آج کے کالم کا آغاز جدید چین کے بانی ماوزے تنگ کے مشہور قول سے کرتے ہیں، جو کچھ اس طرح ہے کہ ’’سیاست خون خرابے کے بغیر کی جنگ ہے، جبکہ جنگ خون خرابے کے ساتھ کی سیاست ہے۔‘‘ کیا سیاسی حکمرانی واقعی جنگ کے مترادف ہوتی ہے؟ اس سوال کے جواب کی اس کالم میں کھوج کی کوشش کرے گے۔ مجھ ناسمجھ کے فہم میں سیاست طاقت کے حصول کے لیے انفرادی یا اجتماعی طور پر کاوش ہے۔اور اگر ملکی، صوبائی یا مقامی سطح کی پاکستان یا دوسرے ممالک کی سیاسیات پرعوامی ردعمل کا جائزہ لیا جائے، تو اکثر و بیشتر عام شہری سیاست دانوں پر تبرٰی بھیجتے ہوئے ملتے ہیں۔ اب یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاست دانوں کی زندگی قطعی آسان نہیں ہوتی ہے۔ انہیں طاقت سے جڑے رہنے کے لیے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اگر وہ انتخابی سیاست کا حصہ ہو، تو انہیں اپنے حلقہ انتخاب میں میل ملاپ اور ووٹروں کے کام کروانے کے لیے ایک وسیع و عریض تعلق داری اور حکومتی اثرورسوخ کا جال بننا پڑتا ہے۔ اب چاہے ملک میں فوجی یا سویلین آمریت یا جہموریت رائج ہو، ہر طرز کے دور حکومت میں سیاسی حکمرانی کے خواہشمند طبقات کو سخت مسابقتی ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکمرانی کی تکون میں ویسے ہی اوپر گنجائش کم ہوتی ہے، اس لیے ہمیں اقتدار کے متلاشیوں میں ایک جہد تسلسل کا رحجان نظر آتا ہے۔ جہاں ایک طرف سیاسی گروپوں کے مابین چپقلشوں کے مظاہرنظر آتے ہیں، وہاں حکمران اور اپوزیشن گروپوں میں اندورنی مسابقت بھی خوب زورں پر ہوتی ہے۔ اب سیاسی حکمرانی کی تکون کی بلندی پر پہنچنے کے لیے جنگی طرز کی حکمت عملی کی ضرورت تو پڑے گی۔ جہاں مخالفین کو نیچا کرنے کے لیے مختلف ذرائع یا جنگی اصطلاح میں ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کہ ابلاغی پروپیگنڈا، عوامی جلسے و جلوس، ہڑتالیں، مخالفین کو توڑنا، اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ جوڑ توڑ اور وقت پڑنے پر تشدد کا استعمال بھی شامل ہیں۔ ہم یہاں سیاسی نظریات اور مقاصد کے میرٹ پر بات نہیں کررہے ہیں، بلکہ ہماری توجہ کا مرکز کسی بھی سیاسی گروپ کے طاقت کے حصول کے راستے پر استعمال ہونے والے ذرائع اور طرز پر ہے۔ عمومی مشاہدے میں مختلف سیاسی گروپ اقتدار حاصل کرنے کے لیے انہی ذرائع کا کم وبیش استعمال کرتے ہیں، جن کا پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ اب ان ذرائع کے لیے وسائل کی اتم ضرورت ہوتی ہے۔ اب سیاسی نظریے کی عوام میں مقبولیت اور اشرافیہ میں قبولیت کی اپنی اہمیت ہے، مگر اقتدار کا دراصل حصول ایک سنجیدہ اور سوجی سمجھی حکمت عملی اور طرز عمل کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں عوامی جذباتیت کا بھی شمار محض ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر ہوتا ہے۔ اب جیسے کہ جنگ لڑنے والی افواج ایک مخصوص نفسیاتی حئیت کی حامل ہوتی ہے، اسی طرح سیاسی حکمرانی کے متلاشی افراد اور گروپوں کو بھی شدید مسابقتی ماحول میں جنگی ذہنیت اپنانی پڑتی ہے۔ اور اس جنگی طرز و طریقے کی ضرورت اقتدار حاصل کرنے کے بعد ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ جاری رہتی ہے۔ کیونکہ مخالفین نچلے نہیں بیٹھتے ہیں، وہ سیاسی حکمرانی کے حصول کے ہتھیاروں کے استعمال میں جتے رہتے ہیں۔ ماوزتنگ بنیادی طور پر اس زمینی حقیقت کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ جب حصول اقتدار کی سیاست میں اخلاقیات کی بات کی جاتی ہے تو فریقین کے طرزعمل کے پس منظر میںیہ ذکر کچھ بے معنی اور منافقت پر مبنی لگتا ہے۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی مسابقت کے بنیادی اصولوں پر اگر سیاسی جماعتیں راضی ہو بھی جائیں، تب بھی اپنے سیاسی مفاد کے حصول کے لیے وہ تحریری معاہدوں سے روگردانی کرنے سے باز نہیں آتی ہیں۔ جیسے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے، جس میں انہوں نے اسٹبلیشمنٹ کو سیاسی جوڑتوڑ سے باہر رکھنے اور رابطہ نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ اور پیٹھ پیچھے ساتھ ہی یہ جماعتیں اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ سیاست میں واپسی کے لیے روابط میں بھی مصروف تھیں۔ سیاسی جماعتوں کا یہ طرزعمل بہرحال حقیقت پسند کہلائے گا، آخر سیاسی جماعتوں کا مقصد اقتدار میں آنا ہے۔ اور بیشتر سیاسی جماعتیں پیشہ ور سیاست دانوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جو کہ ساری عمر محض نظریات کی سیاست کرکے اپنے وجود کا جواز برقرار نہیں رکھ سکتے۔ جبکہ ان کے سیاسی مخالفین اقتدار میں آکر حلقہ انتخاب کو ریلیف فراہم کررہے ہوں۔ سیاسی اقتدار کے لیے سمجھوتے بھی زندگی کا لازمی جز ہے، چاہے اصولی سیاست کے ڈھنڈورے پیٹنے والے کتنا ہی شور کرتے رہے۔ آخر میںیہ سب لوگ بھی پرانی تنخواہ پر نوکری کرتے رہتے ہیں۔ تو سیاست کے میدان میں جنگ و جدل چلتا رہتا ہے۔ اور پولرائزیشن بھی اقتدار کو قائم رکھنے یا حصول کا ایک طریقے کار ہے، جس سے گریز ممکن نہیں ہے۔ کسی سیاسی گروپ کے لیے بڑا چیلنج اپنی حصول اقتدار کی حکمت عملی اور طرز کی عوام اور خواص میں سیاسی حمایت برقرار رکھنا ہے۔ ہوسکتا ہے رائے عامہ کے ایک حصے کے لیے یہ طرز عمل اخلاقی معیارات پر پورا نہ اترتا ہو، مگر طاقت کے حصول میں مددگار ثابت ہو۔ اب ایک بڑا المیہ ہمارے دانشور طبقے کے لیے پیدا ہوتا ہے، جو چاہتے ہیں کہ سیاسی گروپ اقتدار کے بعد سیاسی جنگی طرز عمل ترک کر دے اور سر جوڑ کر ملکی ترقی کے ان کے ارشادات اور تجویز کردہ حل پر عمل کرے۔ ہمارے سارے بیان کا ایک پہلو یہ ہے کہ حصول اقتدار سیاسی جنگجوئی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس لیے ملکی، صوبائی اور مقامی سطح پر کسی قسم کی سماجی یا معاشی تبدیلی کے لیے جس سیاسی تحرک اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی ہمت اور لچک ہمارے دانشورانہ طبقے میں کم ہی ہوتی ہے۔ غیر سیاسی اور ٹیکنیکل سوچ کے ساتھ عمدہ کتابیں بھی لکھی جاسکتی ہیں اوراچھی کانفرنسوں کا انعقاد بھی ہوجاتا ہے، مگر ملک میں بہتری کے لیے سیاسی طرزعمل کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ اور اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ملکی سطح پر ہی کام کیا جائے، مقامی سیاست کو بھی اپنا مطمح نظر بنا کر کام کیا جاسکتا ہے۔