حزب کا معنی جماعت ہے اور الاحزاب حزب کی جمع ہے ۔ مشرکین، مکہ، یہودی اور منافقین کی تمام جماعتیں متحد اور متفق ہوکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئی تھیں اور نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیر قیادت مسلمانوں نے مدینہ کے اطراف میں خندق کھود کر مدینہ کا دفاع کیا تھا اس وجہ سے اس غزوہ کوغزوہ احزاب اور غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ غزوہ 5ہجری میں پیش آیا۔ ربیع الاول‘ 4 ہجری میں بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کا واقعہ پیش آیا۔ مدینہ طیبہ میں یہود کے دو مشہور قبیلے آباد تھے ۔ بنی نضیر اور بنی قریظہ۔ اگرچہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں پہنچتے ہی ان سے دوستی کا معاہدہ کررکھا تھا لیکن ان کے دلوں میں اسلام سے عداوت کے شعلے بھڑکتے رہتے تھے ۔ وہ ہمیشہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے تاکہ وہ اپنی اس باطنی خباثت کا اظہار کرسکیں۔ غزوہ احد میں جب گھاٹی پر متعین تیر اندازوں کی عجلت کے باعث اسلامی لشکر کو سخت جانی نقصان ہوا تو یہود کے حوصلے بڑھ گئے ۔ دوستی کے معاہدہ کے باوجود بنی نضیر نے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کی ناپاک سازش تیار کی جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ۔ اس عہد شکنی اور غداری کے باعث حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مدینہ طیبہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ عبداﷲ بن ابی نے انہیں جاکر شہہ دی کہ وہ اپنے گھروں میں ڈٹے رہیں۔ اگر لڑائی کی نوبت آئی تو وہ اپنی جمعیت کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرے گا اور اس نے یقین دلایا کہ دوسرے کئی بدوقبائل بھی ان کی امداد کیلئے مدینہ منورہ پر دھاوا بول دیں گے ۔ اس لئے بنی نضیر نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کردیا اور صاف صاف کہلا بھیجا کہ ہم اپنے گھروں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ سے جو کچھ ہوسکتا ہے کرگزریئے ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مہلت کی مدت ختم ہوتے ہی ان کا محاصرہ کرلیا۔ عبداﷲ بن ابی دبک کر اپنے گھر میں بیٹھا رہا۔ کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ ان کے دوش بدوش کھڑا ہوکر مسلمانوں کا مقابلہ کرے ۔ جب بنی نضیر نے حالات کو اپنی توقع کے خلاف پایا تو انہوں نے مدینہ طیبہ چھوڑنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ چنانچہ تین آدمیوں کو ایک اونٹ پر جتنا سامان وہ لاد سکتے تھے لاد کر لے جانے کی حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دیدی۔ بنی نضیر جلاوطنی کے بعد کچھ خیبر میں آکر آباد ہوگئے اور بعض وادی القریٰ میں فروکش ہوگئے لیکن انہوں نے یہاں آکر بھی اسلام کے خلاف سازشیں کرنی شروع کردیں۔ بنو عامر کے دو افراد جن کے ساتھ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا معاہدہ تھا‘ مدینہ منورہ سے اپنے گھر والوں کی طرف جا رہے تھے ‘ راستے میں ان کی حضرت عمرو بن امیہ ضمری سے مڈبھیڑ ہوئی۔ ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ بنو عامر کے یہ دو افراد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ میں ہیں۔ انہوں نے ان دونوں کو قتل کردیا‘ اب معاہدہ کی رو سے ان کی دیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے حلیفوں پر تھی اور بنونضیر آپ کے حلیف تھے ‘ اس لئے آپ نے بنونضیر سے دیت میں تعاون کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا آپ بیٹھیں ہم آپس میں مشورہ کرتے ہیںجس پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب میں سے حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر‘ حضرت علی رضی اﷲ عنہم ایک دیوار کے نیچے بیٹھ گئے ۔ یہود نے دیت میں تعاون کرنے کے بجائے یہ سازش کی کہ آپ کی بے خبری میں وہ دیوار کے اوپر سے آپ کے اوپر چکی کا پاٹ پھینک کر آپ کو خدانخواستہ ہلاک کردیں۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر آپ کو ان کی اس سازش کی خبر دی‘ آپ فوراً مدینہ منورہ تشریف لائے‘ آپ نے حضرت عبداﷲ بن ام مکتوم کو مدینہ کا عامل مقرر کیا اور بنونضیر کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوئے ‘ یہ ماہ ربیع الاول کا واقعہ ہے آپ نے چھ دن ان کا محاصرہ کیا۔ بنو نضیر قلعہ میں محصور ہوگئے تھے ‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم الٰہی کے مطابق ان کے کھجوروں کے درختوں کو کاٹ کر جلا دینے کا حکم دیا، منافقین نے بنو نضیر کو تسلی دی تھی کہ ہم تمہاری مدد کو پہنچیں گے لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا وہ نہیں آئے ‘ پھر بنونضیر نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے یہ تقاضا کیا کہ وہ ان کو قتل نہ کریں بلکہ جلا وطن کر دیں اور ان کو یہ اجازت دیں کہ وہ اپنے اونٹوں پر اپنا سامان لاد کر لے جائیں‘ چنانچہ وہ مدینہ سے نکل گئے ‘ ان کے سردار خیبر میں چلے گئے اور بعض شام کی طرف روانہ ہوگئے ۔ بنونضیر کے جو افراد جلا وطن ہوکر خیبر جا رہے تھے ‘ انہوں نے مکہ میں جاکر قریش کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر برانگیختہ کیا‘ اور ان کے علاوہ دیگر عرب کے قبائل میں سے غطفان‘ بنوسلم‘ بنومرہ‘ اشجع اور بنواسد وغیرہ کو بھی اپنے ساتھ متفق کرلیا‘ بنو قریظہ پہلے ان کے ساتھ نہیں تھے مگر حیی بن اخطب نے ان کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ غرض قریش‘ یہود اور دیگر قبائل عرب بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ‘ کفار کی تیاری کی خبریں سن کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا‘ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے مشورہ دیا کہ کھلے میدان میں لڑنا مصلحت کے خلاف ہے ‘ مدینہ کے گرد خندق کھود کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے ‘ آپ نے اس رائے کو پسند فرما لیا‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین اور بچوں کو شہر کے محفوظ قلعوں میں بھیج دیا اور خود تین ہزار اصحاب کے ساتھ شہر سے نکلے ۔ شب وروز کی محنت شاقہ سے کفار کے لشکر کے آنے سے پہلے خندق تیار کرلی گئی۔ مدینہ طیبہ کے تین اطراف ایسے تھے جہاں سے عمومی حملہ کی توقع نہ تھی۔ جنوب کی طرف گھنے باغات تھے ۔ مشرق اور مغرب کی طرف پتھریلا علاقہ اور سخت چٹانیں تھیں جہاں جگہ جگہ گہری اور چوڑی دراڑیں تھیں۔ صرف شمال کی سمت ہی کھلی اور غیر محفوظ تھی اور حملہ کا اسی جانب سے خطرہ تھا۔ سلع نام کے پہاڑ کو پشت پر رکھ کر خندق کھودی گئی‘ اس بناء پر غزوہ الاحزاب کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں۔ خندق کھودنے میں خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے اصحاب کے ساتھ شریک تھے ‘ کفار نے ایک ماہ تک محاصرہ برقرار رکھا‘ وہ خندق کو عبور نہیں کرسکتے تھے اس لئے دور سے پتھر اور تیر برساتے تھے ‘ ایک دن قریش کے چند سوار جن میں عمرو بن عبدود بھی تھا خندق کو عبور کر کے آگئے ‘ عمرو نے مقابلہ کے لئے للکارا‘ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم آگے بڑھے اور تلوار سے اس کا سرقلم کر دیا‘ اس کا یہ حشر دیکھ کر اس کے باقی ساتھی بھاگ گئے ‘ بالآخر بنو قریظہ اور قریش میں پھوٹ پڑ گئی اور سردی کے موسم کے باوجود ایسی زبردست آندھی آئی جس سے خیموں کی طنابیں اکھڑ گئیں اور گھوڑے رسیاں تڑا کر بھاگ گئے ‘ چولہوں پر رکھی ہوئی دیگچیاں بار بار الٹ جاتی تھیں‘ محاصرہ طویل ہونے کی وجہ سے مشرکین کا سامان رسد بھی ختم ہوچکا تھا اس لئے کفار قریش اور دیگر قبائل محاصرہ اٹھانے پر مجبو رہو گئے تھے اور بنو قریظہ اپنے قلعوں میں چلے گئے تھے ۔