سیاست کے منظر نامے پر وہی ہو رہا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ بیانات‘ تقریریں‘ الزامات‘ مذمتیں‘پریس کانفرنسیں‘ سیاسی حلیفوں اور حریفوں سے ملاقاتیں‘ ٹرین مارچ‘ ریلیاں‘ جلسے‘ اگلی حکمت عملی طے کرنے کے لئے بات چیت‘ سیاسی دائو پیچ کھیلنے کی ہمہ وقت تیاریاں‘ سیاست کی بساط پر حریف کو شہ مات دینے کا لائحہ عمل۔ قبل از وقت ضمانتوں کی تیاریاں‘ قانون کی گرفت سے خود کو بچانے کے تمام خفیہ اور ظاہری حربے۔ ٹی وی چینلوں کے تھڑوں پر بیٹھ کر حریفوں سے آن کیمرہ دوبدو لڑائیاں اور آف کیمرہ معانقے۔ کہیں کہیں مگر ذائقہ بدلنے کو غریب شہر کے دکھوں کا تذکرہ۔ سادگی کی باتیں ۔ قانون کی بالادستی کے نعرے۔ وی آئی پی کلچر کو صلواتیں۔ مگر صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کو۔ حکمران اپنی کرسی مضبوط کرنے کے خواہاں اور باقی اپنی باریاں پھر سے لینے کو تیار۔ سیاسی اشرافیہ سیاست کرنے کی یہ عیاشی‘ غریب شہر‘ جمہوریت اور ملکی مفاد کے نام پر دھڑلے سے کرتی ہے لیکن مجھے تو حیرت ہوتی ہے اس ملک کے عوام پر نہ جانے وہ کس خمار میں بھوکے پیٹ ان کے جلسوں‘ ریلیوں‘ اور ٹرین مارچوں میں نعرے لگاتے اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ کاروان بھٹو کے نام سے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کا سیاسی تھیٹر عوام کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ یوں بھی پیپلز پارٹی کے پاس بھٹو کے نام کو بیچنے کے علاوہ اور ہے کیا۔ اگرچہ عملاً تو پیپلز پارٹی‘ بھٹوز کے ہاتھ سے اب سندھ کے زرداریوں کے ہاتھ لگ چکی ہے۔ زردار تو پھر زردار ہیں۔ جن کی سیاست کا مرکز و محور ہی صرف زر اور زمین ۔ پیسہ بنانے اور پیسہ چھپانے اور پیسہ بچانے کی سرگرمیوں تک محدود …سیاست بھی ان کے لئے ایسی سرگرمیوں اور مصروفیات کا دوسرا نام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھٹو کے نظریات کے پیرو کار ہیں۔ غریب کا نام لیتے ہیں اور غریب کے نام پر سیاست کرتے ہیں بلکہ غریب پر سب سے زیادہ حق پیپلز پارٹی کا ہی سمجھتے ہیں اور دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ یہ غریبوں کی پارٹی ہے۔ چونکہ ان کی سیاست کی گاڑی کا ایندھن غریب عوام ہیں سو ہر ممکن کوشش یہی کرتے ہیں کہ غریب کی غربت میں کمی نہ ہو۔جہالت اور غربت پھلے پھولے اور ساتھ ہی ان کی سیاست کی فصل بھی پُر بہار رہے۔ اپنے اس عزائم میں کافی حد تک کامیاب ہیں۔ ان کی مسلسل کوششوں سے سندھ کا شمار پاکستان کے پسماندہ اور غربت زدہ صوبے میں ہوتا ہے۔ یہ ہمارے اندازے اور تخمینے ہیں بلکہ ورلڈ بنک کی حالیہ تازہ ترین رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سندھ اور بلوچستان پاکستان کے زیادہ پسماندہ ضلع ہیں جبکہ پنجاب اور کے پی کے میں صورت حال قدرے بہتر ہے۔ شہروں کی نسبت ‘ سندھ کے گوٹھوں دیہاتوں میں صورت حال زیادہ ابتر ہے۔ ان گوٹھوں سے سندھی وڈیرے غریب غربا کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں تو ضرور پہنچتے ہیں لیکن چونکہ ان کی یادداشت کمزور واقع ہوئی ہے لہٰذا غریب غربا کے مسائل جیسی معمولی چیزیں ان کے ذہن سے محو ہو جاتی ہیں۔ اب اس میں ان کا بھی کیا قصور سائیں ۔ اقتدار کا شہر ہو۔ یا پھر اقتدار کا سحر ہو۔ دونوں ہی جان لیوا نشے ہیں۔ کچھ یاد نہیں رہتا۔ سوائے اپنے مفاد۔ اپنی جیب اور اپنے وی آئی پی ’’مسائل‘‘ کے۔کم و بیش گزشتہ 12برس سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور کارکردگی یہ ہے کہ اس وقت ایک ریسرچ کے مطابق سندھ کے دیہاتی علاقے میں رہنے والے 70فیصد سندھی غریب ہیں اور ان میں سے بھی 50فیصد خط غربت کے نیچے سانس رہے ہیں۔ غربت کی تعریف اگر کریں تو سادہ سے الفاظ میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے مثلاً خوراک‘ رہائشیں‘ دوا‘ لباس سے محرومی یا کم دستیابی غربت کہلاتی ہے۔ لیکن وہ مخلوق جو غربت سے بھی نیچے زندگی جی رہے ہیں ان کی اذیت اور محرومیوں کا اندازہ شاید آپ ہم نہ لگا سکیں۔ سندھ کے دیہاتوں میں غربت کی کئی شکلیں موجود ہیں۔ پورا پورا خاندان وڈیروں کی زمینوں پر بیگار کاٹتا ہے یہ ہاری شاید سانس ہی وڈیرے کی مرضی سے لیتے ہیں۔ سال بھر سے زیادہ ہونے کو آیا جب سندھی وڈیرے اور پیپلز پارٹی کے سینئر سیاستدان میر ہزار خان بجارانی نے اپنی دوسری بیوی کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔ میر بجارانی اپنے اندرون سندھ میں اپنے علاقے کے 14چھوٹے بڑے گوٹھوں کے سردار تھے۔ زندگی میں کبھی الیکشن نہیں ہارے۔ آدھی سے زیادہ عملی زندگی شہر اقتدار میں گزاری لیکن جن گوٹھوں کے سردار تھے وہاں شعور ‘ علم اور ترقی نہیں ہونے دی۔ مزارعوں اور ہاری کی اولادوں کو شعور دے دیا تو پھر انسانوں کو خدا کون مانے گا۔غربت نے سندھ پر اپنے تاریک سائے پھیلا رکھے ہیں۔ وڈیروں کے مقابل معاشی اور کمزور سیاسی سماجی پس منظر رکھنے والے زمینداروں کی زمینیں پیاسی رہتی ہیں۔ زمینوں کی سیرابی کے لئے آب پاشی کا نظام بھی جہاں سیاست سے آلودہ (Politicise)ہوں وہاں زراعت کا کیا حال ہو سکتا ہے۔ تھر کی بدقسمت زمین جہاں انسان نما کوئی مخلوق بستی ہے۔ صاف پانی کا گلاس جن کے لئے ایک عیاشی سے کم نہیں۔ پیٹ بھر کر روٹی کھانا تو تھریوں کو کبھی بھی میسر نہیں رہا۔ قحط زدہ مرد‘ نڈھال مائیں‘ ادھ موئے بچے‘ جاں بلب مور اور مویشی۔ یہ ہے 21ویں صدی کے سندھ کا تھر۔ سندھ کے حکمران مگر ٹرین مارچ کرتے کارواں بھٹو کے لئے شہر در شہر پھر غربت دور کرنے۔ روٹی کپڑا اور مکان دلانے کے نعرے لگا رہے ہیں اور غربت مہنگائی‘ ناانصافی اور مسائل سے ادھ موئے عوام زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔ کے نعروں پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