پاکستان میں ہر کھیل کا بے پناہ ٹیلنٹ ہے‘ یہاں کھیل تباہ کرنے والوں کا ٹیلنٹ مگر کچھ زیادہ ہے۔آج کل فٹ بال بے یارو مدد گار ہے سو ایک ہفتہ قبل فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفانے پاکستان فٹ بال فیڈریشن پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی کا مطلب یہ ہے کہ جن کھلاڑیوں کو عالمی تنظیم کی طرف سے وظیفہ مل رہا تھا وہ وطیفہ اب نہیں مل سکے گا،کئی غریب بچے اور بچیاں مزدوری کی بجائے کھیل سے ملنے والے وظیفہ سے گھر چلا رہے تھے ، اب ان کو کھیلنے کا وقت نہیں ملے گا۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے پاس کبھی بھی اس قدر فنڈز نہیں ہوتے کہ کسی غیر ملکی کوچ کو مدعو کر سکے‘ عالمی سطح کے جو کوچ آیا کرتے تھے وہ اب پاکستان نہیں آ سکیں گے‘ پاکستان سے بچوں‘ لڑکیوں اور نوجوانوں کی فٹ بال ٹیموں کو بیرون ملک دورے نہیں مل سکیں گے۔ اندرون ملک فٹ بال کے بڑے مقابلے کرانے کے لئے اخراجات نہیں ہوں گے۔ ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لاہور میں فیفا کے خرچ پر جو دفتر بنا ہے وہ ویران ہو جائے۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن پر پابندی کیوں لگی؟فٹ بال بھی ان کھیلوں میں شمار ہوتا ہے جن کی تنظیم پر طاقتور ریٹائرڈ افسر یا سیاستدان قابض ہوتے ہیں۔پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کھیلوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ وہاں بھی معاملات ایسے ہی بگاڑ کا شکار ہیں۔ فٹ بال فیڈریشن کے دفاتر اور عہدوں پر قبضے کے لئے مختلف دھڑوں میں لڑائی چل رہی تھی۔اس لڑائی سے کھیل کی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ سپریم کورٹ نے دسمبر 2018ء میں الیکشن کرائے جس کے نتیجے میں اشفاق حسین شاہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ بن گئے۔ ہمارے ہاں الیکشن کیسے ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ،انٹرنیشنل فٹ بال فیڈریشن نے انتخابی طریقہ کار میں بے ضابطگی کے باعث نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تب سے اشفاق شاہ گروپ اور انٹرنیشنل فٹ بال فیڈریشن کے درمیان تنازع بنا ہوا ہے۔فیفا نے کئی بار اصلاح احوال کی خاطر اپنی سفارشات سے آگاہ کیا۔ مہلت دی لیکن اشفاق شاہ گروپ بضد ہے کہ وہ حقیقی منتخب لوگ ہیں اور انہیں منتخب تسلیم کیا جائے۔ فیفا نے روز مرہ کی سرگرمیوں کو عہدیداروں کی لڑائی سے بچانے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی جسے نارملائزیشن کمیٹی کہا جاتا ہے۔ معاملے کو سلجھانے کا کام اسی کو سونپا گیا۔ نارملائزیشن کمیٹی نے ستمبر 2019ء میں کام شروع کیا۔ حمزہ خان کو چیئرمین بنایا گیا‘ گزشتہ برس دسمبر میں انہوں نے استعفیٰ دیا تو ہارون کو یہ ذمہ داری تفویض کر دی گئی۔ اپریل کے شروع میں اشفاق شاہ گروپ کے لوگ فیفا بلڈنگ میں قائم پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے دفاتر میں زبردستی داخل ہوئے اور قابض ہو گئے۔ فیفا نے اس کو اپنے ضابطے کی جارحانہ خلاف ورزی قرار دے کر پاکستان فٹ بال فیڈریشن پر پابندی لگا دی۔ فیفا نے ایک انتباہی خط ارسال کیا ہے۔ خط میں فیڈریشن دفاتر پر قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فیفا کے مقرر کردہ اہلکاروں کو عمارت میں داخل ہونے کی آزادانہ اجازت نہ دی گئی اور انہیں اپنا کام کرنے سے روکا گیا تو معاملہ فیفا کے بیورو آف دی کونسل فار ڈسیژن میں بھیجا جائے گا۔ حالات اسی طرح رہے تو بیورو پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے عہدیداروں اور کلبوں پر بین الاقوامی مقابلوں میں کسی طرح کی بھی شرکت پر پابندی لگا سکتا ہے۔ یہ پابندی صرف اسی وقت ختم ہو سکتی ہے جب نارملائزیشن کمیٹی فیفا کو یہ یقین دلا دے کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے دفاتر‘ اکائونٹس‘ انتظامیہ اور کمیونی کیشن چینلز دوبارہ سے مکمل طور پر اس کے ماتحت آ چکے ہیں اور وہ کسی رکاوٹ کے بنا اپنا کام کر سکتی ہے۔ پاکستان فٹ بال کو انتظامی کشمکش کا سامنا 2003ء سے ہے جب فیصل صالح حیات اس کے سربراہ بھے۔ فیصل صالح حیات نے 2015ء میں متنازع الیکشن کروایا۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ ایک دھڑہ فیصل صالح حیات اور دوسرا سینئر نائب صدر ظاہر علی شاہ کی سرکردگی میں بن گیا۔ اس لڑائی کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ نے ایک درخواست پر ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ فیفا نے اس پر پاکستان کو بین کر دیا۔کہا جاتا ہے کہ اشفاق شاہ گروپ کو سردار نوید حیدر خان اور عامر ڈوگر کی سرپرستی حاصل ہے۔ پاکستان میں عام لوگ فٹ بال کی کس ٹیم کو جانتے ہیں ؟ یا فٹ بال کے کسی کھلاڑی کو سربازار پہچان سکتے ہیں؟۔ فٹ بال کے کسی کھلاڑی کا نام تک لوگوں کو نہیں یاد‘ یہ صورت حال اچھی نہیں۔ آخر ان حالات میں بڑے بڑے لوگ فٹ بال فیڈریشن پر کیوں قابض رہنا چاہتے ہیں۔ حالیہ دنوں فیصل صالح حیات ایشئین فٹ بال فیڈریشن کے اجلاس میں شرکت کے لئے بحرین گئے ہوئے تھے۔ فٹ بال فیڈریشن کے عہدیدار اکثر یورپ ‘ افریقہ اور ایشیا کے دولت مند ممالک میں تنظیمی اجلاسوں اور مقابلوں کو دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔ سارا خرچ فیفا اٹھاتی ہے۔ اس مفت بری نے کھلاڑیوں اور کھیل کو معمولی فائدہ دیا اصل فوائد فیڈریشن کے عہدیدار اٹھا لے جاتے ہیں۔ کھیلوں کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے۔ ہم ناسمجھ ہیں اس لئے یہ نیٹ ورک ریٹائرڈ افسروں اور سیاستدانوں کے سپرد کر رکھا ہے۔ یہ لوگ جو کارکردگی پہلے دکھا چکے وہی کھیلوں کے عہدیدار بن کر دکھاتے ہیں، نقصان اس ٹیلنٹ کا ہو رہا ہے جسے موقع ملتا ہے نہ حوصلہ افزائی ۔پتہ نہیں ملک میں کوئی کھیلوں سے دلچسپی رکھنے والا حکمران ہے یا نہیں؟