خواجہ آصف کی نااہلی نے نون لیگ کی قیادت کے اعصاب شل کردیئے ہیں۔ان کے لیڈر اور حامی غصے سے لال پیلے ہورہے ہیں۔کوئی بھی اپنی پارٹی کو اس طرح بکھرتاہوا دیکھ نہیں سکتا۔خواجہ آصف کے ساتھ جو ہوا وہ غیر متوقع نہیں ۔ کب کاثابت ہوچکا تھا کہ پاکستان کا وزیرخارجہ متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی میں ملازمت کرتااور بھاری مشاہرہ پاتاہے۔ یہ تصور بھی سوہان روح ہے کہ پاکستان کے کچھ سیاستدان ،سابق عسکری اور سویلین حکام مال وزر کی ہوس میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ابھی اپنی ذمہ داریوںسے فارغ بھی نہیں ہوتے کہ بیرون ملک روزگار تلاش کرلیتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کوئی انہونی بات نہیں کی۔ سرکار کے اہلکاروں میں ہزاروں ایسی عبقری ہستیاں پائی جاتی ہیں جو دوران ملازمت اپنے بچوں کو کینیڈا ، امریکہ اور یورپ میں آباد کرالیتے ہیں۔ انہیں وہاں روزگار دلواتے ہیں۔ سکالر شپ تو عام سی بات ہے۔غالباًانہیں پاکستان کے مستقبل پر یقین ہی نہیں ہوتا اس لیے اپنے خاندان کو برے وقت سے بچانے کے لیے بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں ۔ خلیجی ریاستوں کے شیخوں نے جان بوجھ کر بھی ہمارے سیاستدانوں ، عسکری اور سویلین حکام کو اپنے دام میں پھنسانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔کسی کو مشیر رکھا اور کسی کو کاروبا ر میں لگادیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جن دنوں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہی تھیں دوبئی کے حکمران خاندان نے ان پر نوازشات کی بارش کردی تھی۔ بے نظیر نے ایک دوست سے کہا کہ مجھے ان لوگوں نے spoil کردیا ہے۔ عابدہ حسین اپنی کتاب Power Failure میں لکھتی ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی کے بعد نصرت بھٹو کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھٹو صاحب کی قید کے دوران بہت سارا خرچ وکیلوں کی فیسوں اور پارٹی کے اخراجات پر اٹھ گیا۔عابدہ حسین کو بے نظیر بھٹو نے بتایا کہ جلاوطنی کے دوران متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زیدبن سلطان النہیان بھرپور مالی مدد نہ کرتے تو ان کے لیے باعزت زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا۔ شریف خاندان کی ساری کہانی ہی سعودی عرب اور قطر کے شاہی خاندانوں کی مہربانیوں کے گردگھومتی ہے۔ سعودیوں اور قطریوں نے شریف خاندان کی بھرپور مالی امداد اورسیاسی پشت پناہی کی ۔انہیں اقتدار کی راہداریوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔اب بھی وہ شریف خاندان کے ساتھ قریبی روابط رکھتے ہیں۔ امریکہ ، یورپ اورایران کس طرح ہمارے سیاستدانوں اور طبقہ اشرافیہ کو اپنے دام میں پھنسائے رکھتے ہیں یہ ایک طویل اور تکلیف دہ داستان ہے۔ بہت سارے مصنفین نے ان رازوں سے پردہ اٹھایا ہے ۔ امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین نے بعض ایسے واقعات بھی لکھے ہیں کہ انسان ششدر رہ جاتاہے ۔ لکھتی ہیں کہ جنرل آصف نواز نے امریکہ کا دورہ کیا تو بعض ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملے کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ پینٹاگون میں جنرل آصف کی وزیر دفاع ڈک چینی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کی روائیداد آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ ڈک چینی سے آصف نواز نے تخلیے میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ نہ چاہتے ہوئے میں کمرہ ملاقات سے باہر چلی گئی۔ بعد میں آصف نوازسے کہا کہ ڈک چینی نے آپ کو پیشکش کی ہوگی کہ جوہری پروگرام پر سمجھوتہ کرلیں تو امریکی حکومت مارشل لاء کے نفاذ پر برا نہیں مانے گی۔وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ مجھے کیسے خبر ہوئی۔ ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی آدھی قیمت لینے کے باوجود امریکیوں نے طیارے پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان نے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ طیارہ ساز کمپنی نہیں چاہتی تھی کہ معاہدہ منسوخ ہو۔ چنانچہ عابدہ حسین کو طیارے دکھانے اور ان کے متعلقہ امور پر گفتگو کے لیے فیکٹری کے صدر دفتر مدعو کیا گیا۔ عابدہ لکھتی ہیں کہ بہانے سے میرے ساتھی کو باہر بھیجا گیا اور مجھے پیشکش کی گئی کہ اگر میں وزیراعظم نوازشریف سے طیاروں کی رقم کی واپسی اور معاہدے کی منسوخی پر نظرثانی کرانے میں کامیاب ہوجاؤں تو واشنگٹن میں انہیں ایک گھر بطور تحفہ پیش کیا جا سکتا ہے تاکہ ہاورڈ یونیورسٹی میں زیرتعلیم ان کی صاحبزادیوں کی تعلیم کا خرچ نکل آئے۔ گزشتہ برس جون میں عالمی میڈیا میں یہ خبر گشت کرتی رہی کہ اس وقت کے سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان نے کہا کہ پاکستانی ہمارے ’’غلام ‘‘ ہیں۔ انہوں نے پاکستانی لیڈر شپ کو دوٹوک انداز میں پیغام دیا کہ وہ قطر کے ساتھ سعودی عرب کے تنازعے میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔وکی لیکس میں پاکستان کے حوالے سے خلیجی ممالک اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی گفتگو نہ صرف ہتک آمیز بلکہ دل دکھانے والی ہے۔ ان ممالک کے حکام پاکستان کے داخلی معاملات پر نہ صرف بحث کرتے ہیں بلکہ پاکستان میں نئے نظام حکومت اور سماجی تبدیلیوں میں اپنا کردار ادا کرنے کے حوالے سے بھی مشاورت کر تے ہیں۔ یہ وہی پاکستان ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں جو ابھی محض سترہ برس کا تھا لیکن دنیا میں اس کا نام عزت اور تکریم سے لیا جاتاتھا۔ صدر محمد ایوب خان امریکہ کا دورہ کرتے تو ان کا فقید المثال استقبال کیا جاتا۔ لندن میں شاہی سواری پر ملکہ برطانیہ ان کے ساتھ براجمان ہوتی اور وہ ارکان پارلیمنٹ سے خطاب فرماتے۔ صدر ایوب خان نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ وزارت خارجہ نے ان سے درخواست کی کہ متحدہ عرب امارات کے حکمران پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ صدر پاکستان سے ملاقات کا وقت درکا رہے۔ صدر ایوب خان نے انہیں دوماہ بعد کی ایک تاریخ دی۔آج عالم یہ ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ اسی ملک کی ایک کمپنی میں ملازم ہیں اور ایک ایٹمی قوت کا مقدمہ دنیا میں لڑتے ہیں۔ اشرافیہ کی نہ ختم ہونے والی طمع کی بدولت دنیا میں پاکستان وہ مقام حاصل نہیں کرپایاجس کا وہ حق دار تھا اور ہے۔یہ مذاق اب تمام ہونا چاہیے جو بھی لوگ عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے۔ اس طالب علم کو خوشی نہیں ہوتی جب وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ہسپتالوں کے دورے کرتے دیکھاہے۔ انتظامی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ لیکن سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ آخر ایسے حالات کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ سول انتظامیہ اور منتخب نمائندے اپنی ذمہ داریاں کیوں تندہی سے ادا نہیںکرتے ۔ایسا خلاء پید ا کیوں ہونے دیا جاتاہے جسے عدالت اور کبھی عسکری لیڈر شپ پر کرتی ہے۔ نوازشریف کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ نااہل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ نااہل نہیں تھی نوازشریف صاحب کے غیر جمہوری اور غیر حکیمانہ طرزسیاست نے اسے عضو معطل بنائے رکھا۔ اب وہ کیونکر شکوہ کرتے ہیں۔ ملک کو اس مقام تک سیاستدانوں، عسکری اور سویلین بیوروکریسی نے پہنچایا ۔جب تک ان کی مشقیں کسی نہیں جاتیں اس وقت تک بہتری کی کوئی امید نہیں۔ عدالتوں سے گزارش ہے کہ احتساب کا جو عمل آپ نے شروع کیا ہے وہ کسی ایک طبقے یا گروہ تک محدو د نہیں رہنا چاہیے بلکہ قانون کی گرفت اور بالادستی بلاامتیاز ہونی چاہیے۔ احتساب کا کوڑا صرف نون لیگ کی پیٹھ پر نہیں برسنا چاہیے ۔