لکھنے والے بسا اوقات کئی باتیں ایک خاص انڈسٹینڈنگ کے تحت لکھتے ہیں ، اندازہ ہوتا ہے کہ قارئین اس ایشو کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہوں گے اور کچھ لوگوں کا اس حوالے سے سے مطالعہ زیادہ تفصیلی ہوگا۔بہت سی باتیں انڈرسٹڈ سمجھی جاتی ہیں کہ پڑھنے والے اس بارے میں جانتے ہی ہوں گے۔جیسے آج کل اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح بہت زیادہ سننے، بولنے میں آ رہی ہے۔ کالم نگار اسٹیبلشمنٹ کے کردار ، اس کی سوچ ، غلطیوں وغیرہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی لکھنے والا ہر بار پہلے ایک کالم اسٹیبلشمنٹ کے تعارف، پس منظر وغیرہ پر لکھے۔اندازہ یہی ہوتا ہے کہ چونکہ اس بارے میں بہت کچھ لکھا، پڑھا، سنا جا چکا ہے، اس لئے ایک خاص سطح کی ابتدائی معلومات سے آگے کی بات کرنی چاہیے۔ یہ اور بات کہ کئی قارئین اپنی ای میلز، فیس بک فیڈ بیک میں پوچھ ڈالتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کیا بلا ہے، پہلے اس کے بارے میں تو سمجھائیں۔ ایسے میں لکھاری مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ اخوان المسلمین کے بار ے میں کئی بار لکھ چکا ہوں، دنیائے اسلام کی بہت اہم اور اپنے ارکان اور اثرورسوخ کے اعتبار سے سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اخوان المسلمین (Muslim Brotherhood) کے اہم رہنما اور منتخب مصری صدر ڈاکٹر مرسی کی موت کے حوالے سے گزشتہ روز کالم لکھا تو بعض قارئین نے اخوان المسلمین پر مزید لکھنے کی درخواست کی۔ نوجوان پڑھنے والوں میں سے کچھ اخوان کے پس منظر سے واقف نہیں تھے، کسی نے صرف نام ہی سن رکھا تھا۔ بعض اخوان کے بارے میں مغربی پروپیگنڈے کا شکار تھے۔ان کا خیال تھا کہ اخوان المسلمین کو اپنی غلطیوں کی سزا ملی، انہوں نے جبر سے کام لیا، مذہبی شدت پسند ہوگئے ، وغیرہ وغیرہ۔ اخوان المسلمین کے بارے میں مغربی اور عرب(خاص کر سعودی ، اماراتی ، کویتی )میڈیامیں بہت کچھ غلط اور جھوٹ شائع ہوتا رہا ہے ۔تصویر کا صرف ایک رخ بلکہ یوں کہیے کہ بگڑی ہوئی تصویر دکھائی جاتی رہی ہے۔ اخوان المسلمین کی قربانیوں، ایثار اور عزم وہمت کی داستان بڑی شاندار اور عظیم الشان کامیابیوں سے معمور ہے۔ دنیا کی شائد ہی کوئی دوسری تحریک یا تنظیم ایسی ہوگی، جسے اس قدر قربانیاں دینا پڑیں، اس کے باوجود وہ تشدد سے گریز کرے اور پرامن رہے۔ اخوان المسلمین کے بانی مصر کے ایک استاد اور سکالر سید حسن البنا تھے۔ 1928 ء میں حسن البنا نے اخوان المسلمین قائم کی، انگریزی میں اسے مسلم برادرہڈ کہا جاتا ہے، اس کا بنیادی خیال حضور ﷺ کے مواخات مدینہ سے لیا گیا جس میں مہاجر اور انصاریوں کو بھائی بھائی بنایا گیا۔ سید حسن البنا کی تحریک کا مقصد بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی حالت بدلنا تھا۔اخوان بنیادی طور پر ایک دعوتی، معاشرتی ، تربیتی تحریک ہے۔ اس نے ایک طویل عرصے تک معاشرے کی حالت سدھارنے کا کام کیا۔ اخلاقی برائیوں کو اپنا ہدف بنایا اور بہت سے چیریٹی کے ادارے بنائے۔گلی محلے کی سطح پر سکول، فری ڈسپنسریاں، ہسپتال، درس قرآن کے ادارے، نوجوانوں کے لئے تربیتی ادارے وغیرہ۔ سید حسن البنا بنیادی طور پر صوفی مزاج شخص تھے، انہوں نے اپنے ساتھیوں کی تربیت اورتزکیہ نفس پر خاص توجہ دی۔ اپنے نوجوان ساتھیوں کے لئے روزانہ قرآن پاک کی تلاوت ، ذکر ازکار اور مسنون دعائوں کا ایک نصاب انہوں نے ترتیب دیا۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا، اردو میں بھی یہ دستیاب ہے، منشورات پبلشر نے اسے شائع کیا ہے۔ اسے پڑھنے سے آدمی روحانی طور پر سرشار ہوجاتا ہے۔ سید حسن البنا کی تحریک کی مقبولیت نے ان کے دشمن پیدا کر دئیے۔ مصرپر ان دنوں انگریز سامراجیت کا قبضہ تھا،سامراجی قوتوں کے ساتھ مصر کے سیکولر ، ملحد اور سوشلسٹ حلقے بھی حسن البنا کے مخالف تھے۔ انہیں 1949ء میں اپنے دفتر کے باہر گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔حکومتی ظلم اس قدر شدیدتھا کہ جنازے میں کسی کو شامل نہ ہونے دیا گیا۔ حسن البنا کے ضعیف والد اور گھر کی خواتین نے جنازہ اٹھا کر تدفین کی۔ اخوان کی آزمائشیں ختم نہیں ہوئیں ، یہ ان کی ابتدا تھی۔ اس وقت حالات اس قدر سنگین تھے کہ پوری تنظیم ختم ہونے کا خطرہ تھا۔ اسی خدشے کے پیش نظر حسن البنا کے ایک قریبی دوست حسن الہدیبی کو اخوان کا مرشد عام (سربراہ) بنایا گیا۔چند سال بعد نوجوان مصری فوجی افسروں کے ایک گروپ نے ملک میں انقلاب برپا کر کے سامراج کی پٹھو حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ جمال ناصر اس کے نمایاں لوگوں میں سے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اخوان کے لوگ بھی اس خفیہ انقلاب میں شامل تھے۔ جنرل نجیب سربراہ بنے، تاہم جلد ہی جمال عبدالناصر نے انہیں چلتا کر کے خود حکومت سنبھال لی۔کچھ عرصے بعد صدر ناصر پرقاتلانہ حملہ ہوا ۔ تمام تر ذمہ داری اخوان المسلمین پر تھوپ دی گئی۔ غیر جانبدار حلقے کہتے ہیں کہ یہ واقعہ محض اخوان کو کچلنے کے لئے سٹیج کیا گیا تھا۔ ناصر حکومت نے اخوان پر بدترین ظلم وتشدد کی انتہا کر دی۔ ہزاروں اخوانی جیل بھیج دئیے گئے، ان پر خوفناک تشدد ہوا۔ اس تشدد کی ایک جھلک معروف اخوانی خاتون لیڈر زینب الغزالی کی رودادزنداں میں ہے۔ یہ کتاب بھی اردو میں ترجمہ ہوچکی ہے، اس المناک داستان کوپڑھنا مگر دل گردے کا کام ہے۔سید قطب ا س وقت اخوان المسلمین کے مرکزی قائدین میں سے تھے، ان کی تفسیر اور کتابوں نے پوری عرب دنیا میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ سید قطب کو بیسویں صدی کے دو تین سب سے بڑے مسلم سکالروں میں شامل کیا جاتا ہے۔ سید مودودی سے قطب بڑے متاثر تھے۔ سید قطب جیسے نابغہ روزگار شخص کو جمال ناصر حکومت نے پھانسی چڑھا کر سفاکی کی ایک خوفناک مثال قائم کی۔ یہاں پر ضمناً ذکر کرتا چلوں کہ سید قطب کی پھانسی کی خبر نے سرائے نازک میر، افغانستان میں دسویں جماعت کے ایک طالب علم کو بے حد متاثر کیا اور وہ اسلامی تحریکوں کی جانب راغب ہوا۔ بعد میں وہ گلبدین حکمت یار کے نام سے مشہور ہوا۔ 1972ء میں اخوان کے سربراہ حسن الہدیبی انتقال کر گئے، ان کے بعد اخوان کے مرشدعام عمرتلمسانی بنے۔ یہ 1986 ء تک مرشد عام رہے۔ انہوں نے بھی کٹھن دور دیکھا۔ دراصل جمال ناصر کے بعد انور سادات مصر کے صدر بنے تھے، انہوں نے اسرائیل کے خلاف جنگ کی کوشش کی ، 73ء کی جنگ رمضان کو مشرق وسطیٰ کی سیاست میں بڑی اہمیت ہے۔ اس جنگ میں ناکامی نے انورسادات کو اس قدر فرسٹریٹ کر دیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار ہوگئے۔ مصر میں اس پر شدید ردعمل ہوا۔ ایک فوجی پریڈ کے دوران صدر سادات کو قتل کر دیاگیا۔ اس کا نزلہ بھی اخوان پر پڑا ۔ دراصل اخوان مصر کی سب سے اہم اور بڑی اسلامی تحریک تھی۔ مذہبی نقطہ نظر رکھنے والے نوجوان زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ اخوان مگر مکمل پرامن تحریک تھی۔ سید حسن البنا جمہوریت کو اہم سمجھتے تھے، انہوں نے پارلیمانی جمہوریت کے حق میں رائے دی تھی اور وہ اسے اسلامی معاشرے کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ اخوان اپنے تجربہ سے یہ سیکھ چکی تھی کہ کسی بھی نوعیت کی خفیہ تحریک یا انقلاب کا حصہ نہیں بننا۔ یوں متشدد سوچ رکھنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جاتی ، وہ جلد یہ پلیٹ فارم چھوڑجانے پر مجبور ہوجاتے۔ سادات کے قاتلوں کا بھی یہی معاملہ تھا۔تاہم اخوان کوخوفناک حکومتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ظلم وستم حسنی مبارک کے پورے دور میں بھی جاری رہا۔ اس دوران عمر تلمسانی کے بعد’’ حامد ابوالنصر‘‘ مرشد عام بنے ، وہ چھیاسی سے چھیانوے تک سربراہ رہے، ان کے بعد یہ ذمہ داری ’’مصطفی مشہور‘‘ کوملی،وہ چھیانوے سے دو ہزار دو تک مرشد عام رہے۔دو سال کے لئے مامون الہدیبی مرشد عام بنے، ان کی وفات کے بعد دو ہزار چار سے دو ہزار دس تک مہدی عاکف مرشد عام رہے، بیماری کے باعث وہ الگ ہوئے تو پھر ڈاکٹر محمد البدیع(موجودہ مرشدعام) نے قیادت سنبھال لی۔ دو ہزار گیارہ میں عرب سپرنگ کی لہر نے حسنی مبارک کو الگ ہونے پر مجبور کر دیا تو مصر کی تاریخ کے پہلے آزادانہ انتخابات کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے پہلے حسنی مبارک کے دور میں اخوان نے پارلیمنٹ کی ایک تہائی نشستیں جیت رکھی تھیں۔ حسنی مبارک کی حکمران جماعت ٹوٹ پھوٹ گئی، فطری طور پر اخوان المسلمین سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری تھی۔ مصر کا پیچیدہ انتخابی نظام ہے، وہاں صدارتی نظام ہے مگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پارلیمنٹ بھی منتخب ہوتی ہے۔ اخوان المسلمین کی قیادت نے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لینا، جبکہ پارلیمنٹ میں بھی صرف نصف نشستوں پر امیدوارکھڑے کئے جائیں گے۔ مقصد یہ تھا کہ ملک کے دیگر سیاسی گروپوں اور جماعتوں کو خوفزدہ نہ کیا جائے۔ وہ یہ نہ سوچیں کہ اخوان المسلمین مصری سیاست پرچھا گئی ہے اور اب دوسروں کے لئے گنجائش نہیں بچے گی۔ اس فیصلے پر بعد میں عمل نہ ہوسکا۔ صدارتی امیدوار کے طور پر ڈاکٹر مرسی نے حصہ لیا اور وہ مصر کے پہلے منتخب صدر بنے جبکہ پارلیمنٹ میں بھی اخوان نے اکثریت حاصل کر لی۔ یہ کیسے ہوا، ایسا اگر نہ ہوتا تو کیا مصر کی سیاست مختلف ہوتی ؟ڈاکٹر مرسی اگر مستعفی ہوجاتے تب کیا ہوتا؟ اخوان المسلمین جس تباہی اور نقصان سے دوچار ہوئی، اس میں ان کا قصور کتنا اوربے رحم دشمنوں کا کتنا ہاتھ تھا؟ اس سب پر اگلی نشست میں ان شااللہ بات ہوگی۔