کراچی( کامرس رپورٹر )پاکستان میں غیرسودی اسلامی بینکاری کے نام زیادہ شرح سود لی جارہی ہے اور سودی بینکاری کا نظام غیرسودی اسلامی بینکاری نظام کے نام پر زیادہ استحصال کے ساتھ نافذ ہے ۔غیرسودی اسلامی بینکاری کا نظام عملاً نافذ کیا جاسکتاہے َ،لیکن روایتی بینکاری کے فتویٰ فروش علماء کے اشتراک سے جو بینکاری نظام پاکستان میں غیرسودی اسلامی بینکاری کے نام پر رائج ہے ،وہ سودی بینکاری اور مغربی پاکستان میں رائج بینکاری نظام سے بھی زیادہ استحصالی اور مکروہ ہے جس میں کریڈٹ کارڈ رکھنے والے سے 60 فیصد سالانہ اور مکان کے لیے قرضہ لینے والے سے 20 فیصد سالانہ سود لیا جارہاہے جبکہ ملائیشیائمیں6فیصد اور مغربی ممالک میں4فیصد سالانہ سود لیا جارہاہے ۔ان خیالات کا اظہار بینکاری قوانین کے وکیل سالم سلام انصاری ایڈوکیٹ سپریم کورٹ نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیرانتظام جناح آڈیٹوریم سٹی کورٹس کراچی میں بینکاری قوانین کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کیا جس میں وکلائاور قانون کے طلبائو طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔سالم سلام انصاری ایڈوکیٹ سپریم کورٹ نے لیکچر کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مالیاتی اداروں کے قرضوں کی وصولیابی قانون 2001ئمیں ترمیمی ایکٹ2016ئارادتاً ناہندگی کی جس شق کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس اضافے و ترمیم کے بعد قومی احتساب آرڈیننس 1999ئ(نیب آرڈیننس1999ئ) میں ارادتاً ناہندگی کی شق اور اختیار سماعت عملاً ختم ہوگئی ہے ۔ اور قانونی طور پر غیرموثر ہوگئی ہے ۔جبکہ سپریم کورٹ کے رپورٹ شدہ فیصلے 2017 SCMR 218(سید مشاہد شاہ بنام ایف آئی اے ) نے اس طرح کی قانون سازی کو مطابقت کے اصول اور کم سزا کی وجہ سے نیب آرڈینس 1999ئتحت سماعت کو ناقابل اطلاق ،خلاف تجاوز اختیار سماعت قرار دیا ہے ۔ سالم سلام انصاری ایڈوکیٹ نے مزید کہاکہ مالیاتی اداروں کے از خود عدالتوں میں جائے بغیر رہن شدہ جائیدادوں کی نیلامی کی دفعہ15کو سیف ٹیکسٹائل کے رپورٹ شدہ فیصلے پی ایل ڈی2014سپریم کورٹ صفحہ283میں غیرآئینی اور آئین کی بنیادی حقوق کی شقوں کے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دیا تھا ،جبکہ2016ئمیں اسی دفعہ15 کو مزید سخت بناکر ترمیمی ایکٹ2016 کے ذریعے نافذ کرنا غیرآئینی اور غیرقانونی ہے ۔سوالات وجوابات کے دوران شرکائلیکچر کے سوالات کاجواب دیتے ہوئے سالم سلام انصاری ایڈوکیٹ نے بینکاری قوانین کی تاریخ پر روشنی ڈالی اوربینکاری قرضوں کی وصولیابی کے آرڈیننس 2001ئکا شق وار جواب دیتے ہوئے بینکنگ محتسب کے قانون اور بینکنگ جرائم کے آرڈیننس1984ئکا تقابلی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ18ویں آئینی ترمیم2010ئکے بعد آئین میں شفاف ٹرائل کے بنیادی حق کی ضمانت آرٹیکل 10-Aکے ذریعے دینے کے بعد وصولیابی قرضوں کے آرڈیننس مجریہ2001ئمیں مقدمہ کا دفاع کرنے کی اجازت لینے کی دفعہ10غیرموثر ہوگئی ہے ۔سالم سلام انصاری ایڈوکیٹ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجموعہ ضابطہ دیوانی1908ئکو ختم کرنے اور نیاضابطہ لانے کی کو شش کی گئی تو ایسی کوشش دیوانی مقدمات میں مزید مشکلات حائل کردے گی۔صرف موجودہ ضابطہ دیوانی میں بینکاری قوانین کی طرز پر تعمیل سمن ، شہادتوں کی ریکارڈنگ اور مقدمہ اپیل کی مدت مقرر کرنے کی فعال ترامیم کے ذریعے دیوانی مقدمات کو جلدازجلد نمٹایا جائے ۔