ وہ فوری طور پر ایف بی آر سے ٹیکس نمبر لے اور اپنے آپ کو رجسٹرڈ کرائے۔ یہ اپنا سفر میونسپلٹی سے ٹریڈ لائسنس لے کر شروع کر سکتے ہیں۔ سرکار کو سالانہ لائسنس فیس ملے گی اور ان کی بینک قرضے کے لیے اہلیت بڑھے گی۔ حکومت اپنی مختلف اسکیموں سے گارنٹی اور مارک اپ سبسڈی دے کر ان مائیکرو بیوپاریوں کا مالی بوجھ کم کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی تربیت کر کے ان کو ڈیجیٹل معیشت کا حصہ بھی بنائے جاسکتا ہے،جہاں وہ اپنی ادائیگیاں اور وصولیاں آن لائین اور کیوآر کوڈ سے کرسکتے ہیں اور ای کامرس کی ویب سائٹس اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔سرکار پر ان اقدامات کا مالی بوجھ تو ان ٹیکس رعایتوں سے،جو وہ بڑی انڈسٹری کو دے رہی ہیں،بہت کم ہونگے۔ مگر اس کے اثرات تخفیف غربت اور سماجی تبدیلی پر بہت گہرے اور پر اثر ہونگے۔