مسلم لیگی لیڈر احسن اقبال نے کہا ہے کہ کشمیر پر سخت سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ بعض احباب کا خیال ہے کہ جنگ کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پورا سچ یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک آپشن ضروری ہے۔ جنگ کا آپشن ہماری حکومت کے مطابق خارج از امکان ہے۔ وہ اتنی زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکی ہے کہ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں کہ خود بھارت حیران ہے۔ بھارت نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ وہ جنگ نہیں چاہتا اور عام خیال یہی ہے کہ جنگ ہوگی بھی نہیں۔ بھارت آزاد کشمیر پر قبضے کا ارادہ ظاہر کر چکا ہے لیکن وہ مستقبل قریب ترین میں کوئی ایسا ایڈونچر نہیں کرے گا۔ دوسرا آپشن سفارت کاری ہے وہ بلا شبہ کامیاب ہے ٭٭٭٭٭ ایک خبر بعض معاصرین نے چھاپی ہے کہ سرکاری یونیورسٹیاں زندگی موت کی کشمکش میں ہیں۔ ایسے وقت میں کہ مہنگائی سے اخراجات میں 50فیصد اضافہ ہو گیا ہے حکومت نے ان کی گرانٹس لگ بھگ آدھی کر دی ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں نے کام چلانے کے لئے فیسوں میں اضافہ کر دیا۔ جس سے ہزاروں طالب علم داخلوں سے محروم رہ گئے۔ یونیورسٹیوں کو تنخواہیں دینے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ تشویش کی کوئی بات نہیں۔ قومیں تعلیم سے ترقی نہیں کیا کرتیں پختونخواہ صوبہ اس صداقت کی زندہ سلامت گواہی دے رہا ہے جہاں آدھے سرکاری سکول بند کئے جا چکے۔ صوبہ پھر بھی ترقی کر رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ پشاور میں ڈاکٹر احتجاج کر رہے ہیں۔ پہلے روز ان پر سخت لاٹھی چارج ہوا۔ پشاور سے ایک واقف کار نے اس لاٹھی چارج کی شدت بتائی۔ کہا کہ پولیس نے پورے خشوع و خضوع سے ڈاکٹروں کی مرمت کی۔ ایسی کہ صوبے کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بہت سے ڈاکٹر آرتھو پیڈک کے سٹڈی کیس بن گئے۔ پوچھا ک ایسا کیوں۔ ڈاکٹر تو تبدیلی کے اتنے حامی تھے۔ بتایا کہ تبدیلی کے اندر سے جو تبدیلی نکلی وہ اس کی مخالفت کر رہے تھے‘ اس ’’تبدیلی‘‘ کی کہ صوبے کے سرکاری ہسپتال ’’نج کاری‘‘ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ڈاکٹر اور مریض گھاٹے میں‘ کچھ ’’مستحقین‘‘ فائدے میں رہیں گے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹربرکی نے کیا ہے جو امریکہ میں بیٹھ کر وفاقی ہیلتھ ٹاسک فورس کی سربراہی کر رہے ہیں۔ نج کاری کے بعد مریضوں کو رہی سہی سہولتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ ہربات کے پیسے لئے جائیں گے۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر برکی کے پاس حکومت کے چار محکمے یا ادارے ہیں جو وہ امریکہ بیٹھ کر چلا رہے۔ پوچھا‘ کیا وہ اتنے زیادہ قابل ہیں۔ بتایا کہ بہت زیادہ۔ ان کے میرٹ اور صلاحیتیں بے حساب ہیں۔ پوچھا مثلاً کون کون سی؟ بولے سب سے بڑی صلاحیت یہ ہے کہ وہ وزیر اعظم کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ پوچھا مزید‘ فرمایا مزید صلاحیتیں صیغہ رازہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ نے انہیں غیر ذمہ دار اور نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد انہیں ٹاسک فورس کا چیئرمین بنا دیا گیا تاکہ نااہلی دور ہو‘ ذمہ داری آئے۔ ٭٭٭٭٭ غریب کی کون سنتا ہے‘ چھاپنا تو دور کی بات لیکن ایک اخبار نے اپنے صفحہ 5پر پنجاب کے غریب سکول ٹیچرز کی فریاد چند سطروں میں سنگل کالم چھاپ دی ہے جو اس کی غریب پروری کا ثبوت ہے۔ خبر میں پنجاب ٹیچرز یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹیچرز پر حیلے بہانے سے طرح طرح کے جرمانے کر کے انہیں روکھی سوکھی سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت نے حاضری رجسٹر‘ امتحانات وغیرہ کے نام پر یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ سکول ٹیچرز ہمارے معاشرے کے ’’دلت‘‘ ہیں ۔ پرویز الٰہی کے دور میں آرڈر تھا کہ جب بھی جلوس نکالیں سڑکوں پر لٹا کر مارا جائے۔ شہباز دور میں سڑکوں پر لٹانے کی شق ختم کر دی گئی۔ باقی ’’مراعات‘‘ جوں کی توں ہوتی رہی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے کم تنخواہ پانے والوں کی صف میں شامل ہیں۔ خاں صاحب نے ریاست مدینہ قائم کی تو بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے سے ان کی تنخواہ لگ بھگ 25فیصد کم ہو گئی۔ مہنگائی کی باقی اصناف نے مزید 25فیصد گھٹا دی اب رہ گئی باقی کی آدھی تو وہ حکومت بے تحاشا جرمانوں کے نام پر کاٹ رہی ہے۔ اب ٹیچر بھوکوں مریں یا نوکری چھوڑ دیں سکولوں کے بکھیڑے سے نجات کا کیا ہی سیف اینڈ سائونڈ طریقہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ صدر عارف علوی نے نیب سے کہا ہے کہ وہ ’’اس رقم‘‘ کا سراغ لگائے جو ملک سے چوری کی گئی پھر نہ جانے کہاں غائب ہو گئی۔ دیکھیے ‘ پہلے سے سراغ لگانے میں مصروف نیب اس فرمائش کا کیا جواب دیتا ہے لیکن اس فرمائش سے یاد آیا‘ ایک صاحب وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کے نام سے ہوا کرتے تھے۔ ہر تیسرے روزدو چار ارب ڈالر کی چوری شدہ رقم کا سراغ لگاتے تھے اور ہر چوتھے روز نواز شریف‘ شہباز شریف ‘ اسحاق ڈار کی نئی جائیدادیں ڈھواڈ کر لایا کرتے تھے۔ مل ملا کر وہ کئی کھرب ڈالر کا سراغ لگا چکے تھے۔ کئی ہفتے شاید دو مہینے ہوئے‘ لاپتہ ہیں۔ لندن میں ایک کھربوں پتی کے نمائندے سے ’’بریف کیس‘‘ وصول کرنے کے بعد سے غائب ہیں۔ نیب لوٹی دولت کو چھوڑے‘ شہزاد اکبر کا سراغ لگائے کہ کہاں ہیں۔ کھربوں ڈالر وہی لا کر دے سکتے ہیں۔ نیز یہ بھی پتہ چلا کہ بریف کیس میں کیا تھا‘ لڈو یا بتاشے؟ اور ہاں ’ یاد آیا۔ سابق دور میں ہر روز ارب ہاارب ڈالر کی کرپشن ہوتی تھی۔ یعنی سال کی چار ہزار تین سو اسی ارب کی کرپشن۔ وہ ختم ہوئی کہ نہیں؟