فارسی میں کہتے ہیں آنچہ کند دانا‘ ہم کند ناداں ولیک بعداز خرابی بسیار‘ مسلم لیگ (ن) نے بھی پیپلز پارٹی کی طرح انہی اسمبلیوں اور اس کے بطن سے جنم لینے والے سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا جنہیں اڑھائی سال تک دھاندلی کی پیداوار اور سلیکٹرز کی تخلیق قرار دیا گیا ؎ تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر مسلم لیگ (ن) کے ہمدرد اور میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت کے پرجوش مبلغ بھی آج یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم اپنے اندرونی اختلافات ‘قول و فعل کے تضاد اور شتر گربہ بیانیے کی بنا پر بے عملی کا شکار ہے اور اسے سب سے زیادہ نقصان میاں صاحب کی انتہا پسندانہ تقریروں نے پہنچایا‘ سابق صدر آصف علی زرداری کی روز اوّل سے یہ رائے تھی کہ میاں نواز شریف جذباتی عدم توازن سے دوچار رہتے اور فیصلے سیاست کے عملی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر نہیں‘ ذاتی خواہشات اور خاندانی مفادات کے تابع کرتے ہیں۔ 2007ء میں عام انتخابات کا بائیکاٹ‘ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کے سمجھانے پر شمولیت کا فیصلہ اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ایک بار پھر بائیکاٹ کا اعلان اس جذباتی عدم توازن کا نتیجہ تھا‘ پیپلز پارٹی نے 1977ء کی تحریک اور 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ سے سبق حاصل کیا ہے اور وہ ایسی کسی تحریک کے حق میں ہے جس کافائدہ غیر جمہوری قوتیں اٹھا سکیں نہ انتخابی بائیکاٹ کے فیصلے سے متفق جس کا نتیجہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ 2005ء میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے حجاز مقدس جانا پڑا تو برادرم رئوف طاہر مرحوم کے ذریعے سرور پیلس کے عشائیے میں شرکت کی دعوت ملی ۔سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم ‘ رئوف طاہر مرحوم سمیت تین چاردوستوں کے ساتھ میاں نوازشریف سے تفصیلی گپ شپ کا موقع ملا‘ جنرل پرویز مشرف پورے جاہ و جلال سے حکمرانی کے مزے لوٹ رہے تھے‘ میاں صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو بیرون ملک جلا وطن اور اے آر ڈی نام کا اتحاد اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے کوشاں‘سرور پیلس میں مگر یہ سننے کو ملا کہ عوام پرویز مشرف کی آمریت سے تنگ آ کر آمادہ انقلاب ہیں اور اگر کسی انقلابی رہنما کی قیادت میسر ہو تو دنوں نہ سہی ہفتوں میں فوجی آمر کو اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کیا جا سکتا ہے۔ سہیل ضیاء بٹ دوران گفتگو بار باردخل انداز ہوتے اور پاکستان سے آمدہ اطلاعات کی روشنی میں انقلاب کا مژدہ سناتے‘ تنگ آ کر میں نے عرض کیا میاں صاحب !آپ تو اپنی مجبوریوں کے سبب وطن واپسی سے قاصر ہیں‘ براہ کرم سہیل ضیاء بٹ صاحب کو لاہور بھیجیں اور اپنی جگہ انقلاب کی قیادت کرنے کا فریضہ سونپیں کہ ٹنٹا ختم ہو اور عوام حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب ہو سکیں۔ میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ بٹ صاحب نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ’’توبہ توبہ! میں کیوں پاکستان آئوں بڑی کٹ پڑتی ہے‘‘ میاں صاحب نے ناگواری سے کہا ’’پھر آرام سے بیٹھو کم از کم ہمیں سکون سے بات تو کرنے دو‘‘ یہ صرف پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کا دبائو نہیں جس نے مسلم لیگ(ن) کو اپنا بیانیہ ترک کر کے ضمنی اور سینٹ انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کیا اور میاں نواز شریف و مریم نواز کو بھی مجبوراً اپنے انتہا پسندانہ موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا‘ مسلم لیگ (ن) کے منتخب ارکان اور میاں شہباز شریف جیسے مفاہمت پسند عہدیدار بخوبی جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف کا بیانیہ صرف شریف خاندان نہیں‘ مسلم لیگ کے لئے بطور جماعت تباہ کن ہے اور اپنے اوپر اقتدار کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا