جی نہیں، ان سب شعبدہ بازوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔73برس تک ٹھوکریں کھانے کے بعد قوم کو ایسی قیاد ت درکار ہے، جو خواب بیچنے کی بجائے، عمل کا سرمایہ رکھتی ہو۔ الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے جب اظہار ہی سب کچھ ہو۔ جب ادراک نہ ہو کہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے سے نہیں بلکہ حیات حسنِ عمل سے سنورتی ہے تو وعظ و نصیحت اور نعرے بازی کے سوا اور کیا؟ قرآنِ کریم سوال کرتاہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں؟ اللہ کی کتاب مگر کون پڑھتااور کون اس پر غور کرتاہے۔ محمد علی جوہر ایک شعلہ ء جوالہ تھے۔ رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے "محمد علی بولتے تو یوں محسوس ہوتاکہ جیسے شاہ جہاں کے ذہن میں تاج کا نقشہ ابھر رہا ہے، جیسے ابو الہول کی آواز اہرامِ مصر سے ٹکرا رہی ہے، جیسے کِرپ کے کارخانے میں توپیں ڈھل رہی ہیں "۔۔۔جرمنی کی ایک مشہور اسلحہ ساز فیکٹری۔ انشا پرداز ایسے کہ ہندوستان کا انگریز وائسرائے واپس جاتے ہوئے، ان کے اخبار کی فائلیں ساتھ لے گیا۔ خطیب ایسے کہ گویا مردوں کو زندہ کر دیتے۔ ہندوستان کے خس وخاشاک میں آگ بھڑکانے والے تین چار رہنماؤں میں سب سے نمایاں تھے۔ تحریکِ خلافت ان کے بغیر ادھوری ہوتی۔ ناقابلِ شکست پاک ترک تعلقات کی صور ت میں،جس کا پھل آج بھی ہم کھا رہے ہیں۔ا وّل اوّل وہ قائد اعظم سے کسی قدر فاصلے پر رہے۔ 54برس کی عمر میں ذیابیطس کے عارضے اور جذبات کی آگ نے ان کی صحت کو چاٹ لیا تو ملاقاتیوں کے ایک وفد سے کہا: میرے پاس کیا لینے آئے ہو، محمد علی جناح کے پاس جاؤ۔ یہی وہ زمانہ تھا، جب علّامہ اقبالؔ سمیت بہت سوں نے دریافت کیا کہ مسلم بر صغیر کے درد کا درماں اگر کسی کے پاس ہے تو وہ قائدِ اعظم کے سوا کوئی نہیں۔ وہ آدمی جو الفاظ کے انتخاب میں آخری درجے کی احتیاط روا رکھتا۔ جو جانتا تھا کہ زندگی اظہار سے زیادہ غور و فکر اور منصوبہ بندی کا مطالبہ کرتی ہے۔ کوئی خواب متشکّل نہیں ہوتا، اگر حکمتِ عملی کارگر نہ ہو، اجتماعی خواب تو ہرگز نہیں۔ اگر قوم کی تربیت نہ کی جائے اور اگر باریک بینی سے مرتب کیا گیا لائحہ عمل ہمہ وقت ملحوظ نہ رہے۔ آزادی کے لیے ہندوستان بے تاب تھا۔ سوال مگر یہ تھا کہ انگریزی استعمار کے خاتمے کے بعد ہندو اکثریت کے غلبے کا علاج کیا ہو۔ مولانا حسین احمد مدنی اور برصغیر کی تاریخ کے سب سے بڑے خطیب عطائ￿ اللہ شاہ بخاری سمیت، قوم پرست رہنماؤں کا جواب یہ تھا کہ ایک بار بھارت آزاد ہو چکے تواس سوال کا جواب بھی تلاش کر لیا جائے گا۔ابوالکلام کی رائے ذرا مختلف تھی۔جنگِ عظیم کے ہنگام لارڈ کرپس سے مذاکرات میں پیہم وہ اصرار کرتے رہے کہ اقتدار کانگرس کو منتقل کر دیا جائے۔ان کی کتاب "India wins freedom" میں اس نکتے کی تکرار اتنی ہے کہ قاری زچ ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ اور آدمی کی سرشت کے رازداں اقبالؔ مصر تھے کہ مسلمانوں کی بقا الگ وطن کے حصول میں ہے۔ وہ اس جنون پرور ہندو قوم پرستی کے باطن سے خوب آگاہ تھے، جس نے اورنگزیب عالمگیر کے آخری دور میں آنکھ کھولی اور جس کے رہنما مرہٹہ لیڈ رشیوا جی تھے۔ تعجب کے ساتھ آدمی سوچتا ہے کہ اگر پاکستان کا خواب شرمندہ ء تعبیر نہ ہوتا تو ہماری حالت کشمیر، احمد آباداور بھارت کے دوسرے شہروں میں بسنے والوں سے کیسے مختلف ہوتی؟ آج بھی اس ملک کے بے وفا بھارت سے ہمدردی رکھتے اور مغرب کے راتب پر پلتے ہیں۔ کیا وہ برہمن کے آلہ ء کار نہ ہو جاتے؟ قائد اعظم ایک استثنیٰ تھے وگرنہ مسلم برصغیر پہ ہمیشہ جذبات کا غلبہ رہا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد اس کے دامن میں جذبات کی دولت رہ گئی۔ شکست خوردگی اور عہدِ رفتہ کی شوکت میں پناہ لینے کی کوشش۔ دردمند اور عملیت پسند محمد علی جناح اگربروئے کارنہ آتے تو فرقوں میں بٹی، مفلس او رسیاسی طور پر ژولیدہ فکر قوم کا انجام کیا ہوتا؟ افسوس کہ مسلم بر صغیر آج بھی جذبات کی سطح پر زندہ ہے اور فکر و فہم کی اہمیت سے نا آشنا۔ وہ نہیں جانتاکہ خطابت سے آگ تو بھڑکائی جا سکتی ہے مگر ایک چھوٹا سا گھروندہ تعمیر کرنے کے لیے بھی منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے؛چہ جائیکہ کہ بائیس کروڑ انسانوں کا ملک،جو پیہم اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی عنایات کا شکار ہے۔۔۔اور ان میں سب سے نمایاں ہمارے مذہبی اورسیاسی لیڈرہیں۔ جن پر رہنمائی کی ذمہ داری ہے، وہی اپنی قوم کو جذباتی پراگندگی میں مبتلا رکھتے ہیں۔ مغرب میں دوعشرے بتا دینے والے عمران خاں اور بھی شدو مد سے۔اس لیے کہ اقتدار جبلتوں کی وحشت سوا کرتاہے۔ امریکہ بہادر سے مراسم کی نوعیت اور کشمیر پرپاکستانی پالیسی آج بھی المناک کمزوری کی مظہر ہے۔نیا موقف ضرور سامنے آیا ہے مگر سفارتی مہم میں کیا وہ بروئے کار بھی آئے گا؟کیا سیاسی اور معاشی استحکام کے بغیر ملک امریکہ سے بے نیاز ہو سکتاہے،خطے میں بھارتی بالادستی جس کی ترجیح ہے۔کیا پاکستانی طالبان اب پہلے سے بھی زیادہ بھارت پہ بھروسہ نہیں کر رہے؟ ملک کو امن و امان درکار ہے۔ امن سے استحکام جنم لیتااو رمعاشی طور پر وہ نمو پذیر ہوتا ہے۔ ملک اور اقوام ایک کم از کم اتفاقِ رائے میں زندہ رہتے ہیں۔ اسلام میں مذہبی طبقے کاالگ سے کوئی وجود نہیں۔ عالمانِ دین تبھی موثر تھے، جب وہ معاشرے میں گھل مل کر رہتے اور اس کے آہنگ کا حصہ تھے۔ جب محمود غزنوی شیخ ِ ہجویر علی بن عثمانؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ جب شہاب الدین غوری نے ہندوستان پر حملہ کرنے سے پہلے خواجہ معین الدین چشتیؒ سے اجازت مانگی تھی۔ جب بلبن نے اپنے ایک لاکھ لشکریوں کے اصرار پر خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ کے دیار کا رخ کیا تھا۔ کہا جاتاہے کہ جمہوریت کی بساط کسی نے لپیٹنے کی کوشش کی تو اسے عوام کے غیض وغضب کا سامنا ہو گا۔ کون سا غیض و غضب؟ خدا کا شکر کہ عدالت سدّ راہ ہے، فعال طبقات میں جمہوریت کی بقا پر اتفاقِ رائے او رفوج کا سربراہ حالات کا کچھ نہ کچھ ادراک رکھتا ہے۔عسکری قیادت جانتی ہے کہ آئے دن مریض کو steroid نہیں دیا جا سکت اورنہ بھوک اور بد امنی کا مارا آدمی تو بانہیں کھول کر فوج کا خیر مقدم کرے۔ کہا جاتاہے کہ کسی مدار ی نہیں، درد کی دو امیاں محمد نواز شریف کے پاس ہے۔ میاں نواز شریف تو سب سے بڑے مداری ہیں۔دولت کے پجاری، اپنے وطن سے بے زار، دشمن پہ مہرباں۔ جی نہیں، ان سب شعبدہ بازوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔73برس تک ٹھوکریں کھانے کے بعد قوم کو ایسی قیاد ت درکار ہے، جو خواب بیچنے کی بجائے، عمل کا سرمایہ رکھتی ہو۔ الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے