کراچی(سٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پاکستان میں کتنے قطریوں کو زمین دی گئی،ملک چلانے کیلئے کتنے قطری پیدا ہو نگے ، قطری نے پاکستان کیلئے کیا خدمات دیں جو زمین الاٹ کی گئی،ملک کس حال پر پہنچ گیا ،بکائو لوگوں کو ہمارے سامنے نہ لائیں، رپورٹ چیئرمین نیب سے مانگی، پیش تفتیشی افسر کررہا ہے ۔غیر قانونی الاٹمنٹس پر نیب بھی جھوٹی رپورٹ دے رہا ہے ،کیاچیئرمین نیب بھی ملے ہوئے ہیں۔عدالت نے الہ دین سے متصل عمارت کی تعمیر سے متعلق نیب رپورٹ مسترد کردی اور 2 ہفتوں میں نئی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ جمعہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے الہ دین سے متصل عمارت کی تعمیر کیخلاف درخواست کی سماعت کی۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ عمارت کی الاٹمنٹ ہماری فیصلے کیخلاف ہے اس کا مطلب ہے نیب بھی ان سے ملا ہوا ہے ۔تفتیشی افسر نیب رمیش کمار نے رپورٹ پیش کی توعدالت نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو جھاڑ پلا دی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا نیب والے بھی ان سے مل گئے غیر قانونی الاٹمنٹ پر نیب بھی جھوٹی رپورٹ دے رہا ہے ، تفتیشی افسر کو ابھی جیل بھیج دیتے ہیں، چیئرمین نیب کیا کررہے ہیں، کیا آپ بھی ان سے مل گئے ۔ ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بجائے سرسری رپورٹ دیدی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ایک قطری کو محکمہ ایویکیو کی زمین کس کھاتے میں دی؟ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سی بریز عمارت کو خطرناک قرار دینے سے متعلق دائر درخواست پرنیسپاک، پاکستان انجینئرنگ کونسل اور ایس بی سی اے کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے عمارت کا معائنہ کرکے 2 ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ نے رپورٹ پیش کی جس میں بتایا کہ اتھارٹی نے اپنا پینل تشکیل د یدیا ہے ،اپنے انجینئر معائنہ کر ینگے ۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کہ نیسپاک بتائے عمارت خطرناک ہے یا نہیں، نیسپاک کا عمارت کا معائنہ کرنے کا کیا طریقہ ہے ، پاکستان انجینئرنگ کونسل کیا معاونت کر سکتا ہے ۔ عدالت نے اطمینان بخش رپورٹ نہ دینے پر کنٹونمنٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ عمارت بنانے کی اجازت کس نے دی، تفصیلات کہاں ہیں جب تک رپورٹ نہ آئے عمارت کو کمشنر کے قبضے میں دے دیتے ہیں، کراچی کنٹونمنٹ کے پاس اپنی عمارتوں کا معائنہ کرنے کا نظام کیوں نہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ حتمی طور پر بتایا جائے کہ عمارت خطرناک ہے یا نہیں۔ دریں اثناء سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے سرکلرریلوے سے متعلق کیس میں وفاقی سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری منصوبہ بندی کو طلب کرلیا اور اٹارنی جنرل کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت کی۔ جمعہ کو سندھ حکومت نے سرکلر ریلوے سے متعلق اپنی رپورٹ سے آگاہ کیا اور وفاق سے فنڈز کی عدم فراہمی کا معاملہ اٹھایا۔ دوسری جانب شہر کی اصل حالت میں بحالی سے متعلق محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے افسران نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد پر مشتمل 3 رکنی بیچ کے روبرو رپورٹ جمع کرادی۔ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے افسران نے بریفنگ دی۔ جسٹس مشیرعالم اورجسٹس منیب اخترپرمشتمل 2 رکنی بینچ نے کے الیکڑک اورشہری حکومت کے مابین بجلی کے بلوں کی ادائیگی کا تنازع2 ہفتوں میں حتمی طے کرنیکا حکم دیدیا۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بہترہے سندھ حکومت اورفریقین خود فیصلہ کرلیں اگرفریقین فیصلہ نہ کرپائے تو عدالت خود معائنہ کرکے فیصلہ جاری کردیگی،جسٹس مشیرعالم نے کہااگرسندھ حکومت نہیں چل سکتی توچھوڑدیں۔