اسلام آباد(سپیشل رپورٹر،آئی این پی، صباح نیوز، اے پی پی ) قومی اسمبلی میں فاٹا اور پاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کرلیا گیا۔ آئینی ترمیمی بل کے حق میں 229اور مخالفت میں ایک ووٹ پڑا۔سپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت اجلاس ہوا ۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف چودھری محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم بل پیش کیا،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے اجلاس کے دوران بل کی کاپیاں بھی پھاڑیں۔ ترمیم کو پی پی پی ، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، قومی وطن پارٹی و دیگر اپوزیشن جماعتوں اور فاٹا ارکان کی حمایت کے ساتھ دوتہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا،حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، تحریک انصاف کے رہنما داوڑ خان کنڈی اور فاٹا کے رکن بلال الرحمان نے آئینی ترمیم کی مخالفت کی اور احتجاجاً واک آئوٹ کیا۔بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12اور سینیٹ میں 8نشستیں برقرار رہیں گی،5سال کے بعد فاٹا سے قومی اسمبلی کی نشستیں6جبکہ سینیٹ کی سیٹیں ختم کر دی جائیں گی،آئندہ برس فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے ، فاٹا میں صوبائی قوانین کا فوری اطلاق ہوگا اور منتخب حکومت قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرے گی، آئین سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات الفاظ حزف کر دئے ے جائیں گے ،، ترمیم کے تحت آئین سے فاٹا پاٹا کے الفاظ نکال دیئے گئے بلوچستان کے قبائلی علاقے بھی صوبہ بلوچستان میں شامل ہو جائیں گے ۔بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا،این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے ،10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا،ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا ، پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنی ٰدیا جائے گا۔ فاٹا کی12 نشستوں میں 6 کی کمی کے ساتھ قومی اسمبلی کی نشستیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ جائیں گی۔ فاٹا کی 8 سینیٹ نشستیں ختم ہو جائیں گی جس پر سینیٹ کی 104 نشستیں کم ہو کر 96 رہ جائیں گی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشستیں 145 ہو جائیں گی۔ 8آئینی شقوں میں ترامیم کی گئی ہیں،آئین کے تحت قومی اسمبلی سے آئینی ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد آج (جمعہ) کو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا ۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت ممنون حسین کے دستخط سے فاٹا اور پاٹا باضابطہ طور پر خیبرپختونخوا میں ضم ہو جائیں گے ۔ سپیکر نے بل کی مخالفت کرنے والے ارکان کو بولنے کی اجازت دی جس پر جے یوآ ئی کی نعیمہ کشور خان نے کہا کہ اگر ہم کسی چیز کی مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے ، ہم نے صرف اتنی درخواست کی تھی کہ فاٹا کی عوام سے ایک دفعہ پوچھ لیا جائے کہ وہ خیبرپختونخوا میں انضما م چاہتے ہیں یا الگ صوبہ ۔فاٹا کو آپ بارش سے بچاتے بچاتے پرنالے کے نیچے لا رہے ہیں ، فاٹا کے رکن بلال الرحمان نے کہا کہ آج فاٹا کے حوالے سے سیاہ دن ہے داور خان کنڈی نے کہا کہ میں اس بل کی مخالفت کرتا ہوں ، ہمارا آئین فیڈریشن ہے ، فیڈریشن میں انضمام کا تصور نہیں ، جو لوگ آج فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کی حمایت کر رہے ہیں وہ جنوبی پنجاب کیسے بنائیں گے فاٹا کو ضم کرنے کی بجائے الگ صوبہ بنایا جائے ۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی نسیمہ پانیزئی نے کہا کہ آج وہ لوگ فاٹا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں جن کا فاٹا سے کوئی تعلق نہیں ، جے یوآئی کی شاہدہ اختر علی نے کہا جو لوگ ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجتے تھے وہ آج کیسے کسی کے اشارے پر ایوان میں آئے ہیں ،عبدلقہار ودان نے کہا کہ سیاسی مخالفین آج ایک پیج پر ہیں ، ان کے پیچھے کون ہے یہ ہمارے لیے سوالیہ نشان ہے 31ویں آئینی ترمیم کے موقع پر حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ایوان میں غیر حاضر رہے ۔