کروناکی مسلسل تباہ کاریوںکودیکھ کرعبرت حاصل کرلی جاتی ،ہمارے عمومی رویوں میں تبدیلی آجاتی مگر کم ایسا نظرآرہاہے ۔کروناہزار موذی سہی اس نے ہمیں بھلایاہواسبق یاد دلایا۔سکھادیاکہ اپنے آپ کومادر پدر آزاد سمجھے جانے والو! یہ دنیاخودبخودبنی ،نہ تم اورنہ ہی اس میں موجودمخلوقات۔ اس کائنات کا اور تمہارا، ایک خالق ہے اورحقیقی مالک ۔انسانیت جودرندگی میں بدل چکی تھی،کرونانے اسے سیدھا کر دیا۔ حلال وحرام کی تمیزہم بھول چکے تھے اسکی یاددہانی کرائی ۔حقیقی معنوں میں نفع ونقصان پرسیرحاصل درس دیا۔ حقوق العبادجو روندے جاچکے تھے یاددلائے اورحقوق العبادمیں خدمت خلق اورغمگساری کے جذبات پھرسے زندہ کردیئے۔حقائق یہ ہیں کہ معاشرے میں صرف ایسے زردار ظالم ہی نہیں رہتے کہ جومال بنانے کے نشے میںمخمورمعاشرے کے نادارطبقے کوپائوں تلے روندرہے ہیں اورانکی لاشوں کوگھسیٹ رہے۔ جس چیزکی مانگ اورطلب بڑھ جاتی ہے اسکی مصنوعی قلت پیداکی جاتی ہے پہلے سرجیکل ماسک کی مصنوعی قلت پیداکی گئی اوراس کا 500روپے والاڈبہ 1500میں فروخت ہوتارہا اوراب کلوروکین کی مصنوعی قلت پیداکی گئی۔ ذخیرہ اندوزاورگراں فروش طبقہ ہمارے معاشرے کاسب سے بڑاناسورہے۔ کرونا کی تباہ کاریوں کے دوران ہمارے معاشرے کا غمگسار، ہمدرد اور شفیق چہرہ بھی سامنے آیاجوخدمت خلق کافریضہ اداکرتے ہوئے مستحق لوگوںتک نقدوجنس امدادپہنچارہا ہے اوریہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی سخاوت سے ابھی ہم کسی بڑے عذاب سے دوچارنہیں ہوئے۔ اسلام نے بنیادی عقائد کے بعد خدمت خلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اوراسے حقوق العباد قراردیا ہے۔خدمت خلق محبت الہی کا تقاضہ ،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت میںسرخرو ہونے کا ذریعہ ہے۔صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں بلکہ کسی کی کفالت کرنا ،کسی کو تعلیم دینا ،مفید مشورہ دینا ،کوئی ہنر سکھانا ،علمی سرپرستی کرنا ،تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا ،کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔ مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے، اس لیے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کیلئے آپسی تعاون ،ہمدردی ،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے، اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علم بردار ہے اور نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو،سماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے ،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے۔اپنا آرام قربان کرکے دوسروں کی راحت کیلئے اپنا وقت صرف کرے۔کمال یہ ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کے دائرہ کارکو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کو ضروری قرار دیا، روایتوں کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا وہیں تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ بھی قرار دیا، اس سے انسانیت کی تعمیر کیلئے آپسی ہمدردی ،باہمی تعاون اور بھائی چارے کی وسیع ترین بنیادیں فراہم ہوئی ہیں۔پڑوسی کے حقوق کی بات ہو یا مریضوں کی تیمارداری کا مسئلہ ،غرباکی امداد کی بات ہو یا مسافروں کے حقوق کا معاملہ ،اسلام نے رنگ ونسل اور مذہب وملت کی تفریق کے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کو ضروری قرار دیاہے۔ انسانیت کی خدمت کر کے قلب و روح کیساتھ اپنے سچے رب ذوالجلال کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ بھوکے کو کھانا کھلانا، کسی مستحق کی مدد کرنا کسی یتیم کے سرپر دست شفقت رکھنا فرض عبادت کے بعد سب سے عظیم ترین عبادت ہے ۔خدمت خلق سے جو قلبی سکون ملتا ہے وہ لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا ۔ کسی کا دکھ درد دور ہونے کے بعد کسی کے منہ سے بے اختیار نکلنے والی دعائیں لینی چاہئے اور دعائیں انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے ۔ مخلوق خدا کی مخلصانہ خدمت الٰہ العالمین کی رضا و خوشنودی کا بہترین ذریعہ ہے ۔خدمت خلق کے لئے مخلوق خداکی غمگساری کامشن رکھنے والی کسی تنظیم کاحصہ بنتے ہوئے ایک ڈسپلن اورایک ضابطہ کے تحت جڑجاناچاہئے ۔ ایک خدمت گار دل سے عہد کرتا ہے کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ہر ممکن کوشش کریگا۔ وہ مخلوق کی خدمت کرتے ہوئے تھکتا نہیں ہے۔ بیزار نہیں ہوتا ۔ دکھاوے اور نمائش سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ ایسے لوگ دل میں خوف خدا لئے دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی دنیا خوبصورت ہے۔ محتاجوں کے کام آنا، بھوکے کو کھانا کھلانا، اپاہجوں اور یتیموں کی سرپرستی کرنا، یہ وہ نیکیاں ہیں جو امن و آشتی اور انس و الفت کے پھول بکھیرتی ہیں۔ اور دلوں کو تسکین دیتی ہیںاورمصائب وآفات سے نجات کاباعث بنتی ہیں۔ کرہ ارض پررہنے بسنے والے انسان یکساں صلا حیتوںاور اوصاف کے حامل نہیں ۔اس لحاظ سے ان کے درمیان فرق وتفا وت ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کا ئنات رنگ وبو کا حسن و جما ل ہے ۔ رب العالمین چاہتا تو ہر ایک کو یکساں بنا دیتا لیکن اس یک رنگی سے اس کی شانِ خلاقی نکھرکرسامنے نہ آتی اور جس امتحان گاہ میں انسان کو اتاراپھر شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ۔اس رب نے امتحان گاہ ’’دنیا‘‘میں انسان کواتاراتوکسی کو بہت کچھ دیا اورکسی کومحروم رکھاہے۔لیکن جس کومالداربنایا اسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے۔ وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معا شرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدد وہ بندے کریں جن کو اس نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو ۔ بیوائوں اور یتیموں کی مدد ، مسافروں ، محتاجوںاور فقرا اور مساکین سے ہمدردی، بیماروں،معذوروں،قیدیوںاورمصیبت زدگان سے تعاون یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں۔انسان کے دکھ درد کا مرہم رکھنے ، اس کے مصائب کا مداواکرنے، اس کی ضروریات کوپوراکرنے کاحکم یہی پس منظررکھتاہے۔الٰہ العالمین انسا نوں کوانسا نوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسا نوں کی مدد اور غمگساری کاحکم دے کر انسان کوآزماتاہے۔