لاکھ انکار کریں۔ بدفطرت، ہزار مزاحمتیں پیش آئیں اور اندھیرا ڈھیٹ ہو جائے تو قدرت کے قوانین ہرگز ہرگز تبدیل نہیں ہوں گے۔ بہت غلیظ طبیعت ہے ابلیس کی ، ھٹ سے باز نہیں آتا۔ جن کی فطرت میں شر راج کرتا ہے، وہ غافلین ہیں۔ آنکھ نہ کھلی تو پھر زمرۂ منافقین میں ان کو درجہ مل جاتا ہے۔ اپنی سی کرتے ہیں۔ خود ہی کو خود پوجتے ہیں۔ یہ لوگ کتاب آخر کی لغت قانون میں شر البریہ ہیں۔ محسن کش ہوتے ہیں۔ مالک سے بغاوت پر اتر آتے ہیں اور خالق سے طوطا چشمی کرنا ان کے من کی سیر چشمی ہے۔مالک تو بہرحال مالک ہے۔ عبدیت کا دم بھرنے والوں سے پیار کرتا ہے، وہ معاف کرتا ہے، ان کو خوش حال کرتا ہے، خوش خصالی ایسے تابع فرمان بندوں کے کردار میں اترتی چلی جاتی ہے۔ ایسے کہ ع وادیٔ جاں مین کوئی نور بھرن اترے ہے قربت اور خلوت کے مواقع نصیب ہوتے ہیں۔ ہر جہاں میں بلندی اور فوز عظیم کے دائمی سندیسے اپنے مقبول ترین عبد مکرم کی زبانی بھیجے۔ کوئی لمحہ رحمت سے خالی نہ رہے۔ کسی پل بھی اس کی عطاؤں کا بادل برسنے سے نہ تھکے پھر چمکتی دھوپ نکلے۔ گناہوں کے خس و خاشاک کو حرارتِ محبت سے جلا ڈالے۔پورا نظام ہے۔ ایک شے دوسرے وجود سے ایسے مرتب قرینے سے جڑی ہے کہ اقرار کرتے ہی بنتی ہے، رخنہ باقی ہی نہیں رہا۔ کیا مادہ، اور کیا روح، نفس اور قلب کی دھرتیاں ایسی پیوست ہیں کہ اگر عقل رسا نصیب ہو تو ایمان کی لذت سوا ہو جاتی ہے۔ مکان کی قیمت کتنی بلند ہے؟ اور زبان کی برکات کا دائرہ کتنی وسعت پر حاوی ہے؟ علام الغیوب کی عطا سے زمان و مکان کی وسعت و رفعت علوم نبوت میں سمو دی گئی ہے کون سی گھڑی شب گھڑی ہے اور کون سی جگہ بقائے یار کا مرکز کرم ہے۔ یہ سب باتیںنبوت کی زبان سے ادا ہوئی ہیں اور معتبر ہو گئی ہیں۔ قانون جزا اور سلسلہ عطا و اب زبان نبوت ہی سے معتبر ہو گا۔وقت میں برکتیں ہیں۔ جمعہ ہو یا شب جمعہ۔ تنزیل قرآن کا مہینہ ہو یا ولادت صاحب قرآن کا ماہ مقدس سب اوقات اور ایام اپنے جلو میں بخشش سامانیاں لے نجات کی نوید دیتے ہیں۔ قرآن نے کہا کہ یہ شہر مقدس یعنی ماہ مبارک رمضان ہے۔ پیغام رسالت کی قانونی کتاب پیغام رحمت کی وثیقہ جاتی دائمی کتاب‘ حیات انسانی کے ہر زندہ شعور کی روشنی کا مرکز کتاب اور کتاب زندگی کے سرورق کی آیات زریں کو خدائی روشنی عطا کرنے والی کتاب، جو قلب نبوت پر امین فرشتہ جبریل لے کر آیا تھا۔ ماہ مقدس اور کتاب مبارک کا ایک زبانی تعلق پوری کائنات کو ہدایت اور عطا بخش کے ساتھ ساتھ رحمت‘ مغفرت اور دوزخ سے نجات کا مژدہ دے کر رخصت ہو رہا ہے۔ رمضان مقدس زندگی کو بندگی میں بدلتے ہوئے رخصت ہو رہا ہے احساس انسانیت اور احساس معاشرت کو بیدار کرتے ہوئے آخری ایام نجات اور اور شرف آدمیت کا اصل منظور واضح کرتے ہوئے رخصت ہو رہے ہیں۔ شب و روز فضا میں ملکوتی اثرات نظر آتے تھے۔ اب کچھ ایام باقی ہیں۔ ایاما معدودات۔ بالکل ہی گنتی کے دن۔ اپنے سفر کے آخری مراحل میں ہیں۔ راتوں کو قرآن خوانی‘ تخلیے میں خاموش مناجات‘ احساس ندامت کا آنسوئوں کا سہارا لے کر اظہار اور اپنی کم ہمتی‘ کمزور عملی کا ایسا بے بیان احساس جو محض مالک کے سامنے عجز کی سوغات کے ساتھ پیش کیا جاتا۔یہ تھا ایک مختصر محضر نامہ جس میں انسان اور اس کے مطالب حیات‘ مطلوبات بندگی کا بہت ہی سادہ سا خاکہ نظر آتا ہے وہ انسان کسی ماحول میں تیار ہوتا ہے وہ انسان کسی مشق سے گزر کر اپنی زندگی کو دوامی حیات کے سفر کے لئے مضبوط کرتا ہے؟وہ ماحول رمضان المبارک میں میسر آتا ہے جب مومن ایمان اور خود فگری و خود احتسابی کے پائیدار اور ثابت قدمی کے عقیدے کے ساتھ ایک مادی اور روحانی مشق سے گزرتا ہے۔ بھوک پیاس‘ ایثار‘ احساس حواس خمسہ میں خدائی احکامات کا نفاذ اور اپنی نفسانی مرضیات کو ترک کرنے کی جہد مسلسل ہے۔ سید کونین ﷺ نے حواس خمسہ کی حفاظت کو روزے کی تکمیل سے مشروط فرمایا کہ اگر کوئی شخص زبان کو بدکلامی‘ غیبت‘ ایذا سے محفوظ نہیں رکھتا آنکھوں کی مطلوب حفاظت سے تہی دست ہے ،کانوں سے فحش سماعت اور ہاتھوں سے ظلم کا یارانہ ہے تو وہ روزے کے مطلوبات کو پورا نہیں کر رہا ہے۔ اس کا بھوکا پیاسا رہنا محض بے ثمر ہے اور اجر دینے کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ بھوکا پیاسا رہے۔ رحمت کا دروازہ اتنا وسیع ہے کہ مغفرت کے دروازوں کو اپنی اوٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ جونہی رحمت کی اذن ہوا‘ راحت اورسکون کی فضائوں نے دلوں کی وادیوں کو اپنی بہاروں سے نوازنا شروع کر دیا ہے۔ دوزخ اور عتابی حرارت سے نجات مل گئی۔ زندگی کتنی پیچیدہ ہے۔ لاکھ بل، ہزار کج اور لاتعداد مراحل ہیں۔ ہر لمحہ غم و راحت کا قضیہ قدیم دامنگیر رہتا ہے۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ عقل بالکل بے سہارا اور جذبات بالکل بے بصر ہوتے جاتے ہیں۔ راستے بند تدبیر عاجز اور تقدیر غالب‘ لیکن خالق الامر تو کسی طرح بھی پابند نہیں ہے وہ اپنے امر پر غالب ہے اور انسان ہیں کہ بے علم ہیں۔ تقدیر کے دروازے پر دعا اپنا استحقاق اور تاثیر کی قدرت لئے حل مشکلات کا راستہ نہایت آسان کر رہی ہے۔ صدائیں ہیں کہ خدا نے خود مانگنے کا انداز بقلم فرما دیا۔ اللھم انک عفوتحب العفو فاعف عنا یا غفور یا غفور یا غفور ہمارے معبود یقین کے ساتھ عرض کناں ہیں کہ تو ہی تو ہے جہاں ہر طرح کی بڑے سے بڑے گناہوں کی معافی کا داعی لازوال خزانہ موجود ہے۔ معافی ختم نہیں ہوتی ‘ چاہے سارا جہاں گناہوں کی دلدل میں اتر جائے۔ اور معاف فرمانا تیرا محبوب ترین کرم کا خاصہ ہے۔ بس ہمیں بخش دے اے سراپا پردہ پوش۔ اے بخش کی مہار والے اور اے دائمی بخشن ہار۔ یہ دعا ستارالعیوب کے محبوب ‘ سرکار وریٰ ﷺ نے امت کو سکھائی تھی۔ شمار وتعداد سے باہر زبان وما ینطق عن الھویٰ سے دھرائی اور تاثیر کے اس مقام رفیع پر یہ ایسی دعا ہے کہ قدسیان فلک تحیر زدہ ہیں۔ سلام ہو دوام کے ساتھ مقبول ترین محبوب کی ذات پر اور لطف و توجہ کی درودی بارشیں برسیں رسول آخرﷺ پر اتنی زیادہ اتنی زیادہ کہ ان ﷺ کے خدا کی محبتیں اور مرضیات درود و سلام کی موافقت کریں۔