کفر اور کفر کے خاموش حاشیہ نشین اپنی ذلت کا سامان کر رہے ہیں عالم کفر میں ایک ہیجان ہے۔ منافق اپنی سرگرمیوں میں مگن اہل حق پر پوری طرح سے حملہ آور ہو گئے ہیں۔ نتیجہ تو بالآخر برآمد ہو گا۔ تاریخ کے روشن باب کھل جائیں گے اور حق و باطل کا معرکہ اپنے سرنامہ حسینیت کے نام پر زندہ رہے گا۔ کتنے ہی گمراہ کن موضوعات نے عصر حاضر میں مومن کو حصار میں لے رکھا ہے۔ کچھ موضوعات کو منافقین نے اچکا اور اپنی دین بیزار ذہنیت کا سہارا دے کر تہذیب بندی کا واویلا بلند کیا ہے۔ پاکستان تو بہرحال پاکستان ہے اگرچہ یہ خطہ زمین ایک سلطنت کا جغرافیائی وجود ہے۔ یہاں اہتمام حکومت و ریاست سیاست و تمدن کا چرچا ہے۔ لیکن دلوں میں آباد پاکستان زمان و مکان کی وسعتوں پر حاوی ہے۔ پاکستان دنیا کے ہر خطے میں ابھر رہا ہے۔یورپ اپنی خام ذہنی پر سٹپٹا رہا ہے۔ یورپ کے متلاشیان حق دائرہ اسلام میں امان پا رہے ہیں۔ کلمہ حق لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کا غلبہ اور تمکین تو فطرت کائنات کا وہ جوہر لازوال ہے جسے کوئی صاحب دانش روحانی جھٹلا نہیں سکتا۔نمرودیت اور فرعونیت کا عفریت بالآخر رسوا سامانی کے ساتھ ہوا میں بکھر جائے گا۔ کفر اپنی ہٹ دھرمی اور انانیت کی خام قوت پر نازاں قدم بڑھا رہا ہے۔ صدائے حق کو قلب کی سماعت سے قبول کرنے والے اہل حق بھی سرگرم بندگی ہیں۔ حقیقت کے علم کی سربلندی کے لئے اہل ایمان اب باطن کی سرمدی قوتوں کو جذبہ مصطفائی کے نور کو صیقل کر رہے ہیں۔ اس لئے کہ وہ خدائی نظام تکوین کا جزو صالح ہیں۔ وہ چھپی ابلیسیت پر ضرب یدللھی کا پرانا تجربہ رکھتے ہیں۔ مایوسی کے جال ان کی ضرب سے یوں شکستہ ہوتے ہیں گویا مرا ہوا سانپ اپنے وجود کو ہوائی ذرات کی شکل دے رہا ہے۔ کتاب ہدایت نے برملا قانون عزیمت بیان کر دیا کہ’’تم مایوس نہ ہوا کرو کیونکہ مایوسی کو کفر نشان ہے اور بے ہمت کیفیت کا نام ہے‘‘ حکومت ہو یا عوامی مزدور کا رندگانِ ریاست ‘حلقہ شیخ ہو یا بزم خطیب ‘ریا کار سخی ہو یا ناموری کا خواہشمند کوئی بھی بزر جمہر ‘ یہ سب بے چارے اپنی ذات کے پجاری ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کا بے جا استعمال کر کے نشۂ خداوندی میں مبتلا ہوا چاہتے ہیں۔ فطرت کی تعزیر تو بہرحال نافذ ہو گی۔ عالم کفر کی یلغار کی مزاحمتی سد سکندری تو روح کی جولان گاہ سے برآمد ہو گی۔ منافق اور منافقت کارسیا ہر فرد یزیدیت کی صف میں اپنا مقام بنا چکا ہے لیکن بقائے حق کے لئے حسینیت کا پرچم کھلا ہے۔ حسینیت ہر دور میں منافقت اور جبری بادشاہت کو للکارتی ہے۔ یزیدیت ہر دور میں یہود و نصاریٰ کے ظلّ حمایت میں پرورش پاتی ہے۔ جاہ و منصب کے پجاری لباسِ تقویٰ میں اپنی ذات کی منافقانہ سڑاند کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں یوں یہ وقت کو گزارنے کی ناکام عملی کوشش ہے۔ پاکستان سے بیرونی دنیا میں بغض و عناد رکھنے والوں کی ایک منظم اور متحرک تعداد موجود ہے جن کو مستقل طور پر علانیہ چھتری امریکہ کے دانش وروں اور برسر اقتدار گروہ کی جانب سے مہیا کی جاتی ہے۔ پھر اس کے جلو میں ان یورپی ریاستوں کا مقتدر گروہ تھا جو یورپی یونین کے نام سے دنیا بھر میں اقوام متحدہ سے فسادات کا اجازت نامہ لے کر تباہی مچاتا ہے ان کے نزدیک مسلمان ایک جاہل اور اجڈ قوم ہے۔ ان اقوام کی پشت پناہی پردہ یہودی سرمایہ کار ہے جس کو اپنی دنیا و آخرت کی تجارت کا نفع مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں نظر آتا ہے۔ اسرائیل ان کی منظم ریاست ہے اس ریاست کی ذہنی سفارتکاری اور عمل تباہ کاری کے مظاہر دنیا ہی کے تمام ہنگاموں اور فسادات کے پشتیاں نظر آئیں گے۔ پاکستانی قدیمی اور ازلی دشمن بھارت بھی اسرائیل کا ہاتھ تھام کر پاکستان میں مذہبی افتراق اور صوبائی ثقافتی تقسیم کو فروغ دینے کے لئے اندرون پاکستان اپنے ایجنٹوں کی پیٹھ تھپتھپاتا ہے اور وہ عمل دہشت گردی کا گھنائونا جرم کرتے ہیں۔ ہماری مسلح افواج اندرونی محاذوں پر دشمن کے کھلونوں سے نبرد آزما ہے بیرونی عسکری محاذ پر بھارت نے ذلت کی جوگٹھری سر پر اٹھاتا ہے۔ وہ اس کے وجود پر ایک بدنما داغ اس کی مستقل ہزیمت کو قائم رکھے گا۔ اب اس دشمن نے منافقین پاکستان کی مدد سے بلوچستان میں فساد برپا کیا ہے‘ اس فساد سے پاکستانی عسکری انتظامیہ کو مشغول رکھنے کا حربہ استعمال کیا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کی سول انتظامیہ سیاسی حکومت کو مفلوج کرنے کا مذموم طریقہ بھی اپنایا ہے۔ اس فساد کی تیسری اہم چال پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کو جنم دیتا ہے۔ کوئٹہ کی سبزی منڈی میں ہزارہ قبیلے کو تاک کر نشانہ دہشت بنانا ایسے مشکوک رویے کو جنم دیتا ہے کہ مسالک میں ایک خفیہ دہشت بھری خانہ جنگی شروع ہو جائے۔ بھارت کے یہ ناپاک عزائم محض بلوچستان تک ہی محدود نہیں ہیں۔ سندھ کو سندھو دیش میں بدلنے کے خواب دیکھنے والے قصہ خواب بن چکے ہیں۔ جناح پور کی تمنائوں کا جنازہ بھی اپنے تابوت کی آخری کیل ٹھکوا چکا ہے۔ سندھ میں پاکستان سے علیحدگی کی تحریکیں ذہنی فکری اور عملی طور پر دم توڑ چکی ہیں۔سندھ صوفیاء کی محبتوں کی امین سرزمین ہے۔ زندہ خانقاہوں نے پاکستان کا علم اونچا رکھا ہے۔ جی ایم سید پاکستان سے نفرت کی ہر تحریک کو توانائی فراہم کرتے تھے لیکن صوفیائے سندھ نے حضرت قائد اعظم ؒ کو دین و یقین کی قوت سے ایسا راسخ العمل بنا دیا تھا کہ قائد اعظم نے مطالبہ پاکستان اور تحریک پاکستان کے لئے سب سے آسان خطہ صوفیا صالحین کی سرزمین سندھ ہی کو پایا تھا۔ سندھ اسمبلی نے مطالبہ پاکستان کی پر زور حمایت کی تھی سندھ ہی پاکستان کا دارالخلافہ قرار پایا تھا ۔ سندھ کے مسلمانوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے اپنے دل کے دروازے ایسے کھول دیے تھے کہ مواخات مدینہ کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ سندھ میں آنے والے مہاجرین کو سب سے زیادہ منظم اور معقول آسودگی میسر آتی تھی۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے کاروباری‘ مذہبی‘ علمی اور ہنر مند طبقوں نے اپنے لئے آسان زندگی خطہ سندھ ہی میں محسوس کی تھی نوزائیدہ پاکستان کے دیگر علاقے بھی نووارد مہاجرین کے لئے اپنے دیدہ دل فراش کئے ہوئے تھے۔ لیکن سندھ کی مذہبی قیادت جن کی صوفیانہ خو میں وسعت قدرے زیادہ پائی جاتی تھی۔ مہاجرین کو نئے پاکستان کی سیاسی قوت بنا کر اپنے ہاں جگہ دی تھی۔ اسی صوفیانہ خو کا ایک مظہریہ بھی تھا کہ پاکستان کے بہت سے علاقوں سے ہندوئوں نے نقل مکانی کی تھی لیکن سندھی خانقاہوں کا رویہ غیر مسلموں سے بھی نسبتاً نرم خوئی پر مبنی تھا۔ انہوں نے ہندوئوں کو ذمی سمجھ کر مشفقانہ پنا دی تھی۔