کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ بالآخر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان سانحہ ساہیوال کے لٹے پٹے‘ غمزدہ بچوں کے پاس اشک شوئی کے لئے پہنچے اور انہیں دو کروڑ کی رقم بطور امداد پیش کی۔ سرکار کا مظلوم بچوں کو دوکروڑ کی رقم دینا۔ کسی بھی طور اس ظلم کی تلافی نہیں ہے جن میں انہوں نے اپنی زندگی کا ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔ یہ کسی بھی طور اس کرب کی تلافی نہیں ہو سکتا۔ جس سے یہ ننھے بچے تاعمر گزرتے رہیں گے۔ جب تک ظالم کو سزا نہیں ہوتی۔ غم و غصہ سے بوجھل دلوں کو سکون نہیں ملے گا۔ ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا کا وعدہ وزیر اعظم نے کیا تھا جب وہ قطر میں تھے اور کہا تھا کہ وہ واپس آتے ہی اس کیس کو خود دیکھیں سانحہ ساہیوال 19جنوری کو ہوا اور وزیر اعظم اس سانحے کے تقریباً ڈھائی ماہ کے بعدمظلوم معصوم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کو آئے۔ وزیر اعظم کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کسی بھی حوالے سے ردعمل اور جوابی کارروائی اگر بروقت ہو تو اس کا تاثر ہی اور ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ڈھائی ماہ گزار کے آپ وہ کام کریں جو آپ کو فوری کرنا چاہیے تھا۔ قدرت کے بنائے ہوئے اس کائنات کے نظام میں بھی وقت کی اہمیت بنیادی ہے۔ ایک پنجابی کہاوت ہے کہ ویلے دیاں نمازاں تے کویلے دیاں ٹکراں۔ یعنی وقت پر ادا ہو تو نماز ہے بے وقت کی نماز بھی روح سے خالی ہو جاتی ہے۔امید ہے کہ وزیر اعظم سانحہ ساہیوال کے متاثر بچوں کو دو کروڑ روپے دینے کے بعد اس سانحے کو بھول نہیں جائیں گے ایک انگریزی ضرب المثل ہے کہ A Justice delayed is justice denied' ’’انصاف ملنے میں تاخیر بھی ایک طرح کی ناانصافی ہے‘‘۔ کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو ہر دور میں موجود بھی رہے ہیں اور ان پر بات بھی ہوتی رہتی ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ عین عوامی ہے۔ اس لئے اس پر صحافتی اشرافیہ کا قلم کم ہی اٹھتا ہے۔ ہماری صحافتی اشرافیہ کا پسندیدہ موضوع سیاسی قلا بازیاں اور سیاسی منظر نامے پر ہونے والا سیاسی تماشاہے۔ اس میں ان کا دل خوب لگتا ہے اور قلم خوب چلتا ہے۔ مہنگائی ‘ غریب غربا‘ متوسط ‘ سفید پوش اور مڈل کلاسیوں کا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا نا کہ یہ عین عوامی مسئلہ ہے۔ اسی لئے شاید میں بھی اسی گھسے پٹے موضوع پر لکھ رہی ہوں کہ میرے نزدیک صحافت اگر آپ کو عوام کے مسائل سے جوڑتی ہے تو یہ پروفیشن سے بڑھ کر پیشن (Passion) میں ڈھل جاتی ہے اور اگر آپ political liliputian۔(سیاسی بونوں) کی اکھاڑ پچھاڑ، سیاسی جوڑ توڑ اور ان مفاد پرست سیاسی بازی گروں کی بازی گریوں پر ہی ٹاک شوز کرنا اور تبصرے کرنا صحافت سمجھتے ہیں تو نہایت معذرت کے ساتھ منیر نیازی کے مشہور شعر کا دوسرا مصرعہ یاد آتا ہے’’ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے‘‘ مہنگائی ہر دور میں ہی رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت میں اس کے رنگ ڈھنگ نرالے ہیں۔ اس پر مستزاد تحریک انصاف کے سیاست دانوں کی ڈھٹائی اور بے حسی۔ جس میں انہوں نے گزشتہ حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مہنگائی کے ہاتھوں لوگ جس طرح ذلت اورخواری کے ساتھ جی رہے ہیں۔ اس کا احساس بھی اگر اس تبدیلی سرکار کو ہوتا تو بڑی بات تھی لیکن یہاں تو پی ٹی آئی سیاست دانوں کے بیانات ایسے ہیں جیسے زخموں پر نمک چھڑک دیا جائے۔شیخ رشیدکس ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں‘ بجلی مہنگی ہوئی‘ پٹرول مہنگا ہوا نہ دوائیں مہنگی ہوئیں اور اب اگر گوشت بھی مہنگا ہو گیا ہے تو کون سی قیامت آ گئی ہے! بے حسی کے مائونٹ ایورسٹ پر بیٹھے ہوئے تبدیلی کے دعوے دار ایک صاحب غریب شہر کو مشورہ دیتے ہیں کہ دو کی بجائے ایک روٹی کھائیں اور اگر ایک روٹی کھانے کی اوقات ہو تو پھر آدھی کھائیں اور اگر آپ کی اوقات اور غربت آپ کو آدھی روٹی کھانے کی اجازت دیتی ہے تو پھر ملک کے معاشی کے پیش نظر آدھی روٹی سے بھی گریز کریں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا۔ مر جائیں گے تو کوئی بات نہیں کوئی قیامت تو نہیں آ جائے گی۔ ایک طرف پی ٹی آئی کی حکومت مہنگائی کر کے گوشت‘ پھل‘ روٹی‘ سبزی دال کو غریب کی پہنچ سے دور کر رہی ہے اور دوسری طرف محکمہ سکینڈری ہیلتھ اینڈ کیئر کی طرف سے پنجاب کی ہر ڈسٹرکٹ میں نیوٹریشن ویک منا کر غریبوں کی غربت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں جب روکھی سوکھی کھا کر پیٹ بھرنا بھی غریب کے لئے دوبھر ہو گیاہے۔ حکومت صرف اپنی فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لئے نیوٹریشن ویک منانے کا پاکھنڈ کر رہی ہے۔ خبر میں لکھا تھا کہ باقاعدہ خون کے ٹیسٹ کئے جائیں گے اور عورتوں اور بچوں میں غذائیت کی کمی کے لئے انہیں وٹامنز فراہم کئے جائیں گے! یہ تہی دستی اور مفلسی کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ یو این کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 45فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔32فیصد بچے کم غذا کھانے کی وجہ سے وزن میں کمی کا شکار ہیں اور 15فیصد بچوں کو غذائی کمی کی وجہ سے متعدد بیماریاں لاحق ہیں۔ یہ صرف بچوں کے اعداد و شمار ہیں۔ ان غریب بچوں کے ماں باپ بھی تو غذائی کمی‘ بھوک اور غربت کے مارے ہوئے ہیں۔ سفید پوش پاکستانی گھرانوںمیں مہینوں گوشت‘ پھل اور دودھ نہیں استعمال ہوتا۔ ایسے میں کیا غذائیت اور کیا غذائی کمی!ان حالات میں جب لوگوں کے روزگار ختم ہو رہے ہیں۔ تنخواہوں پر کٹ لگ رہے ہیں۔ ادارے بند ہو رہے ہیں۔ فیصل وائوڈا کا ایک بیان ٹریجڈی سے بھر پور فلم کے دوران ایک comic reliefثابت ہوا ہے۔ موصوف نے عوام کو خوشخبری دی ہے کہ صرف دو چار ہفتوں کے بعد ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ دولت کی ریل پیل ایسی ہو گی کہ ریڑھی والا بھی ٹیکس دے گا۔ لوگ باہر سے نوکریاں کرنے پاکستان آئیں گے! فیصل وائوڈا نے نجانے کون سے ’’عالم‘‘ سے یہ بیان جاری کیا ہے اور وہ اس وقت معرفت کی کس منزل پر تھے۔ خبر نہیں۔ ہاں یہ اتنا ضرور ہے کہ ان کے منہ سے جھڑنے والی یہ بشارتیں غموں اور المیوں سے بھر پور ایک ٹریجک فلم میں comic relif ثابت ہوئی ہیں۔ آخر عوام کو بھی ہنسنے کا حق ہے تھینک یو فیصل وائوڈا فار میکنک اَس لاف!