لاکھ دشمن سہی وہ دوست نما‘ آ جائے گل تو بے بس ہے اگر باد صبا آ جائے دیکھ اے دل وہ چلے آتے ہیں اپنی جانب اب ترا ضبط نہ ٹوٹے تو مزہ آ جائے برسات میں بھادروں کی پکھ لگ گئی ہے یعنی وہ گھٹن اور چپ چپ آغاز ہو چکی ہے ہوا رکتی ہے اور بندہ پسینے میں شرابور ہو جاتا ہے۔ ہر موسم میں اللہ کی حکمتیں پنہاں ہیں اسی موسم میں تو پھلوں میں رس پڑتا ہے۔ عید کے دن گزر چکے مگر ابھی گوشت خوری جاری ہے اگرچہ لاک ڈائون تقریباً ختم ہو چکا کاروبار کھل گئے اور پارک وغیرہ بھی مگر اب ہم عادتاً گھر میں رہتے ہیں یعنی ایسے مانوس صیاد سے ہو چکے اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے۔ صیاد سے مراد بیگم ہرگز نہیں یونہی بہادر شاہ ظفر کی غزل کا مصرح زبان پر آ گیا۔ کچھ کچھ ہم سوشل میڈیا کے عادی بھی ہو گئے۔ خاص طور پر شاعری تو ہمارا مسئلہ ہے کوشش میری یہ ہوتی ہے کہ غلط شعر کی نشاندہی کر کے درست کر دیا جائے کہ آج کل انٹرنیٹ نے اچھے خاصے شعروں کا حشر نشر کر رکھا ہے۔ ایک شعر نخت زہرا نے میر سے منسوب کر کے لگایا تومیں چونکا کہ وہ شعر میر کا نہیں امیر کا تھا یعنی امیرمینائی کا جن کا مشہور شعر ہے۔ وصل کا دن اور اتنا مختصر۔دن گنے جاتے تھے جس دن کے لئے۔ اب وہ شعر بھی دیکھ لیں: وہ تجھے بھول گیا تجھ پہ بھی لازم ہے امیر خاک ڈال آگ لگا نام نہ لے یاد نہ کر اس نہایت دلگداز شعر سے مجھے فیض صاحب کا شعر نہ جانے کیوں یاد آ گیا: بربادی دل جبر نہیں فیض کسی کا وہ دشمن جاں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے یہ کام کوئی آسان بھی تو نہیں کہ بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں۔یہ حسرت ہیں چلیے دوسرا مصرع بھی پڑھ لیں ،الٰہی ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں۔ ویسے اس تکلیف کی ضرورت کیا ہے۔ یاد آتا ہے تو آنے دو یہی بہتر ہے۔ پھر کہو گے کہ بھلانے کی ضرورت کیا تھی۔معزز قارئین ! میں کیاکروں شعر میرے ذہن میں ایسے جڑتے چلے آتے ہیں جیسے بادل جڑتے ہیں اور گھٹا بن جاتی ہے طفیل ہوشیار پوری یاد آ گئے: جب کبھی تجھ کو بھولنا چاہا انتقاماً تمہاری یاد آئی خیر یاد وہ تجھ کو کرے جس نے بھلایا ہو تجھے بعض مرتبہ اشعار ٹھیک ہوتے ہیں تو املا کی غلطی سامنے آ جاتی ہے جس سے بہت کوفت ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ مشتاق احمد یوسفی نے شیزان ہوٹل میں ایک مضمون پڑھا تھا اس کا ابتدائی جملہ ذہن پر نقش ہو گیا۔ جب بھی کوئی تخلیق کار اپنی تخلیق پیش کرتا ہے تو دو طرح کے نقصانات ہوتے ہیں۔ املا کی غلطی کے ساتھ ساتھ تلفظ کی غلطی بھی شامل ہو جاتی ہے دوسرا یہ کہ تخلیق کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تخلیق کار سے بھی نفرت ہو جاتی ہے مجھے شوکت شریف جو کہ دانش مندی کے جملے پوسٹ کرتے رہتے ہیں کہنے لگے کہ آپ اچھا کرتے ہیں کہ شاگردوں کے شعر یا جملے اصلاح کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا بالکل غلط۔ شاگردوں کے جملے تو ان کے اساتذہ ٹھیک کرتے ہیں۔ میں تو خود طفل مکتب ہوں۔ میں جس طرح ٹھیک سمجھتا ہوں بغیر تخصیص کے بتا دیتا ہوں کبھی کبھی تو میرے شعر بھی ستم ظریفوں کی زد میں آ جاتے یں۔ ان میں سے ایک تھا: تمہارے ساتھ رہنا ہے مگر ایسے نہیں رہنا تمہیں گر کچھ نہیں سننا ہمیں بھی کچھ نہیں کہنا اب تمہیں کو تجھے کوئی لکھے تو غلط ہو جائے گا۔ عام شخص کو تو علم نہیں ہو گا مگر صاحبان علم شاعر پر برسیں گے کہ اسے شتر گربہ کا علم نہیں۔یہ تو آپ جانتے ہیں کہ شتر اونٹ اور گربہ بلی کو کہتے یں کہ اونٹ اور بلی کو ملا دیا جائے۔ وہی کہ جیسے کسی نے اونٹ کے گلے میں بلی لٹکا دی تھی۔ وہ کہانی کسی اور سے سن لیں ویسے گھوڑے گدھے اکٹھے کرنا بھی اسی قسم کی بات ہے۔ بات یہ ہے کہ شعر کو سمجھنے کے لئے عقل بھی چاہیے اور دل بھی اور ساتھ ساتھ علم بھی وگرنہ آپ بھی اس کاروباری سیٹھ کی طرح کر سکتے ہیں جس نے کہ فیض صاحب پر فریفتہ ہوتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ فیض صاحب نے حیرت کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ قبلہ اپنے آپ کو چھپائیں مت۔آپ ہی نے تو کہا ہوا ہے: گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے مجھے یاد آیا کہ سوشل میڈیا پر بعض اوقات کوئی ایسا شعر بھی سامنے آ جاتا ہے جسے آپ مدتوں سے ڈھونڈ رہے تھے۔ ایسے میں یک دم آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک شعر نظیر اکبر آبادی کا نظر پڑا تو فلیش بیک کے تحت احمد ندیم قاسمی کی محفل یاد آ گئی کہ چائے پیتے ہوئے وہ فرمانے لگے شاہ صاحب ذرا نظیر اکبر آبادی کا شعر دیکھیے کیسے کیسے شعر اس عوامی شاعر نے کہے: ملو جو ہم سے تو مل لو کہ ہم بہ نوگ گیاہ مثال قطرہ شبنم رہے رہے نہ رہے اور آج کتنے برسوں بعد اس غزل کا ایک اور شعر پڑھا: رہیں وہ شخص جو بزم جہاں کی رونق ہیں ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے ایک اور شعر جو میر کی مشہور غزل کا تھا جو محو ہو گیا تھا۔ بار دگر پڑھا تو بہت لطف آیا: میں جو بولا کہا کہ یہ آواز اسی خانہ خراب کی سی ہے چلیے پیارے قارئین!کافی ہو گیا لکھنے کو تو میں لکھتا جائوں گا اور اشعار آپ کو پڑھاتا جائوں گا امید ہے آپ کو پسند آیا ہو گا کہ آپ کو سوشل میڈیا کی سیر کروا دی۔ آخر میں خالد علیم کی غزل کے تین اشعار: ہزار دائو جو پیران وقت نے کھیلا تو اس پہ چاہیے رنگ سخن بھی البیلا ضرور پھر نئے کرتب دکھائے جائیں گے لگا لیا نئے بازی گروں نے پھر میلا لگان موج شکم تک بھی آ گیا آخر دکا ن بڑھائیے صاحب لگائیے ٹھیلا