وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کے لئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس میں چاروں صوبوں کے سینئر پارٹی رہنما شامل ہونگے۔ دوسری جانب جے یو آئی سربراہ نے وزیر اعظم کے استعفے تک حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اپوزیشن کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت کے خلاف احتجاج کا پورا حق حاصل ہے ،مگر جب حکومت کی مخالفت کا مقصد اصلاح کی بجائے ریاست کو نقصان پہنچانے‘ آئین اور اس کے تحت قائم سسٹم کو سبوتاژ کرنے کا ہو، تو ایسی تخریبی سیاست کی اجازت دی جانی چاہیے نہ ہی اس کی گنجائش موجود ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن عام الیکشن میں اپنی شکست کا بدلہ پورے جمہوری نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر لینے پر تُلے ہوئے ہیں۔جب تحریک انصاف نے2014ء میں دھرنا دیا تھا تب حزب اقتدار مسلم لیگ(ن) نے عوامی تحریک اور تحریک انصاف سے مذاکرات کے لئے کابینہ کی پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس کمیٹی میں جے یو آئی کی طرف سے سابق وزیر اعلیٰ خیبر پی کے اکرم درانی بھی شامل تھے۔ آج مولانا فضل الرحمن کس منہ سے حکومت سے مذاکرات کا انکارکر رہے ہیں۔2018ء کے ایکشن میں اپنی شکست پر مولانا نے اپوزیشن کی اے پی سی میں اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف نہ اٹھانے کا اعلان کیا تھا لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے تیور دیکھ کر پھر اسمبلیوں کا رخ کر لیا۔ اب ایک برس سے ان کی جماعت کے ممبران قومی اسمبلی ‘ سینٹ اور خیبر پی کے اسمبلی سے تنخواہیں اور مراعات لے رہی ہے،انھوں نے کبھی بھی سرکاری خزانے سے مراعات لینے سے انکار نہیں کیا ، لیکن اب وہ اچانک افراتفری پھیلا کر احتسابی عمل روکنے پر تُلے ہوئے ہیں۔در اصل مولانا ایسا ماحول بنا کر اپنے پرانے اتحادیوں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو ریلیف دلانے کی کوششوں میں ہیں ِلیکن وزیر اعظم عمران خان انھیں ایسا کوئی بھی ریلیف دیتے نظر نہیں آرہے۔چار روز قبل مولانا فضل الرحمن نے پشاور میں انصار الاسلام کے کارکنان سے کھلے گرائونڈ میں سلامی لی ۔ جس میں انھوں نے کھل کر اپنے عسکری مقاصد کا بھی مظاہرہ کیا ہے ۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر ایسا کام کوئی دوسری جماعت کرے تو وہ شدت پسند اگر مولانا فضل الرحمن کریں تو وہ امن پسند ؟ نوکدار لوہے کی تاروں سے ڈنڈوں کو مزین کرنا بادی النظر میں اپنے کارکنان کو تشدد پر اکسانا ہے۔ گو جے یو آئی کے اس اقدام سے نہ تو وزیر اعظم کا استعفیٰ آئے گا نہ ہی حکومت کا بال بیکا ہو گا مگر ان کی اس اشتعال انگیزی ‘ افراتفری اور انتشار کی فضا سے کاروبار تباہ ہو گااور عام شہریوں کا جینا دوبھر ہو جائے گا۔ قومی معیشت جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ مولانا فضل الرحمن کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام میں عام کارکنان رجسٹرڈ نہیں، بلکہ اس کے ممبران وہ کارکنان ہیں جنہوں نے روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران باقاعدہ عسکری تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ ایسے موقعوں پر کالعدم عسکری تنظیموں کے سلیپ سیل بھی اپنے مذموم مقاصد کی آبیاری کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لئے حکومت ان تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر سکیورٹی کے انتظام کرے‘ ہماری پولیس جو نہتے احتجاجیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی وہ عسکری تربیت کے حامل ان جتھہ بند گروپوں کو کیسے کنٹرول کر سکے گی؟ تخریبی ایجنڈے کے آگے بند باندھنے کی ذمہ داری ریاستی اتھارٹی پر ہی عائد ہوتی ہے اور مولانا فضل الرحمن کا مطمعِ نظر بھی ریاستی اتھارٹی کے ساتھ تصادم کی فضا بنانا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا کسی کی شہ پر ہی تخریبی سیاست کے ایجنڈے کو لاگو کرنا چاہتے ہیں۔جبکہ ماضی میں یہی مولانا جمہوریت کی گردان کرتے تھکتے نہیں تھے۔ وہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ریاست اور آئین سے بغاوت کتنا بڑا جرم ہے۔ ماضی میں صوفی محمد امیر کالعدم تحریک نفاذِ شریعت محمدی اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جب عسکری جدوجہد شروع کی تو مولانا انہیں استعمارکاپرورُدہ قرار دیتے تھے لیکن اب وہ خود اُسی راہ پر چل نکلے ہیں۔ اس سے بڑھ کر خود غرضی اور نہیں ہو سکتی۔ ورنہ مولانا اسی سسٹم میں رہتے ہوئے مختلف جمہوری طریقوں سے سسٹم کی اصلاح کی کوشش کرتے نظر آئے۔ مسلح جتھوں کو اکٹھا کرنا آسان لیکن انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں اگر کسی سفارت خانے کو نقصان پہنچا تو عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص پر کتنا بڑا دھبہ لگے۔ خود مولانا اپنی ذات پر مذہبی تشدد اور عسکریت پسندی کے لگے داغ کو برسوں دھو نہیں پائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے مطالبات کو حرف آخر بنانے کی سوچ کو ترک کر کے مفاہمت کا راستہ اپنائیں۔ تخریبی اور پرتشدد سیاست سے کنارہ کشی کریں۔ حکومت بھی آئین اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے مولانا کے جائز مطالبات کو تسلیم کر ے۔ سیاسی قوتیں حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ مولانا فضل الرحمن بھی میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی پالیسیوں پر چلنے کی بجائے استحکامِ جمہوریت کے لئے کام کریں۔ خدانخواستہ اگر ایسے ہی یہ ڈیڈ لاک برقرار رہا تو جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، جس کے ازالے کے لئے جمہوری قوتوں کو برسوں جدوجہد کرنا پڑے گی۔ اس لئے مولانا فضل الرحمن حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ بیٹھ کر درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کریںتاکہ جمہوری سسٹم بہتر انداز میں چلتا رہے ۔