قبل ازیں قومی اسمبلی میں صورت حال اس وقت دلچسپ ہوئی جب قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے ایوان میں حکومتی ارکان اور وزرا کی تعداد کو کم محسوس کیا۔ جس پر وزیر اعظم نے خورشید شاہ کو کہا ہمیں ڈیڑھ سوسال کی تاریخ بدلنی ہے ، آدھا گھنٹہ اورانتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسلام آباد(سپیشل رپورٹر) چیئر مین تحریک انصاف عمران خان نے کہاہے کہ مجھے فخرہے ایک منی لانڈرر وزیراعظم کو ہٹانے میں ہم کامیاب ہوئے ،قومی اسمبلی سے فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام بل پاس ہونا پاکستان کی بڑی کامیابی ہے جو لوگ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی مخالفت کر رہے ہیں ان کے پاس قبائلی علاقہ جات کا نظام چلانے کے لئے کوئی نظام نہیں ،ن لیگ میں آج بھی کچھ لوگ کرپٹ لوگوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں ،ہم نے منی لانڈرنگ پر پوچھ کر کونسا غلط کام کیا اور جو منی لانڈرنگ کی حمایت کرتے ہیں ان کا ایمان کہاں گیا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ عمران خان نے کہاکہ دہشت گردی سے آدھے قبائلیوں کو نقل مکانی کرنا پڑی، فاٹا بل منظور نہ کیا جاتا تو بہت انتشار پھیلتا،فاٹا کا انضمام کوئی آسان کام نہیں، فاٹا بل منظور کرکے عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا گیا،انہوں نے کہاکہ 22 جماعتوں نے الیکشن میں کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے ، ہم نے 4 حلقے کھلوانے کا غلط مطالبہ نہیں کیا تھا، ہم نے دھرنا اس لیے دیا تاکہ چاروں حلقوں میں تحقیقات ہوں، امپائر اﷲ ہوتا ہے ،ہم صرف اﷲ کو مانتے ہی، یہاں ایک رکن نے بیٹھ کر مجھ کو کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ رکن یہاں نہیں ۔عمران خان کے خطاب کے دوران تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اور مسلم لیگ ن کے دانیال عزیز کے مابین شدید نعرے بازی ہوتی رہی ۔تاہم عمران خان نے اپنے تقریر ختم کرنے کے بعد حکومتی ردعمل سننے کے بغیر ہی اپنی پارٹی اراکین کے ساتھ ایوان سے باہر نکل گئے ۔علاوہ ازیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان الیکشن میں تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا اور سب جماعتوں نے انتخابات کے بروقت انعقاد پر اتفاق کیا ہے بل کی منظوری کیلئے حمایت کرنے پر اپوزیشن ارکان کا شکرگزار ہوں، افسوس !عمران خان نے تقریرمیں غیرضروری باتوں کا ذکر کیا، سب جانتے ہیں دھرنا کیسے اور کیوں ہوا؟ کسی کومنی لانڈررکہنا اخلاق کے منافی ہے ،اس کاجواب الیکشن میں عوام دیں گے ،ووٹ کو عزت دینا ہمارا نعرہ ہے ، حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔انہوں نے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی تقریر اور نواز شریف پر تنقید پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان باتوں کا ذکر کیا گیا جن کی آج ضرورت نہ تھی، نفرت اور تنازع کی باتیں آج نہیں ہونی چاہئیں تھیں، دھرنا اور 4 حلقے کھولنے کی باتیں پہلے آچکی ہیں، آج کے دن پاناما کیس کی بات کرنا اور کسی کو منی لانڈرر کہنا غیر اخلاقی ہے ۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان الیکشن میں تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا، سب جماعتوں نے الیکشن میں تاخیر نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے ،موجودہ حکومت اکتیس مئی تک قائم رہے گی اور اس کے بعد دو ماہ میں انتخابات ہوں گے ۔