لیکن یہ وہی کر سکتے ہیں، جن کے اپنے قلوب زندہ ہوں۔ وہی سوئے ہوئوں کو جگا سکتے اور جاگنے والوں کو سوئے منزل رواں کر سکتے ہیں۔ دل گیا رونق حیات گئی غم گیا ساری کائنات گئی اندازِ فکر کی بات ہے۔ ایک ہی واقعہ مختلف دلوں پہ مختلف انداز میں اثر انداز ہوتا ہے۔ سندھ کے عالی قدر گورنر نے مصیبت کے ماروں کو ڈانٹ پلائی کہ یہ تمہارے گناہوں کی سزا ہے۔ ناروے سے پاکستان پہنچی ایک محترم خاتون ڈاکٹر نے رات گئے فون کیا:سیلاب زدگان کی مدد کے لیے فوری طور پر کس سے رابطہ کیا جائے۔ انہیں ایک سبکدوش فوجی افسر کے بارے میں بتایا جو معالجوں کی ایک ٹیم کے ساتھ تونسہ میں تھے۔ ایک گھنٹے میں پانچ لاکھ روپے وہ اس خاموش تنظیم کے بینک کھاتے میں منتقل کر چکی تھیں۔ یہی گوجرانوالہ کے ایک دوست نے کیا۔ ایک نہیں، دو تنظیموں کو انہوں نے روپے بھیجے اور رسیدوں کی نقول ارسال کیں کہ جلد از جلد افتادگان کی داد رسی ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا المیہ اس سے پہلے رونما نہیں ہوا تھا۔ واقعہ یہ بھی ہے کہ ایسی بے حسی کا مظاہرہ بھی کم ہوا ہو گا۔ سب سے زیادہ ہم میڈیا کے لوگ ذمہ دار ہیں، سیاستدانوں کی شعبدہ بازیوں میں الجھے جو پانیوں کے رحم و کرم پر پڑے ہووں کو بھول گئے۔ 2000ئمیں بلوچستان کو خشک سالی نے آ لیا۔ سینکڑوں برس سے چلے آتے سیب، چیری اور شفتالو کے باغات خشک لکڑی کے ڈھیر بن گئے۔ اسلام آباد سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے نوشکی کا قصد کیا۔ ایک معروف مذہبی جماعت کے علماء کرام کے ہمراہ۔ مسافر یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ حادثہ ان کی خوش خوراکی اور خوش باشی پہ رتی برابر بھی اثر انداز نہ ہو سکا تھا۔ ایک کے بعد دوسری ضیافت اڑاتے، سرکاری افسروں کا مضحکہ اڑاتے، وہ صوبے کی وسعتوں میں گھومتے رہے ۔ بھوکے پیاسوں کے لیے چندے کی اپیل تک نہ کی۔ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ دل اگر احساس سے خالی ہو تو مٹی کے ٹھیکرے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ احساس اگر کارفرما ہو تو مٹی میں بالیدگی جنم لیتی ہے۔ پروردگار عالم اسے زرخیزی عطا کرتا ہے۔ خیر اور تہور کی فصلیں اگتی ہیں اور اس طرح کہ آسمانوں کے فرشتے حیرت سے آدم زاد کو تکتے ہیں۔ یونہی تو وہ مسجود ملائک نہ ہوا تھا۔ یہ نومبر 1921ء کی بات ہے۔ مولانا ظفر علی خان کے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے مدیر مولانا عبدالمجید سالک گرفتار کر لئے گئے۔ خاندان کو اس حال میں چھوڑا کہ کوئی پاسباں نہ تھا۔ اسیری کے مہ و سال میں بیوی بچوں پہ کیا بیتی؟ مدتوں بعد اپنی خود نوشت میں شریک حیات کا ذکر کیا: ’’میری گرفتاری کے بعد مجلس خلافت پنجاب کی طرف سے مولوی عبدالقادر قصوری نے اور دوسری دفعہ خلافت بٹالہ کی طرف سے حاجی عبدالرحمن نے ایک ایک سو روپیہ ماہانہ، میرے بچوں کی امداد کے لیے دینے کی پیش کش کی۔ اس غیرت مند خاتون نے دونوں پیشکشوں کو شکریے کے ساتھ مسترد کر دیا۔ تنگی ترشی میں گزر اوقات کرتی رہی۔ سال بھر کے دوران کوئی ساڑھے تین سو روپے سید امتیاز علی تاج نے بھیجے، جنہوں نے میرے افسانوں کا ایک مجموعہ چھاپا اور دیگر افسانے اور نظموں کا ایک مجموعہ ’’راہ و رسم منزلہا‘‘ کے نام سے چھاپا تھا۔ اس کے سوا کوئی رقم کہیں سے نہ ملی۔ میرے بچوں نے نہایت صبر و شکیب سے یہ وقت گزار دیا۔ بلکہ جب بٹالہ میں خلافت کانفرنس منعقد ہوئی اور چندے کی اپیل کی گئی تو میری بیوی نے اپنے رہے سہے زیور بھی مجلس خلافت کی نذر کر دیئے‘‘۔ جہاں تک وعظ و نصیحت کا تعلق ہے، آج کے اخبار نویسوں نے نیاگان کہن کو بھی مات کر دیا۔ ظفر علی خان، دیوان سنگھ مفتون اور مولانا غلام رسول مہر کو بھی مات کر دیا۔ عمل کے میزان میں بھی کیا ہم اتنے ہی کھرے ہیں؟ ایک زمانہ ایسا بھی اس زمین پر بیت چکا ہے، جب ایک صحرائی بستی میں، علم و عرفان اور جو دوسخا کے دریا بہتے تھے۔ یہی ایک عہد ہے، تاریخ کے اوراق میں جو دائم جگمگاتا رہے گا۔ اکتساب نور کرنے والے، ہمیشہ جس سے اکتساب کرتے رہیں گے۔ سرکارؐ نے اپنے رفقا سے ایک دن سوال کیا۔ وہ کون سا دینار ہے جو ہزاروں دینار پہ بھاری ہے۔ جیسا کہ ان خوش بختوں کا قرینہ تھا، عرض کیا: اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: کسی کے پاس اگر دو دینار ہوں اور وہ ان میں سے ایک دینار نذر کر دے تو وہ ہزاروں سے افضل ہو گا۔ دوسروں سے کیا کہتا، اپنے آپ سے ضرور پوچھا:کیا تمہارے پاس دو دینار بھی نہیں؟ کیا زمانے کا زمانہ ہی بے حس ہو چکا؟ جی نہیں ایسا بالکل نہیں۔ جماعت اسلامی کے ایک کارکن نے ڈیرہ غازی خان کے ایک بھکاری بچے کی تصویر سامنے کی ہے۔ چپ چاپ، خاموش اور بے نیاز وہ چندے کی صندوقچی کے پاس پہنچا اور اپنی یافت کا کچھ حصہ حوالے کر دیا۔ آخر کار کچھ لوگ جاگ تو اٹھے ہیں لیکن ابھی کہاں۔ اس سرگرمی کا ابھی عشرِ عشیر بھی نہیں، سانحے کو جس کی طلب ہے۔ نیند سے گو نماز بہتر ہے اثر خواب ہے اذاں میں ابھی ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت نے اسی ہزار اجڑے ہوئے لوگوں کو بسانے کا منصوبہ بنایا۔ ازراہ کرم اس ناچیز کو بھی اطلاع دی۔ سب سے زیادہ سرگرمی مگر جماعت اسلامی کی الخدمت نے برپا کی۔ کوئی نگر، کوئی دیار ایسا نہیں، جہاں اس کے ایثار کیش نوجوان نہ پہنچے ہوں۔ ارب پتی سیاستدانوں کو چھوڑیے کہ ان کی حاجت مندی کبھی تمام نہیں ہو سکتی۔ عام پاکستانی مختلف ہیں۔ جاگ اٹھیں تو جاگ اٹھتے ہیں۔ انہی کے کواڑ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے۔ آسودگی سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ دولت مند دولت کی محبت میں جل مرتا ہے۔ اس کی روح خاک ہو جاتی ہے۔ چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور سوتا جاگتا۔ مگر مردہ۔ فرمایا: سونے کی ایک وادی بھی اسے عطا ہو تو دوسری کی آرزو کرے گا۔ مانگنے والا گداہے صدقہ مانگے یا خراج کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا بہت سے دل ایسے ہیں، جن کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے فقط وہ ایک دستک کے طلب گار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ وہی کر سکتے ہیں، جن کے اپنے قلوب زندہ ہوں۔ وہی سوئے ہوئوں کو جگا سکتے اور جاگنے والوں کو سوئے منزل رواں کر سکتے ہیں۔ دل گیا رونق حیات گئی غم گیا ساری کائنات گئی