مولانا فضل الرحمن کی تجویز اس قدر غیر حقیقت پسندانہ تھی کہ اپنے منتخب اراکین کے علاوہ جماعت اسلامی کی خوشدلانہ تائید و حمایت حاصل نہ کرسکی۔ پیپلزپارٹی نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا، نام نہاد اے پی سی میں شریک نہ ہوئی، مسلم لیگ ن کی قیادت زمینی حقائق کا اندازہ کئے بغیر شریک ہو گئی مگر جلد اسے ادراک ہوا کہ جو لوگ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کر کے منتخب ہوئے وہ اسمبلیوں کے بائیکاٹ اور نئے سرے سے انتخابی اکھاڑے میں اترنے پر آمادہ نہیں۔2014ء میں عمران خان نے ایک سال بعد استعفوں کی کال دی تو ارکان اسمبلی نہ مانے، نومنتخب لیگی ارکان حلف اٹھائے بغیر کیسے مانیں۔ مولانا فضل الرحمن کی ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی میں وہ کیوں سوار ہوں؟ ویسے بھی اگر ریاست اور حکومت ڈٹ گئی، خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی الیکشن کا اعلان کردیا اور فوج نے امن و امان کی صورت حال خراب نہ ہونے کی ضمانت دے دی تو انتخابی نتائج پہلے سے کہیں زیادہ ناخوشگوار برآمد ہوسکتے ہیں جو جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور میپ جیسی جماعتوں کے لیے تو شاید قابل برداشت ہوں مگر مسلم لیگ ن کے لیے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوسکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے عقلمندی کی، مولانا کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسنے کے بجائے آصف علی زرداری اور سید خورشید شاہ کے دکھائے ہوئے راستے پر چل پڑی۔ جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ بھی اپنے امیر محترم کو ’’عقل مت‘‘ دینے میں کامیاب رہی کہ بندہ پرور! آپ اپنی غلطیوں کا ملبہ جماعت پر نہ ڈالیں جو پہلے ہی آپ کی جذباتی حکمت عملی سے نڈھال ہے۔ مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور حاصل بزنجو کی پارٹی کے فیصلے سے ان لوگوں کو مایوسی ہوئی جو 2018ء میں 1977ء جیسی عوامی تحریک ابھرتے اور عمران خان کو ذوالفقار علی بھٹو کے انجام سے دوچار ہوتے دیکھ رہے تھے۔ عرصہ دراز تک یہ دانا لوگ عمران خان کو اصغر خان دیکھنے کی آرزو سے سرشار رہے اور انتخابات سے چند روز قبل انہیں 1977ء سے بڑی تحریک کے خواب نظر آنے لگے مگر اب ع حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے مولانا اب کیا پینترا بدلتے ہیں اور ایم ایم اے کا مستقبل کیا ہے؟ ایک دو روز میں واضح ہوگا تاہم یہ طے ہے کہ تحریک انصاف مرکز اور خیبرپختونخوا کے علاوہ پنجاب میں بھی حکومت بنا رہی ہے اور میری ناقص رائے میں یہ مضبوط حکومت ہوگی۔ کہا جارہا ہے کہ مرکز اور پنجاب میں مضبوط اپوزیشن تحریک انصاف کا ناک میں دم کئے رکھے گی لیکن میں ان کالموں میں کئی بار یہ لکھ چکا ہوں کہ مضبوط یا کمزور حکومت ہوتی ہے اپوزیشن اہل ہوتی ہے یا نااہل۔ 1970ء کے عشرے کی اپوزیشن بمشکل ایک ڈیڑھ درجن ارکان پر مشتمل تھی مگر اس نے ذوالفقار علی بھٹو کی مقبول اور مضبوط حکومت کو جکڑ کر رکھا۔ آئین کی تشکیل میں بھٹو اپنے انتخابی نعرے سوشلزم سے دستبردار ہوا، بادل نخواستہ آئین کو اسلامی اور پارلیمانی بنیادوں پر استوار کیا جبکہ خواہش اس کی صدارتی نظام کے تحت ایوب خان کی طرح بااختیار صدر بننے کی تھی۔ اس کے برعکس 1988ئ، 1990ئ، 1993ئ، 2008ء اور 2013ء میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر نالائقی اور نااہلی کے ریکارڈ قائم کئے۔ ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کی اصطلاح اس دور میں متعارف اور مقبول ہوئی۔ عمران خان بطور وزیراعظم اندرون و بیرون ملک سے مبارکبادیں وصول کر رہا ہے، یہ پاکستان کا واحد وزیراعظم ہے جو ان تمام ممالک میں متعارف و مقبول ہے جہاں کرکٹ کھیلی اور پسند کی جاتی ہے جبکہ عمران خان اپنی اس شہرت و مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنا سکتا ہے۔ اندرون ملک سبھی اداروںفوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور دیگرمیں عمران خان کی بطور کرکٹر و سیاستدان مقبولیت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ وہ میاں صاحب کی طرح ہر فرد اور ادارے سے سینگ پھنسانے کا عادی ہے نہ اپنی Limitations (حدود) سے بے خبر۔ تاہم اقتدار اسے عوام کی امانت اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت کے طور پر مل رہا ہے۔قانون قدرت یہی ہے کہ انسان کو اقتدار اور اختیار بطور انعام ملتا ہے یا بغرض امتحان۔ جو لوگ اقتدار کو امتحان سمجھ کر اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں، خدا کی خوشنودی اور خلق خدا کی بھلائی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے، ان کے لیے یہ انعام میں تبدیل ہو جاتا، جبکہ انعام سمجھ کر بے قدری پر تل جانے و الوں کے لیے امتحان بن جاتا ہے۔ ماضی کے کئی حکمران اس امتحان میں پورے نہ اترے اور عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے۔ مخلص دوستوں کا فرض ہے کہ وہ عمران خان کو امتحان گاہ میں اترنے سے قبل اس کے تقاضوں سے آگاہ کریں۔ ایوان اقتدار کو خرمستیوں کا مرکز بنانے کے بجائے واقعتاً غریبوں، کمزوروں اور مظلوموں کی آس، امید کا قبلہ بنائیں کہ اتفاق سے انہیں ووٹ بھی محروم علاقوں سے زیادہ پڑے ہیں۔ طاقت اور اقتدار کے مرکز وسطی پنجاب نے توقع کے عین مطابق انہیں نوازا جو پورے ملک کے وسائل چند مخصوص شہروں کے لیے مختص کرتے رہے۔ مولانا فضل الرحمن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو اسمبلیوں میں جانے سے تو نہ روک سکے مگر انہوں نے ایک متحدہ اپوزیشن کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کی قیادت ماضی کی طرح حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے کھسک نہ گئی تو مرکز اور پنجاب میں نئی حکومت کو سازشی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی قاعدے قانون اور اخلاقیات پر یقین نہیں رکھتی۔ ان سازشوں کا مقابلہ مضبوط حکومت سے زیادہ منظم سیاسی جماعت کرسکتی ہے جو فی الحال تحریک انصاف نہیں، عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اگر اپنی جماعت سے وہ سلوک کیا جو میاں نوازشریف نے مسلم لیگ اور آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی سے کیا تو مقابلہ مشکل ہوگا۔ نااہلی اور سازش میں چولی دامن کا ساتھ ہے جس کا ادراک نئے حکمرانوں کو ہونا چاہیے اور اقتدار پر ایک ایسی سیاسی جماعت کو قربان نہیں کرنا چاہیے جو ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ووٹروں کی آرزوئوں کا مرکز ہے،پاکستان کی نوجوان نسل کی امیدیں جس سے وابستہ ہیں۔ عمران خان نے پولنگ سے قبل یہ کہا تھا کہ میں نے جتنی کوشش کرنی تھی کرلی، اب عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں، پاکستان کے ستم رسیدہ عوام نے لبیک کہا، تاریخی کردار ادا کیا اور گیند دوبارہ عمران کی کورٹ میں پھینک دیا۔ سپردم تبو مایہ خویش را، تودانی حساب کم و بیش را، عمران خان یہ قرض کیسے چکاتا ہے، میڈیا اور عوام منتظر ہیں۔ تاہم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ٹیم کے انتخاب میں سوشل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے پروپیگنڈے سے مسحور ہونے اور مخلص، جانثار، قابل اعتماد،ایثار پیشہ ساتھیوں کی جگہ بظاہر کلین مگر بہ باطن، خود پسند، طوطا چشم اور موقع پرست افراد پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپوزیشن کی سازشوں اور بیوروکریسی کی ریشہ دوانیوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت جس میں ہے وہی وزیر اور وزیراعلیٰ بننے کا اہل ہے۔ علیم خان اور پرویزالٰہی میں سے کوئی ایک اگر عوام اور کپتان کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے تو منفی پروپیگنڈے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جو کپتان کو معاف نہیں کرتے وہ ڈاکٹر یاسمین راشد، حماد اظہر اور کسی دوسرے صاف ستھرے سیاستدان میں بھی کیڑے نکال لیں گے۔ عوام کو جواب دہ وہ خود ہیں۔ میڈیا کے وہ بزرجمہر نہیں جو کل تک اس کے مخالف تھے مگر اب مشورے دینے میں پیش پیش ہیں، کچھ ان میں سے شریف برادران اور زرداری کے احسان مند ہیں، کچھ ہر دیگ کے چمچے اور چند ’’تو کون، میں خواہ مخواہ‘‘۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت، تحریک انصاف کے پاس بہتر کارگزاری کے علاوہ کوئی آپشن نہیں اور احتساب سے خوفزدہ اپوزیشن حکومت گرانے سے کم پر راضی نہیں کہ یہ اس کے بھی مستقبل کا سوال ہے، غلطی کی گنجائش نشتہ۔