ڈاکٹر امجد ثاقب کو سماج کے نظر انداز طبقات کی حالت بدلنے اور مدد کرنے پر ایشیا کا سب سے بڑا رامون میگسیسے ایوارڈ ملا ہے۔ان سے پہلے عبدالستار ایدھی، بلقیس ایدھی کو بھی انسانی خدمات کے اعتراف میں یہ ایوارڈ مل چکا ہے۔ خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی خدمات کو پذیرائی مل رہی ہے۔ مائیکرو فنانس کے اس ماڈل اور اخوت کے بارے بیس اکیس سال پہلے شاید سب سے پہلا کالم میں نے ہی لکھا تھا۔ ’’اخوت‘‘ قائم ہونے کے بعد ڈاکٹر امجد ثاقب نے کاسمو پولیٹن کلب باغ جناح میں ایک تقریب ملاقات رکھی تھی۔ اس وقت کے ضلع ناظم اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ چند افراد شریک ہوئے۔ الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا اس لیے ہجوم تھا نہ بدنظمی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ ایک سرکاری افسر ہیں۔ اخوت کا خیال انہیں مواخات مدینہ سے ملا جب وسائل رکھنے والے انصار مدینہ نے وسائل سے محروم مہاجرین مکہ کے لیے اپنے گھر اور دل کے دروازے کھول دیئے‘ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا تھا کہ انہوں نے چند صاحب ثروت دوستوں کے ساتھ مل کر پچاس ساٹھ لاکھ کے فنڈز جمع کرلیے ہیں۔ اس وقت کے ضلع ناظم لاہور میاں عامر محمود نے بھی خاصی رقم اخوت کے فنڈ میں عطیہ کی تھی۔ بہت سے لوگوں نے نام نہ بتانے کی شرط عائد کر کے اخوت کی مدد کی۔ شروع میں اخوت کا ایک ہی دفتر تھا۔ ٹائون شپ میں محدود تعداد کا عملہ۔ ان دنوں کشف بینک اور بنگلہ دیش کے محمد یونس کے گریمی بینک کا شہرہ تھا۔ کشف فائونڈیشن ایس ایم ظفر کی صاحبزادی روشانے ظفر کی تنظیم ہے۔ اس تنظیم نے گھروں میں رہ کر چھوٹا موٹا کام اور دستکاری سے وابستہ خواتین کو آسان شرائط پرچھوٹے قرضے دینے شروع کئے۔ چند سال پہلے اس ادارے کے خلاف ایک مہم شروع ہوئی اور بہت سے لوگوں نے قرض واپس کرنے سے انکار کردیا۔ کشف فائونڈیشن این جی او ہے۔ کام کو پھلتا پھولتا دیکھا تو کشف بینک قائم کردیا۔ یہ ادارہ اچھے طریقے سے شروع ہوا لیکن اب حالت اچھی نہیں لگتی۔ محمد یونس نے سب سے پہلے مائیکرو فنانس کی اہمیت کو سمجھا۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے انتہائی غریب افراد کو چھوٹے قرضے دیئے۔ محمد یونس اور روشانے ظفر کا مائیکرو فنانس ماڈل لگ بھگ ایک جیسا ہے‘ دونوں نے معمولی ضمانت پر صرف چھوٹے قرضے جاری کئے اور ان قرضوں پر 2 فیصد شرح منافع حاصل کی۔ ’’اخوت‘‘ نے بالکل الگ تجربہ کیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا تھا کہ وہ گھریلو دستکاری اور ہنر والی خواتین‘ ریڑھی بانوں‘ مزدوروں اور چھابہ فروشوں کو اپنا کام اور اڈابنانے میں مدد دینا چاہتے ہیں‘ دس ہزار سے بیس ہزار تک کے یہ قرضے حاصل کرنے والوں سے نہ گھر کی رجسٹری طلب کی جاتی نہ کسی دوسرے شخص کی ضمانت۔ طریقہ بڑا سادہ رکھا گیا‘ جن درخواست گزاروں کو قرض دینا ہوتا انہیں کسی مسجد یا بزرگ کے مزار کے احاطے میں مدعو کیا جاتا۔ وہیں چیک جاری ہو تے۔ قرض لینے والے نے جتنی رقم لی ہے اتنی ہی آسان اقساط میں واپس کرتا ہے۔