غلامی اور احساس کمتری کا جو بیج برصغیر میں صدیوں پہلے بویا گیا تھا، آج وہ ایک تناور درخت بن چکا ہے، جسکے گھنے سائے تلے ہم صدیوں سے جیتے آ رہے ہیں۔ نا صرف ہم بلکہ ہماری کئی پشتوں نے شعوری و لاشعوری طور پر غلامی اور احساس کمتری کے جس پھل کو کھایا تھا اس کا ذائقہ ہم سب کے منہ کو ایسا لگا کہ آج 2023 میں بھی سے جان ناچھوٹ سکی۔ ہمارے حکمران آج بھی ہاتھوں میں کشکول لیے دنیا پہ راج کرنے والے وڈیروں اور آقاؤں کے در پر سوالی بنے کھڑے ہیں تو وطن عزیز میں غریب، محکوم اور مظلوم عوام در در پہ انصاف کی تلاش میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ نا حکمرانوں کی کہیں شنوائی ہے اور نا عوام کی کہیں بھلائی ہے۔ ہم اپنے "آزاد" وطن میں حکمران طبقہ کے غلام اور ہمارے حکمران دیار غیر کے غلام۔۔۔ نسل در نسل غلامی کی یہ داستان انتہائی تکلیف دہ ہے اور اس پہ دگنی اذیت یہ کہ ہمیں یہ کہانی سنائی ہی نہیں گئی۔ آج نا صرف ہم بلکہ ہماری نوجوان نسل بھی اپنی اصل شناخت سے محروم ہے اور " گوڈوں گوڈوں" مغرب اور یورپ کے عشق میں ڈوبی ہوئی ہے تو درحقیقت قصور وار ہماری پچھلی نسلیں ہیں جنہوں نے "سفید چمڑی" کے آسیب کو یوں ہم پہ مسلط کیا کہ آج تک ہم اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے۔ صدیاں گزر گئیں انگریز کو یہاں سے رخصت ہوئے اور پچھتر سال بیت گئے ہمیں انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات حاصل کیے لیکن ہم آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں بلکہ حقیقتاً غلامی اور محکومی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا سوئے ہیں کہ نا کوئی جگانے والا ہے اور نا کوئی اٹھانے والا! میرے قابل احترام دوست اور فاضل ایڈووکیٹ جناب آصف محمود صاحب نے حال ہی میں ان تمام سوالات کے جوابات کو تلاش کرکے اور انکہی’’ داستان غلامی‘‘ کو ایک ہی مجموعے میں یکجا کیا ہے۔ بلا شبہ یہ ایک بہترین کتاب ہے، جس میں ہمارے نظام قانون میں پائے جانے والے تمام نقائص اور انکی وجوہات کو پیش کیا گیا ہے۔ جناب آصف محمود صاحب نے انتہائی باریک بینی سے مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے اور پاکستانی قانون پر برطانوی نوآبادیاتی نظام کے آثار کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔ اس کتاب کا ایک ایک صفحہ بلاشبہ پڑھنے والے کے علم میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے اور ان حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے جن سے ہم اور بالخصوص نئی نسل یکسر نا آشنا ہیں۔ آج ہم اور ہمارا پورا نظام قانون مکڑی کے اس جالے میں بنا جا چکا ہے جس سے چھٹکارا نا ممکن ہے۔ ہم آزاد ہو کے بھی آزاد نہیں ، غلامی اور احساس کمتری کا احساس ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے، اسکی تمام وجوہات کو اس کتاب میں انتہائی قابلیت سے تحریر کیا گیا ہے اور میری نظر میں ہر صاحب شعور کو اسکا مطالعہ لازمی کرنا چاہیے۔ خاص طور پر پاکستان کا وہ طبقہ جو براہ راست ریاست اور قانون کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ یہ کتاب ہمارے ذہنوں میں پڑی غلامی کی گرہیں کھولنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ آج بھی وطن عزیز میں " عوام" اور "خواص" کے مابین جو دیوار اجنبیت حائل ہے اسکی تمام وجوہات کیا ہیں ؟ کب ، کیسے اور کیوں ہمارے اوپر ایسا نظام مسلط کیا گیا کہ آج تک ہم ایک حقیقی آذاد قوم بن کر نہیں ابھر سکے؟ ہمارے اندر یہ احساس کمتری اور احساس محرومی کیسے اتنا سرائیت کر گیا کہ ہمیں جانتے بوجھتے بھی اس امر پہ یقین نہیں آتا کہ کچھ صدیاں پہلے مسلمان دنیا کے بہترین منصف اور حاکم تھے جو بہترین قابلیت رکھنے والے لوگ تھے۔ کیا وجوہات ہیں کہ ہم، ہماری پچھلی اور اگلی نسلیں انگریز کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکیں؟ اس کتاب میں ان تمام گرہوں کے سرے تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ کیسے انگریز یہاں آیا اور کسطرح اس نے برطانوی راج کو ہم پہ مسلط کر کے ہمیں اپنا غلام بنایا۔ کس چالاکی اور مکاری سے ہمیں ہماری ہی نظروں میں ہمیشہ کیلیے مشکوک قرار دے دیا۔ ہماری جڑوں میں احساس کمتری اور غلامی کی شاخیں اتنی پھیل چکی ہیں کہ اب نجات ممکن نہیں۔ جب تک ہم شعوری کوشش نہیں کریں گے ، خود پہ بھروسہ اور اعتماد کرکے مسلمان حکمرانوں کے شاندار ماضی سے سبق حاصل نہیں کر یں گے تب تک ہم غلامی کی زنجیریں نہیں توڑ سکتے۔ وہ اعتماد جو ہم سے چھین لیا گیا اسے دوبارہ حاصل کرنے کیلیے بے حد ضروری ہے کہ ہمیں علم ہو کہ ہمارا نظام آج بھی انگریزوں کے بنائے ہوئے ڈھانچے پر چل رہا ہے۔ پس قانون ان تمام قوانین کو تفصیل سے بیان کرتی ہے جو جاتے جاتے "قانون آزادی ہند 1947" کی شکل میں ہم پر تھوپ دیئے گئے۔ ہمارے قانون اور اسکی بنیاد کو جب تک حقیقتاً اسلامی بنیاد فراہم نہیں کیجاتی تب تک یہ غلامی کا دور ختم نہیں ہو گا۔ اٹھارہویں صدی میں شروع ہونے والا برطانوی راج جو آج تک چلا آرہا ہے اس سے چھٹکارا پانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ از سرِ نو بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے۔ سات ابواب پر مشتمل اس کتاب میں راقم نے ماضی بعید اور ماضی قریب سے ان تمام وجوہات اور حقائق کو یکے بعد دیگرے یکجا کیا ہے جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب تک پاکستان کے قانونی اور عدالتی نظام میں با معنی اصلاحات نہیں کی جاتیں اور جب تک تمام سانچے کو تبدیل کرنے کیلیے ٹھوس اور سخت اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ، تب تک ہم بحثیت قوم اسی طرح در در کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ انصاف کی فراہمی مشکل اور ناممکن ہی رہیگی جب تک مساوات کا نظام قائم نہیں ہو جاتا۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی، قانونی اور مذہبی مساوات کو اسلام کی بنیادوں پر قائم کرنا ہماری بقا لیے نا گزیر ہے۔ نظام قانون پہ عدم اعتماد اور ورثے میں ملنے والا احساس کمتری تب تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک ہم اس فرسودہ اور بوسیدہ نظام سے نجات حاصل نہیں کرتے۔ آج ہماری اشرافیہ اور تمام وسائل پر قابض مٹھی بھر طبقہ اسی برطانوی نوآبادیاتی راج کی پیداوار ہے۔ ہماری نوجوان نسل امریکہ، یورپ اور مغرب کو ایسے دیکھتی ہے جیسے ہم آسمان سے ستارے دیکھتے ہیں کہ بس کسی طرح اس ستارے پہ کمند ڈالیں اور جست بھر میں وہاں پہنچ جائیں۔ شعوری اور لا شعوری طور پر جس نفسیاتی بیماری کا ہم شکار ہیں اس سے نکلنے کا واحد راستہ اپنی حقیقت کو پہچاننے میں ہیں۔ ہمیں خود کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ ہمیں آزاد ہوئے پچھتر سال ہو گئے اور ہم کسی کے غلام نہیں بلکہ آزاد اور خودمختار شہری اور عقل و شعور رکھنے والے انسان ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ اپنے کھوئے ہوئے اعتماد کو واپس لانے اور خودی کے شعور کو بحال کرنے میں انتہائی معاون ومددگار ثابت ہو گا۔ لہذا وہ لوگ جو حقیقی معنوں میں اس نظام سے تنگ اور عاجز ہیں اور اسے تبدیل کرنے کے خواہشمند ہیں " پس قانون" انکے لیے ایک بہترین کتاب ثابت ہو گی نا صرف خود بلکہ اپنے گھر کے نوجوانوں کو بھی پڑھنے کیلیے دیں تاکہ وہ بھی جان سکیں کہ ہماری ازلی و ابدی غلامی کی وجوہات کیا ہیں۔ مغرب آج ترقی کی جس اوج ثریا پہ مقیم ہے اسکی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی اور اگر یہ ڈگر تبدیل نا کی جاتی تو آج بلاشبہ دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ ہماری بنیاد کو ہم سے چھین کر ہمیں اپنی ہی نظروں میں مشکوک قرار دے کر انگریزوں نے جو سنگین واردات کی اس کے تمام رازوں سے پردہ اٹھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہم اور ہماری نوجوان نسل میں وہ اعتماد بحال ہو جو کسی بھی قوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