مکرمی !یہ ایامِ عید ہیں۔ محروم، بے حس اور ستم رسیدہ معاشرے میں اس دن سے منسوب خوشیوں کا احساس ایسے پھیل جاتا ہے جس طرح کسی خشک تپتے صحرا میں بارش ہوتی ہے۔ نخلستانوں میں تو یہ بارش مزید ہریالی اور شادابی لاتی ہیں۔ لیکن صحرا میں یہ پھوار ایسے غائب ہوجاتی ہیں جیسے کبھی برستے بادلوں کا گزر ہوا ہی نہیں تھا۔ایسے تہواروں کو ہر معاشرے کی رائج الوقت قدریں اور رحجانات خوشیوں کی امیدوں سے لبریز کر دیتے ہیں۔ لیکن غریب کی دہلیزپر یہ خوشیاں ایسے ہی آتی ہیں جیسے کسی کالے بادلوں کے جھرمٹ کا صحرا کے اوپر سے گزر ہو۔امیروں، صاحب حیثیت کی عید اس لئے زیادہ پرمسرت ہوتی ہے کہ ان کو خوش کرنے کے لئے ان کے پاس پہلے ہی عیاش و آلائش کا سامان موجود ہوتا ہے، پھر عزیز و اقارب عیدیاں بھی دیتے ہیں۔ مال و دولت کی فروانی، شان وشوکت کے محلات کی بدولت لوگ ان کو زیادہ شدتِ جذبات سے پیار کرتے ہیں۔ ان کی باتیں مانی جاتی ہیں۔ تو دوسری ہی طرف غریب طبقات کے لوگ قرض لے کر نئے کپڑے اور کھلونے اپنے بچوں کو دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن عید کے روز لاکھوں کروڑوں بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ راحت اور خوشی کے تہوار والے دن بھی مشقت سے چھٹکارا حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور ان کے والدین پر یہ عید قیامت بن کر ٹوٹتی ہے۔درحقیقت عید نام ہے اپنے معاشرے کے ناداروں، مسکینوں، سفید پوشوں کے ساتھ خوشی باٹنے کا،لیکن ہمارے معاشرے میں فطرانے کے ریٹ مقرر ہوتے ہیں۔ اس روز بالادست اور درمیانے طبقے کی بالائی پرتوں میں فیاضی کے جذبے کچھ زیادہ ہی مچل اٹھتے ہیں۔ یہ شاید کفارہ ادا کر کے مصنوعی تسکین کے حصول کی کوشش ہوتی ہے۔ (عابد ہاشمی، آزاد کشمیر)