گزشتہ کالم ’’بے سمت عورتوں کا مارچ‘‘ فیس بک پر پوسٹ کی تو اس پر ہماری ایک شاعرہ اور کالم نگار دوست نے اپنے دل کی بھڑاس یوں نکالی کہ کمنٹ میں پورا ایک مضمون لکھ ڈالا۔ اختلافی نقطہ نظر سے میں ہمیشہ لطف اندوز ہوتی ہوں کیونکہ اس سے کسی بھی ایشو کے کئی زاویے سامنے آتے ہیں اور بات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ میں اپنے آدھے سچ پر یقین نہیں رکھتی بلکہ دوسروں کا آدھا سچ بھی سننے کا حوصلہ رکھتی ہوں اس لئے کہ جب آپ اپنی سوچ کے دروازے کھلے نہیں رکھیں گے آپ کے اندر کی چیزیں بھی زنگ آلود ہونے لگتیں ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ فیس بک پر آنے والے کمنٹس کے جواب در جواب دینے کا میرا مزاج نہیں اور نہ ہی اتنا وقت۔ ہاں لوگ جو کہنا چاہتے ہیں وہ ضرور کہیں اگر مجھے کچھ کہنا ہوا تو میں اپنی تحریر میں لکھ دوں گی چونکہ میں فیس بک پرسن نہیں ہوں کہ ہمہ وقت اس پر ٹائپنگ کرتی رہوں۔ اس لئے سوچا کہ کچھ چیزیں جو وہاں کمنٹس میں وضاحت طلب ہیں ان پر اس کالم میں بات کی جائے۔ چونکہ میں گزشتہ کالم میں عورت میں مارچ‘ قابل اعتراض پلے کارڈز اور اس کے پیچھے موجود ذہنیت پر اپنا تنقیدی نقطہ نظر پیش کیا تھا تو کچھ فیمنسٹ دوستوں کو اس سے تکلیف پہنچی۔ فیمنسٹ ہونے کا سب سے بڑا ڈرا بیک یہی ہے کہ آپ فیمنیزم کی عینک سے پورے معاشرے کو پرکھتے اور جانچتے ہیں اور اگر آپ خوش قسمتی سے فیمنسٹ نہیں ہیں تو یہ فیمنسٹ عورتیں سمجھتی ہیں کہ آپ مردوں کے موقف کے حامی ہیں۔ اس لئے کچھ خواتین نے اسی حوالے سے اس پر تبصرہ کیا۔ مثلاً ایک خاتون نے لکھا کہ ’’مردوں کی گفتگو بھی کبھی ملاحظہ فرمائیں وہ ان سب سائن بورڈ سمیت لکھنے والی خواتین پر کیا تبصرے کرتے ہیں کہ کون کس سے لکھواتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ! ایک خاتون لکھتی ہیں کہ ’’عورت کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ عورت ہی اکثر مقامات پر عورت کا ساتھ تک نہیں دیتی‘‘ ایک خاتون کا تبصرہ کچھ یوں تھا کہ مارچ کرنے والی خواتین کے خلاف بہت بڑا پروپیگنڈا ہوا ہے۔ ان کی تصویروں کو ایڈٹ کر کے ان پر قابل اعتراض اور فحش جملے لکھ دیے گئے ہیں ان بیچاری خواتین کو تو اندازہ ہی نہیں ہو گا کہ عورت مارچ میں شرکت کرنا ان کو کس قدر مہنگا پڑا ہے۔ پھر ثبوت کے طور پر انہوں نے ایک ایسی تصویر بھی شیئر کی جس کو واقعتاً ایڈٹ کیا گیا تھا۔ چلئے مان لیجیے کہ کہیں کوئی تصویریں ایڈٹ ہوئیں لیکن اللہ جانتا ہے ایسی ایڈٹ شدہ تصویریں میری نظر سے نہیں گزری تھیں۔ پورا سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے عورت مارچ کی اوریجنل تصویروں سے اور اب تو ان کے قابل اعتراض نعروں کے جواب میں بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ آج ہی ایک پوسٹ دیکھی کہ کراچی کے کچھ نوجوانوں نے پلے کارڈاٹھائے ہیں جن میں ان نعروں کے جواب دیے گئے۔! میرا جواب یہ ہے کہ آپ کو ایک ایڈٹ شدہ تصویر تو دکھائی دی اور آپ اس ’’بیچاری خاتون‘‘ کے لئے پریشان ہیں کہ اس کے خلاف سازش ہو گئی ہے۔ لیکن آپ کی فیمنیزم کی عینک اس مارچ میں ڈسپلے کئے گئے ان قابل اعتراض نعروں کو دیکھتے ہوئے دھندلا جاتی ہے جس پر معاشرے کا ایک بڑا طبقہ احتجاج کر رہا ہے۔اور اس عورت مارچ سے جس میں کسی عورت کے کسی بھی بنیادی حق پر آواز نہیں اٹھائی گئی، سوائے جنسی آزادی کے۔ اس سے ہمارے سماج کے خلاف کیا سازش ہوئی ہے اس پر آپ کی فیمنسٹ سوچ آپ کو آزادانہ سوچنے کی آزادی نہیں دیتی۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے اور ان تمام فیمنسٹ عورتوں سے بھی جو یہ سمجھتی ہیں کہ اس سماج میں گھر بسانے والی ہر عورت مرد کی محکومیت کا شکار ہے۔ میں نہ مبلغ ہوں‘ نہ مصلح اپنی ذات کے جنگل کا جھاڑ جھنکار صاف کرنے سے ہی فرصت نہیں کہ دوسروں کو نصیحت کرتی پھروں۔ میں ایک سیدھی سادھی لکھاری ہوں۔ الحمد للہ پروفیشنل صحافی ہوں کسی کی بیساکھی استعمال کر کے صحافت اور کالم نگاری میں نہیں آئی۔ جہاں تک آپ کا یہ کہنا ہے کہ مردوں کی گفتگو بھی ملاحظہ کریں کہ لکھاری خواتین پر کیا تبصرے کرتے ہیں کہ کون کس سے لکھواتی ہے۔ الحمد للہ مجھے اپنے پورے کیریئر میں ایسے کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا یقینا آپ اس سے گزری ہوں گی تو ہی آپ نے ایسا لکھا ۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ کیونکہ میں آپ کو اچھی لکھاری اور اچھی شاعرہ سمجھتی ہوں۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ معاشرے میں یہ خباثتیں موجود ہیں ‘بالکل ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے سماج میں مرد کی نسبت عورت کی جدوجہد کا راستہ کہیں زیادہ غیر محفوظ اور پتھریلا ہے۔ مرد کی کہانی سے عورت کی کہانی اتنی ہی مختلف ہے جتنی اس شعر میں بیان کی گئی کہ ؎ تری کہانی مری کہانی سے مختلف ہے کہ جیسے آنکھوں کا پانی۔ پانی سے مختلف ہے مجھ پر روایتی فیمنسٹ ہونے کا ٹیگ نہیں لگا ہوا اور میں عورت مرد دونوں کو انسان سمجھتی ہوں۔ دونوں کی معاشی آزادی اور حقوق کی برابری پر مکمل یقین رکھتی ہوں۔ معاشرے میں پسی ہوئی‘ مظلوم ہستی‘ ذلت جھیلتی‘ ہر عورت کے ساتھ کھڑی ہوں اور ایسے نعرے اور آواز کو سپورٹ کرتی ہوں جو میرے وطن کی کمزور پسی ہوئی عورت کو اس کا جائز حق دلوانے کے لئے اٹھے۔ آپ مجھے غیر روایتی فیمنسٹ کہہ سکتے ہیں جو مردوں سے تعصب کے بغیر عورتوں کے حقوق کی بات کرے۔ آخیر میں مغرب سے درآمد شدہ ایک تبصرہ جو ویمن مارچ کے حوالے سے ایک امریکی کالم میں چھپا! "Woman's march are a clever progressive divide and conquer strategy that not only turns women against men' bad also turns women against each other in the guise of peace and solidarity' it is a brilliant tactic to employ media propaganda to make privileged women feel oppressed and then programme them to think that vulgarity' exhibtionism and emasculation is empowering''