تیر بہدف نسخہ‘ جماعت بالخصوص مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی اور انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند مالدار و بااثر سپورٹرز کو میاں صاحب کی تقریروں سے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ قائد محترم خود توتاحیات نااہل اور ان کی صاحبزادی بھی سزا یافتہ ہونے کے باعث کم از کم اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتیں‘ اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کے لئے ہمیں بھی خواہ مخواہ انتخابی عمل سے بے دخل کرنے کے درپے ہیں۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ‘ارکان اسمبلی کو بجا طور پر یہ اندیشہ ہو گا کہ اگر ہمارے استعفوں کے باوجود عمران خان کی حکومت ختم نہ ہوئی تو شریف خاندان کا مزید کچھ نہیں بگڑے گا البتہ ہم دربدر ہو جائیں گے ؎ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے‘ نہ اُدھر کے رہے کسی پیشگی ضمانت اور یقین دہانی کے بغیر پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کی حامی ہے نہ حکومت کی تبدیلی کے لئے غیر آئینی طریقہ کار سے متفق‘ جب اندرونی دبائو بڑھا تو مسلم لیگ(ن) نے بھی مولانا فضل الرحمن کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں چلّے کا راستہ ترک کر کے آصف علی زرداری کا مشورہ قبول کیا‘ اب وہ ان اسمبلیوں کے ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہی ہے جنہیں اڑھائی سال تک ناجائز پکارا گیا۔ پیپلز پارٹی نے تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ کر مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام کے لئے مشکل پیدا کر دی ہے۔ اگر دونوں جماعتیں پیپلز پارٹی کے مشورے پر عمل نہیں کرتیں‘ دھرنے اور لانگ مارچ پر اصرار کرتی ہیں تو پی ڈی ایم کا نیم شکستہ اتحاد مزید شکست و ریخت سے دوچار ہو گا اور اگر یہ آپشن اختیار کرتی ہیںتو عمران خان کی حکومت کو براہ راست آئینی ‘ قانونی‘ جائز اور منتخب تسلیم کرنے کا اعلان ہو گا’ یہ چھچھوندر کو منہ میں لینے کے مترادف ہے جسے نگلنا آسان نہ اگلنا سہل‘ 1989ء میں بے نظیر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو آئی جے آئی اور میاں نواز شریف کو صدر غلام اسحق اور جنرل مرزا اسلم بیگ کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل تھی مگر یہ تحریک ناکام رہی۔ پچھلے سال نمبر گیم پوری ہونے کے باوجود چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا جو حشر ہوا وہ کسی سے مخفی نہیں‘ پیپلز پارٹی کے مانڈوی والا بمشکل اپنا منصب بچا پائے‘ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا موقف اس حوالے سے مضبوط ہے‘ پی ڈی ایم اتحاد کو بچانے اور دونوں بڑی جماعتوں کو اتحاد میں شامل رکھنے کے لئے درمیانی راستہ یہ نکال سکتی ہے کہ ایک فریق عدم اعتماد کے آپشن سے دستبردار ہو‘ دوسرا لانگ مارچ اور دھرنوں کے گناہ بے لذت سے تائب‘ جلسے جلوس جاری رہیں اور 2022ء کا انتظار کیا جائے جب فوج میں ایک بار پھر اعلیٰ پیمانے پر تبدیلیاں ہوں‘ کسی نئے تازہ دم جرنیل کے چار سال حکمرانی کے مزے لوٹنے والے عمران خان سے تعلقات میں رخنہ پڑے اور دونوں تجربہ کار قائدین میاں نواز شریف آصف علی زرداری سول ملٹری تعلقات میں پڑنے والی ان دراڑوں کو اپنی مقصد براری کے لئے مہارت سے استعمال کر سکیں دنیا بر امید قائم۔ کوئلوں کی اس دلالی میں مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ کیا آئے گا یہ سوچنا حضرت کا کام ہے‘ جن کی فراست اور دور اندیشی کا ڈنکا ایک عرصہ تک بجتا رہا مگر پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے تنگدستی کا شکار ہیں ۔پی ڈی ایم کی طوفانی تحریک اور میاں نواز شریف کی انقلابی تقریروں سے عسکری قیادت کا کچھ نہیں بگڑا‘راوی چین لکھتا ہے البتہ عمران خان مزید مضبوط ہو گیا ہے‘ کیا اس اتحاد اور گوجرانوالہ و کوئٹہ کے اجتماعات میں کی جانے والی تقریروں کا ہدف اور مقصد یہی تھا؟ کوئی بتائو کہ ہم بتلائیں کیا؟