محترمہ بے نظیر بھٹو1988ء کے انتخاب کے نتیجے میں وزیراعظم بنیں۔ بی بی کی یہ حکومت اٹھارہ ماہ قائم رہی، سیاسی ناتجربہ کاری، عجلت اور بیڈ گورننس کے مظاہرے ہر جگہ نظر آتے۔ پیپلزپارٹی کے اکثر اراکین اور وزرا ناتجربہ کار تھے، جنرل ضیا کے گیارہ سال دور میں پیپلزپارٹی اقتدار سے کوسوں دور تھی ۔بہت سے لوگ پہلی بار رکن اسمبلی بنے اور وزارت کا اعزاز بھی پہلی بار ملا۔ناتجربہ کاری کی وجہ سے آئے روز کوئی نہ کوئی غلطی ہوتی اور مذاق اڑتا۔دو اورفیکٹرز بھی کارفرما تھے۔ پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی جو وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی ہر ممکن کوشش کرتی ۔ صدر کا عہدہ آئینی طور پر خاصا طاقتور تھا۔ غلام اسحاق خان جیسا گرم سرد چشیدہ شخص صدر تھا، انہیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل تھی۔ یہ سب چیزیں مل کر حکومت کو ناکام بنا رہی تھیں، مگر ان سب میں وزیراعظم کی ناتجربہ کاری اور ان کے قریب موجود لوگوں کی نااہلی نے اضافہ کر دیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ ان دنوں ایک صاحب کو وزیراعظم کا مشیر بنایا گیا، کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ جسے بنانا تھا، اسے نہیں بنایا گیا بلکہ غلطی سے اسی نام کے ایک اور صاحب کو مشیر بنا دیا گیا جو درحقیقت پیپلزپارٹی کے مخالف ہیں۔ فوری طور پرانہیں ہٹا دیا گیااور و ہ آئی جے آئی کا حصہ بن کر پیپلزپارٹی پر تنقید کرنا شروع ہوگئے۔ انہی دنوں میاں صاحب وزیراعلیٰ کے طور پر ہمارے شہر احمد پورشرقیہ آئے، میرے گھر کے قریب واقع گورنمنٹ ہائی سکول کے گرائونڈ میں جلسہ کیا گیا۔ ان دنوں کالج میں پڑھتا تھا، اپنے دوستوں کے ساتھ ہم بھی شریک ہوئے۔ہم بھی آئی جے آئی کے حامی تھے، ویسے بھی تکبیر، زندگی ، اردو ڈائجسٹ جیسے جرائد پڑھ کر اینٹی پیپلزپارٹی جذبات عروج پر ہوتے ۔مجھے یاد ہے کہ اس جلسے میں ان صاحب نے بھی دھواں دھار تقریر کی اور دعویٰ کیا کہ مجھے ہٹایا نہیں گیا، میں نے خود پیپلزپارٹی کے ملک دشمن اقدامات کی وجہ سے استعفا دیا۔ میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیاتھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وہ حکومت بمشکل اٹھارہ ماہ چل پائی تھی، صدر نے اسمبلی توڑ دی تھی ، اگلے الیکشن میں میاں نواز جیت گئے اور بی بی کو تین سال بعد دوبارہ موقعہ ملا، بدقسمتی سے دوسری بار بھی ان کی اسمبلی توڑ دی گئی۔ خیر یہ تو ہماری داغ داغ سیاسی تاریخ ہے۔ کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ اسی طرح کی ناتجربہ کاری، عجلت، بھانت بھانت کی بولیاں پچھلے دو برسوں سے ہم بھی سن اور دیکھ رہے ہیں۔فرق یہ ہے کہ پنجاب میں عمران خان کی حکومت ہے جبکہ صدر ان کا اپنا ساتھی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی مثالی تعلقات ہیں۔ عمران خان کو وزیراعظم بنے دو سال ہوچکے ہیں۔اتنے عرصے میں بے شمار غلطیاں وہ کر چکے ہیں، بعض ایسی کہ انہیں بلنڈر کہا جائے۔ افسوس کہ وہ اپنی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھ رہے۔ ان کی ناتجربہ کاری پے درپے غلطیوں کے بعد بھی کچھ نہ سیکھنے سے تجربہ میں تبدیل نہیں ہو رہی۔ اب تو یہ ناتجربہ کاری کا نہیں بلکہ واضح طور پر نااہلی بلکہ بدترین نااہلی کا کیس لگتا ہے۔ ایسی صورت میں چاہے پچاس سال تجربہ دلا دیا جائے، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ایک عجیب وغریب بات حکومتی فیصلوں میں عجلت سے متعلق ہے۔ ایسی جلدبازی کی آخر کیا ضرورت ہے؟ حکمرانوں کو اپنے اعصاب پر قابو رکھنا چاہیے، سوچ سمجھ کر فیصلے کئے جائیں، بر وقت مشاورت ہو اور آنے والے معاملات کا پہلے سے حساب کتاب کر لیا جائے۔ ایسا کچھ بھی موجودہ حکومت میں نظر نہیں ا ٓرہا۔ کچھ دن قبل پٹرول کی قیمتیں اچانک پچیس روپے تک بڑھانے والا فیصلہ بھی عجیب وغریب تھا۔ اچانک ایسی عجلت کیوں دکھائی گئی ؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔چار دن بعدقیمتوں میں ردوبدل ہونا تھا، تب کر دیا جاتا، اچانک پٹرول پچیس روپے مہنگا ہونے سے صرف پٹرول پمپوں والوں کی چاندی ہوئی اور عام آدمی پریشان ہوا۔ ہر ایک نے حکومت اور عمران خان کو صلواتیں سنائیں۔ کوئی اوسط درجے کی دانش رکھنے والی سیاسی حکومت بھی ایسا غیر مقبول فیصلہ نہ کرتی، خان صاحب نے مگر یہ بوجھ ہنسی خوشی اٹھا لیا۔ کورونا کے باعث لاک ڈائون کا فیصلہ بھی عجیب وغریب بلکہ پراسرار حالات میں ہوا۔ ابتدا میں خان صاحب متامل تھے، جبکہ اس وقت عالمی تنظیمیں اور ملک میں ڈاکٹر صاحبان لاک ڈائون کی حمایت کر رہے تھے تاکہ کورونا پھیلنے سے پہلے ہی ختم ہوجائے۔عمران خان اتوار کے دن دوپہر کے وقت اچانک ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئے اور انہوں نے لاک ڈائون نہ کرنے کے لئے دلائل کے انبار لگا دئیے۔ عمران خان چھٹی والے دن ایک ایسے وقت پر قوم سے خطاب کرنے آئے ، جو زیادہ موزوں نہیں سمجھا جاتا، خیر لوگوں نے سمجھا کہ وقت کی نزاکت کے باعث وزیراعظم اپنا موقف قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ معاملہ تب بنا جب صرف تین چار گھنٹوں بعد پنجاب حکومت نے صوبے میں لاک ڈائون کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس نے سنا، وہ بھونچکا رہ گیا۔ سمجھ نہیں آئی کہ وزیراعظم نے اگر لاک ڈائون کرنا تھا تو اس کے خلاف تقریر کیوں کی؟ پنجاب حکومت ان کی مرضی کے خلاف تو کچھ نہیں کر سکتی ۔ممکن ہے بعد میں کچھ ایسے حقائق وزیراعظم کے سامنے آئے ہوں،جس پر انہوں نے پنجاب کو لاک ڈائون کے لئے اجازت دے دی۔ سوال مگر وہی ہے کہ پہلے اتنی عجلت کیوں دکھائی؟ تین چار دن پہلے عید الضحیٰ کے حوالے سے لاک ڈائون کرنے کا بھی اچانک فیصلہ کیا گیا۔ میں مانتا ہوں کہ چھوٹی عید پرلوگوں کے ایک دوسرے سے ملنے، شاپنگ وغیرہ سے کورونا پھیلا۔ بڑی عید پر یہ سب دہرائے جانے کا خدشہ تھا۔ اس لحاظ سے عید پر لاک ڈائون کرنے کا منطقی جواز موجود ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا اچانک اس صبح وزیراعظم کو یا حکومت کو بتایا گیا کہ اٹھیں، جاگ جائیں، اسی ہفتے عید ہونے والی ہے، پلیز کچھ کریں۔ہر ایک کو معلوم ہے کہ چھوٹی عید کے دو ماہ دس دن بعد بڑی عید آنی ہے، حکومت کو پہلے سے پلان کر لینا چاہیے تھا، اسی حساب سے وہ اپنا شیڈول انائونس کرتی ۔ انہیں دس پندرہ دن پہلے یہ واضح طور پر یہ بتا دینا چاہیے تھا کہ عید پر لاک ڈائون ہوگا ۔ اس سے یہ ہوتا کہ تاجر برادری، دکاندار حضرات عید کے لئے سٹاک ہی نہ منگواتے۔ حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا تو دکانداروں نے عید کے لئے اضافی سامان منگوا لیا۔ اب سب کچھ ڈمپ ہوگیا۔ کئی ماہ کے لاک ڈائون نے ان کی کمر توڑ رکھی تھی، عید سیزن سے کچھ امید تھی، وہ تباہ وبرباد ہوگئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں دکاندار حکومت کو صلواتیں اور بددعائیں دے رہے ہیں۔ ایک پہلو لوگوں کی ضروری شاپنگ کا بھی تھا۔ عید تو بہرحال عید ہے،جتنی سادگی سے منائی جائے، کچھ نہ کچھ لینا ہی پڑتا ہے۔اچانک لاک ڈائون کے اعلان سے افراتفری پیدا ہوگئی، اس شام لاہورجیسے شہروں میں اکثر سڑکیںٹریفک سے جام ہوگئیں، دکانوں پر بے پناہ رش تھا۔ کیا کورونا اس رش میں نہیں پھیلا ہوگا؟آسان طریقہ یہ تھا کہ لاک ڈائون سے پہلے کم از کم دو دن کی مہلت دی جاتی۔ دکانوں کا وقت بڑھا دیا جاتا اور شام سات بجے کے بجائے کلوزنگ ٹائم رات بارہ بجے ہوجاتا۔دکانداروں پر ایس اوپیز کی پابندی کا اصرار ہوتا۔ فائدہ یہ ہوتا کہ لوگ آسانی سے دو دنوں میں کام نمٹا لیتے۔ بارہ بجے تک وقت کی وجہ سے رش بھی نہ بڑھ پاتا اور دکاندار بھی کچھ نہ کچھ کما لیتے۔ افسوس کہ وزیراعظم کی ٹیم میں ایسا کوئی نہیں جس کا مڈل کلاس سے تعلق ہو یا ماضی میں ہی مڈل کلاس سے رہا ہو، حکومت کو لوگوں کے مسائل کا علم ہی نہیںہوپاتا۔ وزیراعظم کے دو معاونین خصوصی نے گزشتہ روز استعفے دئیے۔ اس پر بھی عجیب وغریب صورتحال پیدا ہوئی۔ معاونین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ازخود استعفا دیا، دوسری طرف حکومت یہ خبر چلواتی رہی کہ استعفا لیا گیا۔ یہ استعفا لیا گیا کیا ہوتا ہے؟ دو ہی طریقے ہوتے ہیں ، حکومت ناخوش ہو کر عہدے سے ہٹا دیتی ہے، یعنی برطرف کر دیتی ہے یا جسے اس بے عزتی سے بچانا مقصود ہو،اسے بلا کر کہہ دیا جاتا ہے کہ مستعفی ہوجائو۔ اس کے بعد یہ خبر نہیں چلوائی جاتی کہ استعفا لیا گیا۔ عمران خان کی حکومت میں یوں لگ رہا ہے جیسے چار پانچ لوگوں کے ہاتھوں میں ڈرائیونگ سٹیرنگ ہے یا ان کی کوشش یہی ہے کہ ہمارے ہاتھ میں آ جائے جبکہ پچھلی سیٹوں پر بیٹھے لوگ اور کچھ نہیں کرپاتے تو کھڑکی سے ہاتھ باہر کر کے غلط سمت میں مڑنے کا اشارہ دیتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم کی اپنی کابینہ پر گرفت ہی نہیں۔ کسی وزیر کی کیا جرات کہ وہ اعلانیہ مشیروں اورمعاونین خصوصی پر تنقید کرے۔ کابینہ کے اجلاس میں جو مرضی اعتراض کیا جائے، جتنی طویل بحث ہو، باہر نکل کر کسی کو اعتراض یا اختلاف کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ وہ مطمئن نہیں تو کابینہ سے استعفا دے ۔ خان صاحب مسلسل غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ ہر غلطی کی سیاسی قیمت ادا کرناپڑتی ہے۔ عمران خان نہایت تیزی سے اپنا اثاثہ لٹا کر غیر مقبول ہو رہے ہیں۔جلد ہی وہ ایسا بوجھ بن جائیں گے جسے چاہنے کے باوجودکوئی نہیں اٹھا پائے گا۔