ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے ۔ جس میں ایک صحافی موصوف ایک ننھی بچی سے سوالات کرتے ہوئے‘ بے حسی پر مبنی صحافت کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہیں۔ ننھی بچی جس نے ابھی اپنی آنکھوں سے اپنے ماں اور باپ کے ہولناک قتل کا سانحہ دیکھا ہو۔ اس سے سوال کر رہے ہیں‘ بلکہ کرید کرید کر پوچھ رہے ہیں۔ ’’آپ کے ابو کہاں ہیں؟ آج صبح آپ کی ان سے ملاقات ہوئی؟۔ بچی حیران پریشان جواب دیتی ہے’’ نہیں‘‘پھر وہ موصوف ایک اور سوال داغتے ہیں۔ کیوں ملاقات نہیں ہوئی۔ آپ کے ابو کہاں گئے ہیں۔ بچی معصومانہ انداز میں کہتی ہے’’وہ فوت ہو گئے ہیں‘‘ مگر اس احمق کو پھر بھی احساس نہیں ہوتا ایک اور سوال جڑ دیا۔ کیسے فوت ہو گئے۔ وہ تو ٹھیک تھے۔19جنوری کو تو وہ آپ کے ساتھ شادی میں جا رہے تھے۔ ان کو کس نے مارا ہے۔ ننھی بچی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ایک عام بندہ بھی جب یہ ویڈیو دیکھتا ہے تو اس عقل سے پیدل صحافی کی سوچ پر ماتم کرتا ہے۔ کیا یہ صحافت ہے؟ آپ کے گھر میں خدانخواستہ کوئی فوتگی ہو جائے تو آپ بچوں سے ایسے احمقانہ سوال کریں گے۔ آپ کو تو اس معاشرے کی بنیادی تعداد اور روایات کا علم ہی نہیں کہ غم کیسے بانٹا جاتا ہے‘ افسوس کیسے کیا جاتا ہے۔ کسی کا کوئی عزیز مر جائے تو اس کو کیسے پُرسہ دیتے ہیں۔ لیکن صاحب یہ تو معاملہ افسوس اور پرسہ دینے کا تھا ہی نہیں۔ یہاں تو قصہ اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کا ہے۔ کہ ایک معصوم بچی جس پر قیامت بیت گئی‘ جس کی دنیا ریاستی دہشت گردوں نے اجاڑ دی اس کو آپ اپنے پروگرام میں ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کریں اور اس طرح رحمانہ استعمال کریں، آپ کے پروگرام کی ریٹنگ میں اضافہ ہو اور آپ کی بے سمت‘ احساس سے عاری صحافت کو چار چاند لگ جائیں۔یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ غم واندوہ اور انسانی المیوں کے ایسے نازک اور حساس مرحلوں پر ایک میڈیا پرسن کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ اس کے انداز و اطوار میں احساس کی رمق ہونی چاہیے یا پھر اسے ایک پروگرامڈ روبوٹ کی طرح بے تُکے، سوال پر سوال کرتے رہنا چاہیے اور مدنظر صرف اپنے پروگرام کی ریٹنگ پر رکھنی چاہیے ۔ احساس سے عاری ایسے میڈیا کا کردار بھی اس بے حس فوٹو گرافر جیسا ہے جو جو ایک قحط زدہ علاقے میں قحط سے مرتے ہوئے بچے کی تصویریں تو بناتا رہے لیکن اس کے منہ میں پانی تک نہیں ڈالتا۔ موت اور زندگی دہلیز پر اس بچے کو گدھ نوچتے رہتے ہیں اور انسانیت سے عاری وہ فوٹو گرافر اپنے کیمرے سے یہ ایکسکلیوسیو منظر محفوظ کرنے میں لگا رہتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر نہ جانے کن لوگوں کا قبضہ ہے جو انسانوں کو اب اپنی ریٹنگ کے بڑھاوے کے لئے ایک بے جان پروڈکٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔کوئی خاندان کسی سانحے سے دو چار ہو جائے۔ کسی کا کوئی قتل ہو جائے، مر جائے تو یہ اپنے مائیک کی ڈگڈی اٹھا کر وہاں غم زدہ گھرانے میں پہنچ کر ایسے ایسے سوال کرتے ہیں کہ الامان! سانحہ پشاور تو یاد ہے نا۔ کتنی بڑی قیامت گزر گئی تھی اور جن خاندانوں کے ساتھ وہ قیامت بیتی۔ وہ آج بھی ہر ہر لمحہ ان پر بیت رہی ہے۔ جس ماں نے اپنے بچے کھوئے‘ جس باپ نے اپنے شہزادوں کو اپنے ہاتھوں سے دفنایا وہ آج بھی اس کی یاد کے جہان میں رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں ایک پروگرام ہوا۔ شہید بچوں کی مائوں کو پروگرام میں بلایا گیا۔ غم زدہ مائیں‘ اپنے بیٹوں کے یوں مر جانے پر جن کی زندگیاں بے خدوخال ہو گئیں‘ انہوں نے اپنے چہرے اپنی چادروں سے ڈھانپ رکھے تھے۔ ان غم زدہ مائوں کے اس پردے کا احترام کرنا چاہیے تھا مگر مجھے یاد ہے کہ کیمرہ ان کے ادھ ڈھکے چہروں سے ہٹتا نہ تھا۔ اس خباثت کا ان کو عِلم ہو گا اسی لئے وہ محترم غم زدہ مائیں اپنے چہرے جھکائے۔ مزیدجھکتی جاتی تھیں۔ ایک خاتون اینکر شہید بچے کی ایک غم زدہ ماں کے پاس گئی اور اس سے پوچھتی آپ کو کیسا لگتا ہے کہ آپ کا اکلوتا بیٹا دشمنوں نے مار دیا۔ اب آپ کی زندگی اس کے بغیر کسی ہے۔؟ تف ایسے میڈیا کی ریٹنگ پر۔ اور ایسی سوچ پر۔ جہاں غم زدہ مائوں اور ماں باپ کی گھنیری چھائوں سے کھو دینے والی یتیمی کی دھوپ میں جلتی بلتی ننھی بچی کو ایک پروڈکٹ بنا کر اپنے پروگرام میں اس طرح پیش کریں کہ پروگرام کی ریٹنگ میں اضافہ ہو۔ بنیادی طور پر یہ اس پورے معاشرے کی سوچ ہے۔ بیوائوں میں سلائی مشینیں اور آٹے کے تھیلے تقسیم کرتے ہوئے، دس پندرہ معززین شہر ‘ جب ایک برقعہ پوش مجبور اور بے کس بیوہ کے ساتھ تصویر بنوا کر اگلے دن اخباروں میں چھپواتے اور سوشل میڈیا پر اس کا چرچا کرتے ہیں تو یہ بھی عین اسی تعفن بھری سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ بس کچھ بھی ہو جائے ہماری ریٹنگ میں اضافہ ہونا چاہیے۔ کسی کی عزت‘ احساس ‘ جذبات کے آبگینے‘ کچلے جائیں یا روندے جائیں۔ مفاد اور سیلف پروجیکشن کی اس اندھی دوڑ میں کس کو پرواہ ہے۔ یقین جانیں۔ اگر اس معاشرے میں انسانوں کو صرف اس لئے انصاف ملتا کہ وہ اس ریاست کے شہری ہیں۔ اگر انہیں یقین ہو کہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی ناانصافی ہو جاتی ہے تو اس ریاست کا قانون ان کا نگہبان بن کر ان کے حق کی حفاظت کرتا تو یہ غم زدہ‘ لٹے پٹے‘ بے انصافی کے مارے ہوئے میرے پاکستانی کسی کیمرے والے۔ کسی مائیک والے کو اپنے گھروں کے ان صحنوں میں گھسنے نہ دیں۔ جہاں جنازے رکھے ہوتے ہیں۔ عورتیں ماتم کر رہی تھیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ بتائیے تو بھلا آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔؟: دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا!!