کوئی قرضہ ہڑپ نہیں کرتا۔ چند لاکھ روپے سے شروع ہونے والا یہ نیک کام اب اربوں روپے کے فنڈ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اب تک ہزاروں لوگ ان پیسوں سے سلائی مشینیں‘ موٹرسائیکل رکشے‘ ریڑھیاں اور کام کے اوزار خرید کر اپنے ہنر اور کام سے زیادہ آمدن حاصل کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ایک تحقیق سے منسلک ہونے کا موقع ملا۔ اس تحقیقی کام میں یہ افسوسناک سچ سامنے آیا کہ قائد اعظم کے سوا پاکستان کے ہر سیاستدان اور اہم آدمی نے کسی نہ کسی موقع پر ناجائز ذرائع سے دولت کمائی یا ناجائز کام کیا۔ 1985ء کے بعد تو خیر سے کرپشن کو برا سمجھنا ہی چھوڑ دیا گیا۔ لوگوں نے اعلیٰ ملازمت اور سیاست میں حصہ داری اسی لیے کی کہ یہاں ناجائز کمائی کے کثیر ذرائع ہیں۔ حکمرانوں کی دیکھا دیکھی چائے پانی کے نام سے بدعنوانی نائب قاصدوں اور پولیس کانسٹیبل تک آ گئی۔ سماج میں مادہ پرستی نے ہر چیز کی قیمت مقرر کردی۔ لوگ اپنے عزیز رشتہ داروں ،واقف کاروں اور گلی محلے والوں کے کام بنا کسی لالچ کے کردیا کرتے تھے۔ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ سفارش کی بھی ایک قیمت ہے۔ جو یہ قیمت ادا نہیں کر سکتے وہ فائلیں اٹھائے ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ایسے سماج میں لوگوں کو بلاسود قرضے دینا اور پھر ان قرضوں کی واپسی کا عمل موثر بنانا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ اس میں جہاں اخوت کی خدا ترسی اور ضرورت مند افراد پر بھروسہ کی بات ہے وہاں غریب ضرورت مندوں کی نیک نیتی بھی قابل ستائش ہے کہ 99 فیصد سے زائد قرضے واپس کر دیئے جاتے ہیں۔ یقینا یہ ایک انوکھا اور شاندار تجربہ ہے جو زوال کا شکار سمجھے جانے والے پاکستانی سماج کے لیے حیرت انگیز ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت کو ان کے پرستار کالم نگار عموماً ایک خاص دینی فریضے سے جوڑنے کے بعد اس کے سماجی اثرات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اس سے ڈاکٹر امجد ثاقب اور اخوت کو بطور بینکاری ماڈل اور سماج کے محروم طبقات کی بحالی کی تحریک کے نمایاں نہیں کیا جا سکا۔ میگسیسے ایوارڈ کا ملنا ڈاکٹر امجد کے کام کو عالمی سطح پر روشناس کرانے کا ذریعہ ہو گا۔ جنوبی ایشیا میں دنیا کی غریب ترین آبادی 60 کروڑ سے زیادہ ہے۔ حکومتی ہنر سکھانے کے کورسز کرواتی ہیں لیکن ہنر مند لوگ اپنے کام کے آلات و اوزار تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ غریب عورتیں گھروں سے باہر جا کر استحصال کا شکار ہوتی ہیں‘ انہیں پورا معاوضہ نہیں ملتا۔ مردوں کے ساتھ کام کرنے کے مسائل ہیں‘ گھر سے باہر آنے جانے کی مشکلات ہیں۔ ایسی عورتوں کو معمولی رقم کے قرض حسنہ فراہمی کر کے پائوں پر کھڑا کرنے سے جو انقلاب آ سکتا ہے اس کا کسی نے تجزیہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب، آپ زوال پذیر معاشرے میں عروج کی امید بن کر سامنے آئے ہیں۔ آپ کا شکریہ کہ پاکستان کو عمل سے تبدیل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