وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ غریب ملکوں کا عالمی استحصال بند کیا جائے، موجودہ عالمی نظام میں سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم بڑا مسئلہ ہے، دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہیں، کوویڈ19 کے دوران پاکستان نے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اس پر قابو پایا، احساس پروگرام پاکستان کی تاریخ کا غربت کے خاتمہ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اعلیٰ سطح کے تخفیف غربت سے متعلق فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وبا کے باعث اقتصادی شرح نمو میں تیزی سے کمی واقع ہوئی، حکومت پاکستان نے احساس پروگرام میں ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کی مالی مدد کی، حکومت نے کورونا وبا سے غریبوں کو بچانے کیلئے متعدد اقدامات کئے، دنیا کے 26 امیر ترین افراد کے ہاتھوں میں زیادہ تر دولت مرکوز ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کی آبادی کا 15 فیصد جو کہ تقریباً ایک ارب بنتا ہے وہ غربت میں رہ رہا ہے، آمدنی اور صلاحیتوں میں کمی کی وجہ سے وہ وقار کے ساتھ رہنے سے قاصر ہیں، غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں انسان متاثر ہو رہے ہیں، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے یہ سماجی و اقتصادی عدم استحکام کی بھی ایک وجہ ہے اور اس کی وجہ سے دنیا میں بڑے سیاسی اور سلامتی کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کیلئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی پائیدار ترقی کے اہداف میں پہلی ترجیح غربت کا خاتمہ ہو۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتح اتحادیوں نے دنیا پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیئے دیگر فیصلوں کے ساتھ ایک فیصلہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کی تشکیل سے متعلق کیا۔جرمنی کے قصبے بریٹن ووڈ میں طے پایا کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف عالمی معیشت اور مالیاتی نظام کو چلائیں گے۔آج یہ دونوں ادارے اقوام متحدہ کی چھتری تلے ایک ظالم ساہوکار کا روپ دھار چکے ہیں ۔یہ قرض دے کر غریب ممالک کی مدد نہیں کرتے بلکہ اپنا کاروبار چمکاتے ہیں اور ان ملکوں کے شہریوں کی ہڈیوں سے منافع کھینچ کر دولت مند ریاستوں کی جیب میں ڈال دیتے ہیں۔ حالیہ برس مئی میںدنیا بھر کے 300 سے زائد قانون سازوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک پر زور دیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وجہ سے غریب ترین ممالک کا قرض منسوخ کریں اور عالمی معاشی بحران سے بچنے کے لیے مالی اعانت میں اضافہ کریں۔قانون سازوں نے آئی ایم ایف کے غریب ترین ممالک میں سے 25 ممالک کی 6 ماہ کے لیے قرض کی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے اقدام کا خیرمقدم کیا لیکن انہوں نے کہا کہ اس کیلئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔عالمی بینک نے کہا کہ وہ غریب ترین ممالک کے لیے اپنی امداد کو بڑھانے کے طریقوں پر غور کرے گا لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے خبردار کیا کہ قرضوں کی ادائیگی معاف کرنا اس کے کریڈٹ ریٹنگ کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور رکن ممالک کو کم لاگت فنڈ فراہم کرنے کی اس صلاحیت کو ضائع کر سکتا ہے۔ جن ریا ستوں نے انسانی مساوات کو تسلیم کیا، غریب شہریوں کی عزت نفس کیتحفظ کا عہد کیا، وہ بڑی حد تک اپنی اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے میں کامیاب ہوئیں۔ ان ریاستوں میں بھی تمام انسانی مسائل کا مکمل حل نہیں ہے۔ ایک مثالی معاشرے کا خواب یہاں بھی ابھی ادھورا ہے، مگر جو کچھ یہاں انسان کو میسر ہے وہ انسان کی صدیوں کی جہدو جہد کا حاصل اورخوابوں کی تعبیر ہے۔ یہاں بدعنوانی سے پاک شفاف نظام ہے۔ معاشی و سماجی انصاف ہے۔ احتساب و جواب دہی کا عمل ہے۔ انسان کو عزت و وقار حاصل ہے ، اور بہتری کی طرف سفر جاری ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی غریب ملک میں اس طرح کے تجربات کو ہو بہو نہیں دہرایا جا سکتا، مگر سماج کو ان خطوط پر منظم کر کے اس طویل سفر کا آغاز کیا جا سکتا ہے، جو بلآخر ایسی کامیابیوں پر منتج ہو۔ اقوام متحدہ سرد جنگ کے زمانے میں اِس اعتبار سے قدرے مشکل کا شکار رہا کہ بعض اوقات اقوام متحدہ کے دائرہ عمل کار میں آنے والے انسانی بہبود کے کاموں میں بھی سرد جنگ کی سیاسی دشمنیاں اور دباؤ آجاتے تھے، 1990 ء کے بعد اس حوالے سے معاملات میں بہتری آئی ۔ نئے ہزاریے یعنی سن دوہزار ایک سے پہلے ملیمیم ڈیویلپمنٹ گولز، پھر 2011 ء سے 2019 ء تک سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز اور اب 2020 ء سے ڈیکیڈ یعنی عشرے کے اعتبار سے یہی پر وگرام آئندہ دس برسوں کے لیے ہے۔اس میں زچہ وبچہ سمیت صحت کے دیگر شعبے، بنیادی تعلیم، پرائمری تعلیم ناخواندگی کا خاتمہ، ماحولیات کے تمام مسائل پر قابو پانا، بہبود آبادی، صنفی عدم مساوات کا خاتمہ اور جمہوریت کے فروغ کے ساتھ سماج کو انصاف کی فراہمی، غربت میں کمی کرنا اور ایسے دیگر ا ہداف ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کو دئیے گئے ہیں اور اِن کوحاصل کرنے کے لیے منا سب تکنیکی اور مالی امداد دی جاتی ہے۔ پائیدار ترقیاتی اہداف بالخصوص پائیدار انفراسٹرکچر میں بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے اسے تیز کیا جائے، قابل تجدید توانائی، ٹرانسپورٹ، ہائوسنگ، پانی، انفراسٹرکچر اور صحت پر زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جدید ترقیاتی دور میں آنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ نئی اور جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ذرائع سے مستفید ہو سکیں۔وزیر اعظم عمران خان پہلے بھی عالمی اداروں سے اپیل کر چکے ہیں کہ غریب ممالک کے قرضے معاف کر کے انہیں اپنی معیشت بحال کرنے اور شہریوں کو بنیادی سہولیات پہنچانے کی گنجائش دی جائے ۔