عیدالاضحی کے موقع پرسری نگرکی تاریخی مسجد حضرت بل میں نمازیوں نے اس وقت غدار کشمیر فاروق عبداللہ کوگھیرنے کی کوشش کی جب وہ نمازعید اداکرنے کے لئے اس مسجدمیں داخل ہواتاہم اسے کوئی گزندنہ پہنچ سکی۔ فاروق عبداللہ کے اس گھیرائو کے خلاف بھارتی میڈیاپاگل ہوچکاہے اوروہ کشمیری مسلمانوں کے خلاف اناف شناف بک رہاہے ۔سوال یہ ہے کہ کیوں نمازیوں نے غدارکشمیرفاروق عبداللہ کوگھیرنے کی کوشش کی ۔ چند یوم قبل جب واجپائی مرگیاتو اس کے مرنے کے بعددہلی میں ایک کانفرنس منعقدہوئی جس میں واجپائی کی تعریف کی جارہی تھی ۔اس کانفرنس میںغدارکشمیر فاروق عبداللہ بھی مدعوتھاایک یہ کہ اس نے اپنی تقریرمیں واجپائی کی مدح سرائی کرتے ہوئے آسمان زمین کے قلابے ملائے اور تقریرپر ’’بھارت ماتاکی جے‘‘کانعرہ دیا۔ فاروق عبداللہ اس کے والدشیخ عبداللہ اوراسکے بیٹے عمرعبداللہ کا یہ طرزعمل رہاہے کہ کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وجبر اور قتل وغارت کو صرفِ نظر کرکے محض اپنے بھارتی آقائوںکے دل لبھانے کے لئے ’’بھارت ماتاکی جے کانعرہ‘‘ لگاکر اپنے آپ کوتن من دھن بھارتی غلام ہونے کااعلان کرتے ہیں جبکہ بڑی بے شرمی کے ساتھ مظلوم قوم کشمیرپرسب وشتم پڑھنے میں مصروفِ عمل رہے ہیں کہ وہ بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے درپے کیوں ہیں۔یہ اسی غدار ٹولے کی یہ کرم فرمائی ہے کہ ریاست جموں وکشمیرکے 85فیصدحصے پر بھارت کا جبری فوجی قبضہ ہی ہے جس کے نتیجے میں یہ علاقہ مقبوضہ کہلاتاہے۔ سرینگر میں کرسی کے تنو مند غلام بے پرواہ ہو کر اپنی کرسی کو دوام بخشنے کے لیے’’بھارت ماتاکی جے‘‘ کانعرہ لگارہے ہیں۔ لیکن کون نہیں جانتا کشمیر کی بھارت نواز یہ جماعت اپنے یوم تاسیس سے ہی کشمیر میں بھارتی مفاد کا تحفظ کرتی رہی اور بھارتی ناجائز قبضے کو دستِ تعاون دے کر دوام بخشتی رہی۔ ان کی ڈرامہ بازیوں سے کشمیریوں کویہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کشمیریو ں کے بڑے ہمدرد ہیں۔کاش فرزدق آج زندہ ہوتا تو کہتا کہ وہ کشمیریوں کے خیر خواہ ہیں۔ کیونکہ ان کی نیام سے جب تلوراریں باہرآجاتی ہیں تووہ بھارتی فوج کے ساتھ ہوتی ہیں۔ یاداشت کی پوٹلی ساتھ ہوتوپھر اس حقیقت کو کون جھٹلاسکتاہے کہ کا نگریس ہوکہ بی جے پی ،ان کاہرحکم بجالانے کیلئے کشمیرکی بھارت نواز جماعتوں پرمشتمل مخصوص ٹولے کی قومی فروختگی ،بری حرص و لالچ اور کر سی کا نفع بخش بیوپارنے کشمیرکے پھلدار اور پھول دارکوہ ودمن اور دشت وجبل کوخارزار میں بدل دیا۔ تاریخ کشمیرکاورق ورق اس ٹولے کی غداری پر شاہد و عادل ہے۔ کشمیر کا آفتاب و مہتاب، اس پر جگمگا تے تارے ، جیل ڈل اور ولر کا پانی ،جہلم اورسندکی چٹانوں سے ٹکراتی موجیں، زبرون کے پہاڑ اورکوہ سلیمان اس امر پر بغیر لالچ گواہی دیتے رہیں گے۔ مان لیاکہ کشمیر کی بھارت نواز جماعتوں کا یکے بعد دیگرے اقتدار چمکے گا، دولت کی پوجاپاٹ ہو تی رہے گی، سیاستکاری ، مکاری جمے گی، مگرکیارب العالمین کی پکڑ سے بچ پائیں گے ؟ عیدالاضحی کے موقع پرمسجد حضرتبل میںفاروق عبداللہ غدارابن غدارکے ساتھ جوصورتحال پیش آئی وہ اس کی ’’شامت اعمال‘‘ کوواضح کرتاہے۔ تاریخ یہ الفاظ اپنے سینے میں لکھنے سے ہرگز کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی کہ کشمیریوںپر زہرناک مظالم ڈھانے ، اسلامیان کشمیر کے جائز مطالبے پران کا گلا گھوٹنے، انہیں گاجرمولی کی طرح کاٹنے پردلی کے سیاست دانوں ،پالیسی سازوںاور حکمرانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کابھارت نوازٹولہ برابرشریک رہا۔ اس غدار ٹولے کے منافقانہ طرزعمل کشمیرکاپیرہن خون مسلم سے تربترہے۔ کشمیر میں پے در پے پیش آنے والے سانحات پرمشتمل تاریخ کی ہرسطراس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ بھارت نوازجماعتوں پرمشتمل ٹولے کی ضمیر فروشی سے ہی بھارتی سفاک فوج کشمیر میں بار بار قتل عام کی مرتکب ہو رہی ہے اورفاروق عبداللہ کا دور اقتداراس حوالے سے کشمیرکی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے ۔یہ فاروق عبداللہ ہی تھا جس نے 1995 میں جہادمخالف کائونٹر فورس’’نابدی فورس‘‘ تشکیل دیکر کشمیر میں خون کی ندیاں بہادیں۔ فاروق عبداللہ اور ان کے والدکاساراپس منظر سامنے رکھتے ہوئے اور انکا ریکارڈحفظ ماتقدم کے طور پر شعورکے اعتبارسے ادنیٰ و اعلیٰ سب کوخوب پتا چلتا ہے کہ فاروق عبداللہ اقتدار سے بے دخلی پرجب حضر سوچتا ہے ولر کے کنارے جیسی بڑی باتیں کرتاہے تووہ کسے دام فریب میں لانے اورکسے شکارکرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ فاروق عبداللہ کامنافقانہ طرزعمل دیکھ کر دماغ سوزیاں کرنے لگتاہے، فاقہ مستی کارنگ اور گہرا ترہونے لگتاہے،روح کولگے زخم ہرے ہوجاتے ہیں اوروہ اس حد تک کھلنے لگے کہ سنبھالنا اورانکی بخیہ گری ناممکن ہوجاتاہے ۔ دماغ کی ٹوٹی کشتی ہچکولے کھا نے لگتی،دل کی دھڑکن تیزترہونے لگتی اور وسوسوں کی پھواریں پھوٹ پڑجاتے ہیں ، پیکرخاکی تھر تھر کانپ اٹھتاہے، تن بدن سے ٹھنڈے پسینے چھوٹنے لگ جاتے ہیں، اورسانس پھول جاتی ہے۔ 73 سالہ فاروق عبداللہ کئی برس تک کشمیر کا کٹھ پتلی وزیر اعلی رہاہے آج کل وہ بھارت نواز نیشنل کانفرنس کے پیٹرن ہے۔ اس نے 1976ء میں اپنے بیمار والد شیخ عبداللہ کے لیے کمپیئن کر کے کشمیرکی بھارت نواز سیاست میں قدم رکھا اور 1980میں اسے بھارتی پارلیمان کا رکن بنایاگیا۔ شیخ عبد اللہ کے انتقال کے بعد بھارت کی دیوی اس پرکچھ زیادہ ہی مہربان ہوئی اوراسے 1987ء اور پھر 1996ء میں مقبوضہ کشمیرکا کٹھ وزیر اعلی بنادیاگیا۔بھارت نوازی کے اندھے جنون میںاسنے پہلے کانگریس پھر یونائٹڈ فرنٹ اور بعد میں این ڈی اے کی سرکارمیں ساتھ دیا۔ وہ اپنے والدکے نقش قدم پہ چلتے ہوئے روزاول سے ہی ریاست جموں کشمیر پربھارت کے جبری قبضے پر بھارت کی حمایت کرتارہاہے۔1990ء میں جہاد کشمیر کا آغازہوا توفاروق عبداللہ کوجان کے لالے پڑے اور وہ دہلی بھاگ گیا 1995ء تک کاعرصہ اس نے دہلی میں گزارا۔1996ء میں جب اسے کرسی پر بٹھا دیا گیاتووہ بھارت نوازی میں پیش پیش رہا ہے اس دوران وہ دارفطنیاں چھوڑتا رہا ہے ۔ فاروق عبداللہ سے پوچھاجاسکتاہے کہ کشمیر میں فرضی جھڑپیں رچاکرکس نے ایک لاکھ سے زائد کشمیری نوجوانوں کوشہید کروایا ؟ کشمیریوں کے قتل عام پر سفاک بھارتی فوجی اورپولیس آفیسروں اور اہلکاروں کو بہادری کے میڈل ،ترقی اورتمغے کس نے دلوائے؟ زخموں پر مرہم کی پہیلی کس نے صدموں میںبدل دی؟ بلاشبہ کائناتِ کشمیر میں یہ ساراکرم فاروق عبداللہ اوراس کے والدشیخ عبداللہ اوراسکے بیٹے عمرعبداللہ ہی کے دم قدم سے ہوا۔جبکہ مفتی سعیداورمحبوبہ مفتی بھی انہی کے نقش قدم پرچل کرکشمیریوں کاقتل عام کرواتے رہے۔ شیخ عبداللہ اورمفتی سعیداورانکی نسل نے کشمیریوں کی نسل کشی کرنے میں بھارت کابھرپورساتھ دیا۔ان کی تحریک کش ،مسلم کش اوربھارت نوازی کے سارے ریکارڈ ایک کھلی کتاب کی طرح سامنے ہیں جوچاہے اسے پڑھ لے ۔ان ہی کی ایما پرقابض بھارتی فوج نے پورے کشمیر میں قتل عام کی دل دہلانے والی خوفناک کارروائیاں،چھاپوں، گرفتاریوں، پکڑ دھکڑ اور ظلم و زیادتیوں کی ایک خونین مہم چلائی جوہنوزجاری ہے ۔ان ہی کے ایماپرسفاک اوردرندہ صفت بھارتی فوج نے کشمیری مائوںسے ان کے جگر گوشے چھین لئے۔ کشمیر، پیر پنچال اوروادی چناب کا چپہ چپہ، قریہ قریہ، بستی بستی، محلے محلے کومقتل بنادیا گیا ہے۔