ستمبر 1965ء کی سترہ روزہ جنگ پاکستان کی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جسے گرد آلود کتابوں میں دفن کردیا گیا۔کیونکہ 1971ء کی شکست کے بعد کسی کو اسے یاد کرنے کا حوصلہ ہی باقی نہ رہا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عوامل سب کو معلوم تھے مگر وہ سازشیں جو آج کھل کر بیان کی جاتی ہیں،ان دنوں شکست کے ماحول میں کوئی انکا ذکر کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی ساری سیاست اور مقبولیت، بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ، کشمیر کی آواز بلند کرنے اور تاشقند میں 1965ء کی جیتی جنگ کو میز پر ہارنے کے خلاف وزارت چھوڑنے کے گرد گھومتی تھی، اس لئے بھٹو کا عوامی لہجہ بھارت کے ساتھ کبھی نرم خو نہ رہا، البتہ اسکے سارے اقدامات ایک پرامن برصغیر کے گرد ہی گھومتے رہے جن کی بنیاد وہ شملہ معاہدہ تھا جس میں یہ طے کر لیا گیا تھا کہ ہم اپنے تنازعات خواہ کشمیر ہی کیوں نہ ہو کسی عالمی فورم پر لے کر نہیں جائیں گے۔ بھٹو کے بعد خطے کے عالمی حالات ایسے بدلے کہ پاکستان کو بھارت دشمنی یاد رہی نہ کشمیریوں کی جدوجہد۔ ہمارے بکھیڑے ہی اور ہوگئے۔ پہلے ایران میں امام خمینی کا انقلاب آیا جس نے خطے میں ایک زلزلہ پیدا کردیا، پھر اسی سال کے آخر میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ لیکن اس بدلتے ہوئے دور میں اللہ نے پاکستان کو ضیاء الحق جیسی عظیم اور محب وطن قیادت عطا کی تھی،جو بھارت کے 71ء میں لگائے گئے زخموں کو نہ بھولی۔ امریکہ اور عالمی طاقتوں کے منظور نظر ہونے کا جتنا فائدہ ضیاء الحق نے اٹھایا، پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں اٹھایا۔ پاکستان کا ایٹم بم اسی کے دور میں 1984ء میں مکمل ہوا، جسکی عالمی تشہیر کے لیے مشاہد حسین کے ذریعے بھارتی صحافی کلدیپ نیر کو کہوٹہ کا دورہ کروایا گیا تاکہ بھارت خبردار ہو جائے۔ کشمیر کی آزادی کا وہ شعلہ حریت جو شیخ عبداللہ اور جواہر لال نہرو کے درمیان معاہدے بعد وقت کی راکھ تلے دب چکا تھا، اس چنگاری کو ہوا بھی اسی دور میں ملی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سکھوں کو ہندوؤں کی عیاری اور ہندوتوا کے سکھ مذہب دشمن منصوبے سے بھی اسی دور میں آگاہی حاصل ہوئی۔ ضیاء الحق کے زمانے میں ہی بھارت کا پنجاب اور کشمیر جو پاکستان کے ملحقہ کا سرحدی علاقے تھے آتش فشاں بن گئے۔ سکھوں کی آزادی، گولڈن ٹیمپل پر فوجی آپریشن، ایک مقبول وزیراعظم اندرا گاندھی کا قتل اور اس کے بعد دلی میں ستر ہزار سکھوں کا قتل، یہ ایسے زخم تھے جو آج بھی سلگ رہے ہیں اور ان سے خالصتان کا پودا پروان چڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا وہ طبقہ جو گنگا جمنی بھارتی تہذیب کا علمبردار ہے اور جس کے حلق میں نظریہ پاکستان اور قرارداد مقاصد پھانس کی طرح اٹکی ہوئی ہے وہ ضیاء الحق کو گالی دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس کے بعد بے نظیر سے نواز شریف، مشرف، زرداری اور پھر نواز شریف تک سب نے پوری کوشش کی کہ پاکستان کے نظریاتی مفاد کو سیکولرزم کی قربان گاہ پر گنگا جمنی تہذیب کی چھری سے ذبح کر دیا جائے۔ 1988ء سے 2018ء تک ان تیس سالوں میں کیا کچھ نہیں بیتا، کشمیر میں ایک لاکھ شہادتیں ہوئیں، بابری مسجد اور مسلمانوں کا قتل عام ہوا، گودھرا واقعہ کے بعد گجرات میں مسلمان ذبح کر دئے گئے، زندہ جلا دیے گئے۔ لیکن پاکستان کے حکمران، میڈیا، دفترخارجہ یہاں تک کہ عوام بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ مشرف کے ''سب سے پہلے پاکستان'' کے نعرے نے پاکستانیوں کو خودغرضی کی گہری کھائی میں گرا دیا۔ یہ نعرہ صرف اس لئے لگایا گیا تھا تاکہ پاکستانیوں سے مسلمان ہونے کی وہ پہچان چھینی جائے جو سید الانبیاء ﷺ نے بتائی تھی۔ آپ ؐنے فرمایا '' مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ دکھے تو سارا جسم دکھ محسوس کرتا ہے (صحیح مسلم)۔ گذشتہ تیس سالوں میں امتِ واحدہ کے اس کو تصور ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ لیکن میرے اللہ کی اپنی تدبیریں ہیں وہ ایسے لوگوں کے تمام مکر و فریب کا توڑ کرتا ہے۔ 1925ء میں قائم ہونے والی راشٹریا سیوک سنگھ نے پچانوے سال بعد اپنے درخت کے زہریلے سائے نریندر مودی کی صورت بھارت پر پھیلا دیے۔ اب اس درخت کی زہرناکی میں پچیس کروڑ مسلمان، تین کروڑ سکھ یہاں تک کہ ڈھائی کروڑ عیسائی بھی سکھ کا سانس نہیں لے پا رہے۔ یہ اژدھا ان سب کو نگلنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے علاقوں کو بھی ہندوتوا کا مذہبی حصہ مانتا ہے اور اس پر قبضہ چاہتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا مسلمان چاہے بھی تو بھارت میں رہنے والے مسلمانوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ دشمن بھی ایک اور دکھ بھی مشترک۔ اس ماحول میں ستمبر 1965ء کی جنگ اس لیے یاد آئی کہ ہم نے جو اپنا راستہ کھوٹا کیا اور اسکے بعد جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کو کھویا ہماری وہ روش آج بھی قائم ہے،اور اگر آج بھی ہم نے اپنی ملکی اور غیرملکی حکمت عملی نہ بدلی تو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں جا گریں گے اور خدانخواستہ پھر شکست ہوئی تو کچھ باقی نہ بچے گا۔ اس سلسلے میں آج ایک کتاب اور ایک تقریر شدت سے یاد آرہی ہے جو 65 کی جنگ کے تناظر میں آئندہ حکمت عملی کے لئے لکھی اور کہی گئی۔ کتاب جنرل محمود نے لکھی ہے، وہ جو گیارہ ستمبر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ کتاب کا نام ہے ''illusion of victory'' جیت کا سراب۔ اس کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ ہم نے 65 کی جنگ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور دشمن سے غافل ہوگئے جس کا نتیجہ 71ء کی شکست تھی۔کتاب میں تفصیلی حکمت عملی بتائی گئی ہے۔ جبکہ تقریرایک صاحب بصیرت اور نابغہ روزگار مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ہے۔ جنگ ستمبر کے فورا بعد 16 اکتوبر 1965 کو انجمن شہریان لاہور نے وائی ایم سی اے ہال میں ایک تقریب منعقد کرائی جس میں مولانا مودودی نے پاکستان، جنگ ستمبر اور مسلم دنیا کے حوالے سے خطاب کیا اور پاکستان کو گراں بہا تجاویز دیں۔ مولانا مودودی نے فرمایا کہ بھارت سے مقابلہ کے لئے پاکستانی قوم کے پاس طاقت کا ذخیرہ صرف اسلام اور ایمان ہے اور یہی قوت تھی جس نے ہمیں جنگ میں متحد رکھا ورنہ جنگ عظیم دوم میں فرانس کی آبادی ان علاقوں سے بھاگ گئی تھی جہاں جرمن فوج نے حملہ کیا۔ مولانا مودودی نے فرمایا کہ ’’ہمارا فطری اتحاد عالم اسلام سے بنتا ہے اور اس جنگ میں پاکستان کی فتح کے بعد عرب دنیا کے اخبارات پاکستان کو عالم اسلام میں واحد قوت کی علامت لکھتے تھے۔ لیکن 1956ء میں جب میں عرب دنیا گیا تو دیکھا کہ بھارت نے کروڑوں روپے خرچ کرکے پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کروایا تھا۔ یہاں تک کہ حج پر جانے والے افراد کے ذریعے بھارت صاف عربی زبان میں اپنے پروپیگنڈے پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرواتا تھا۔ لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان کی وزارت حج اوردفترخارجہ مجرمانہ طور پر خاموش تھا‘‘۔مولانا مودودی نے کہا کہ پاکستان کو عالم اسلام سے جوڑنے کے لیے عربی زبان کی تعلیم کو عام کرنا چاہیے اور جیسے ہمارے لوگ انگریزی بول کر انگریزی دنیا میں اجنبی نہیں رہتے، ویسے ہی وہ عربی بولتے ہوئے عرب دنیا سے منسلک ہوجائیں گے۔ انکی زبان پر مہارت جہاں ان کے لیے وہاں ملازمت کے دروازے کھولے گی،وہیں انہیں مسلم امہ کا حصہ بھی بنا دے گی۔ آج 54 سال بعد ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ آج بھی ہماری طاقت، اسلام اور ایمان ہے اور ہمارا فطری اتحاد امت مسلمہ ہے۔ لیکن عمران خان کے گرد حصار باندھے ہوئے جو سیکولر لبرل لابی ہے،وہ عمران خان کا رخ بدلنے نہیں دے گی۔ لیکن یاد رکھو ہمارا پہلے مقابلہ ایک سیکولر بھارت سے تھا،لیکن اب مقابلہ ایک مذہبی ہندو ریاست بھارت سے ہے۔ ایک متشدد ہندو مذہبی ریاست کا مقابلہ صرف اور صرف ایک مسلمان پاکستانی ریاست ہی کرسکتی ہے سیکولر لبرل پاکستان نہیں۔ ایسا نہ کیا گیا تو عمران صاحب! صرف تقریر کرتے رہ جائیں گے اور شکست آپ کے چہرے پر لکھ دی جائے گی۔ اللہ کی نصرت کا وعدہ صرف مومنوں کے ساتھ ہے پاکستانیوں کے ساتھ نہیں۔ ستمبر 1965ء کی سترہ روزہ جنگ پاکستان کی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جسے گرد آلود کتابوں میں دفن کردیا گیا۔کیونکہ 1971ء کی شکست کے بعد کسی کو اسے یاد کرنے کا حوصلہ ہی باقی نہ رہا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عوامل سب کو معلوم تھے مگر وہ سازشیں جو آج کھل کر بیان کی جاتی ہیں،ان دنوں شکست کے ماحول میں کوئی انکا ذکر کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی ساری سیاست اور مقبولیت، بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ، کشمیر کی آواز بلند کرنے اور تاشقند میں 1965ء کی جیتی جنگ کو میز پر ہارنے کے خلاف وزارت چھوڑنے کے گرد گھومتی تھی، اس لئے بھٹو کا عوامی لہجہ بھارت کے ساتھ کبھی نرم خو نہ رہا، البتہ اسکے سارے اقدامات ایک پرامن برصغیر کے گرد ہی گھومتے رہے جن کی بنیاد وہ شملہ معاہدہ تھا جس میں یہ طے کر لیا گیا تھا کہ ہم اپنے تنازعات خواہ کشمیر ہی کیوں نہ ہو کسی عالمی فورم پر لے کر نہیں جائیں گے۔ بھٹو کے بعد خطے کے عالمی حالات ایسے بدلے کہ پاکستان کو بھارت دشمنی یاد رہی نہ کشمیریوں کی جدوجہد۔ ہمارے بکھیڑے ہی اور ہوگئے۔ پہلے ایران میں امام خمینی کا انقلاب آیا جس نے خطے میں ایک زلزلہ پیدا کردیا، پھر اسی سال کے آخر میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ لیکن اس بدلتے ہوئے دور میں اللہ نے پاکستان کو ضیاء الحق جیسی عظیم اور محب وطن قیادت عطا کی تھی،جو بھارت کے 71ء میں لگائے گئے زخموں کو نہ بھولی۔ امریکہ اور عالمی طاقتوں کے منظور نظر ہونے کا جتنا فائدہ ضیاء الحق نے اٹھایا، پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں اٹھایا۔ پاکستان کا ایٹم بم اسی کے دور میں 1984ء میں مکمل ہوا، جسکی عالمی تشہیر کے لیے مشاہد حسین کے ذریعے بھارتی صحافی کلدیپ نیر کو کہوٹہ کا دورہ کروایا گیا تاکہ بھارت خبردار ہو جائے۔ کشمیر کی آزادی کا وہ شعلہ حریت جو شیخ عبداللہ اور جواہر لال نہرو کے درمیان معاہدے بعد وقت کی راکھ تلے دب چکا تھا، اس چنگاری کو ہوا بھی اسی دور میں ملی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سکھوں کو ہندوؤں کی عیاری اور ہندوتوا کے سکھ مذہب دشمن منصوبے سے بھی اسی دور میں آگاہی حاصل ہوئی۔ ضیاء الحق کے زمانے میں ہی بھارت کا پنجاب اور کشمیر جو پاکستان کے ملحقہ کا سرحدی علاقے تھے آتش فشاں بن گئے۔ سکھوں کی آزادی، گولڈن ٹیمپل پر فوجی آپریشن، ایک مقبول وزیراعظم اندرا گاندھی کا قتل اور اس کے بعد دلی میں ستر ہزار سکھوں کا قتل، یہ ایسے زخم تھے جو آج بھی سلگ رہے ہیں اور ان سے خالصتان کا پودا پروان چڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا وہ طبقہ جو گنگا جمنی بھارتی تہذیب کا علمبردار ہے اور جس کے حلق میں نظریہ پاکستان اور قرارداد مقاصد پھانس کی طرح اٹکی ہوئی ہے وہ ضیاء الحق کو گالی دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس کے بعد بے نظیر سے نواز شریف، مشرف، زرداری اور پھر نواز شریف تک سب نے پوری کوشش کی کہ پاکستان کے نظریاتی مفاد کو سیکولرزم کی قربان گاہ پر گنگا جمنی تہذیب کی چھری سے ذبح کر دیا جائے۔ 1988ء سے 2018ء تک ان تیس سالوں میں کیا کچھ نہیں بیتا، کشمیر میں ایک لاکھ شہادتیں ہوئیں، بابری مسجد اور مسلمانوں کا قتل عام ہوا، گودھرا واقعہ کے بعد گجرات میں مسلمان ذبح کر دئے گئے، زندہ جلا دیے گئے۔ لیکن پاکستان کے حکمران، میڈیا، دفترخارجہ یہاں تک کہ عوام بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ مشرف کے ''سب سے پہلے پاکستان'' کے نعرے نے پاکستانیوں کو خودغرضی کی گہری کھائی میں گرا دیا۔ یہ نعرہ صرف اس لئے لگایا گیا تھا تاکہ پاکستانیوں سے مسلمان ہونے کی وہ پہچان چھینی جائے جو سید الانبیاء ﷺ نے بتائی تھی۔ آپ ؐنے فرمایا '' مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ دکھے تو سارا جسم دکھ محسوس کرتا ہے (صحیح مسلم)۔ گذشتہ تیس سالوں میں امتِ واحدہ کے اس کو تصور ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ لیکن میرے اللہ کی اپنی تدبیریں ہیں وہ ایسے لوگوں کے تمام مکر و فریب کا توڑ کرتا ہے۔ 1925ء میں قائم ہونے والی راشٹریا سیوک سنگھ نے پچانوے سال بعد اپنے درخت کے زہریلے سائے نریندر مودی کی صورت بھارت پر پھیلا دیے۔ اب اس درخت کی زہرناکی میں پچیس کروڑ مسلمان، تین کروڑ سکھ یہاں تک کہ ڈھائی کروڑ عیسائی بھی سکھ کا سانس نہیں لے پا رہے۔ یہ اژدھا ان سب کو نگلنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے علاقوں کو بھی ہندوتوا کا مذہبی حصہ مانتا ہے اور اس پر قبضہ چاہتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا مسلمان چاہے بھی تو بھارت میں رہنے والے مسلمانوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ دشمن بھی ایک اور دکھ بھی مشترک۔ اس ماحول میں ستمبر 1965ء کی جنگ اس لیے یاد آئی کہ ہم نے جو اپنا راستہ کھوٹا کیا اور اسکے بعد جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کو کھویا ہماری وہ روش آج بھی قائم ہے،اور اگر آج بھی ہم نے اپنی ملکی اور غیرملکی حکمت عملی نہ بدلی تو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں جا گریں گے اور خدانخواستہ پھر شکست ہوئی تو کچھ باقی نہ بچے گا۔ اس سلسلے میں آج ایک کتاب اور ایک تقریر شدت سے یاد آرہی ہے جو 65 کی جنگ کے تناظر میں آئندہ حکمت عملی کے لئے لکھی اور کہی گئی۔ کتاب جنرل محمود نے لکھی ہے، وہ جو گیارہ ستمبر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ کتاب کا نام ہے ''illusion of victory'' جیت کا سراب۔ اس کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ ہم نے 65 کی جنگ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور دشمن سے غافل ہوگئے جس کا نتیجہ 71ء کی شکست تھی۔کتاب میں تفصیلی حکمت عملی بتائی گئی ہے۔ جبکہ تقریرایک صاحب بصیرت اور نابغہ روزگار مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ہے۔ جنگ ستمبر کے فورا بعد 16 اکتوبر 1965 کو انجمن شہریان لاہور نے وائی ایم سی اے ہال میں ایک تقریب منعقد کرائی جس میں مولانا مودودی نے پاکستان، جنگ ستمبر اور مسلم دنیا کے حوالے سے خطاب کیا اور پاکستان کو گراں بہا تجاویز دیں۔ مولانا مودودی نے فرمایا کہ بھارت سے مقابلہ کے لئے پاکستانی قوم کے پاس طاقت کا ذخیرہ صرف اسلام اور ایمان ہے اور یہی قوت تھی جس نے ہمیں جنگ میں متحد رکھا ورنہ جنگ عظیم دوم میں فرانس کی آبادی ان علاقوں سے بھاگ گئی تھی جہاں جرمن فوج نے حملہ کیا۔ مولانا مودودی نے فرمایا کہ ’’ہمارا فطری اتحاد عالم اسلام سے بنتا ہے اور اس جنگ میں پاکستان کی فتح کے بعد عرب دنیا کے اخبارات پاکستان کو عالم اسلام میں واحد قوت کی علامت لکھتے تھے۔ لیکن 1956ء میں جب میں عرب دنیا گیا تو دیکھا کہ بھارت نے کروڑوں روپے خرچ کرکے پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کروایا تھا۔ یہاں تک کہ حج پر جانے والے افراد کے ذریعے بھارت صاف عربی زبان میں اپنے پروپیگنڈے پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرواتا تھا۔ لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان کی وزارت حج اوردفترخارجہ مجرمانہ طور پر خاموش تھا‘‘۔مولانا مودودی نے کہا کہ پاکستان کو عالم اسلام سے جوڑنے کے لیے عربی زبان کی تعلیم کو عام کرنا چاہیے اور جیسے ہمارے لوگ انگریزی بول کر انگریزی دنیا میں اجنبی نہیں رہتے، ویسے ہی وہ عربی بولتے ہوئے عرب دنیا سے منسلک ہوجائیں گے۔ انکی زبان پر مہارت جہاں ان کے لیے وہاں ملازمت کے دروازے کھولے گی،وہیں انہیں مسلم امہ کا حصہ بھی بنا دے گی۔ آج 54 سال بعد ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ آج بھی ہماری طاقت، اسلام اور ایمان ہے اور ہمارا فطری اتحاد امت مسلمہ ہے۔ لیکن عمران خان کے گرد حصار باندھے ہوئے جو سیکولر لبرل لابی ہے،وہ عمران خان کا رخ بدلنے نہیں دے گی۔ لیکن یاد رکھو ہمارا پہلے مقابلہ ایک سیکولر بھارت سے تھا،لیکن اب مقابلہ ایک مذہبی ہندو ریاست بھارت سے ہے۔ ایک متشدد ہندو مذہبی ریاست کا مقابلہ صرف اور صرف ایک مسلمان پاکستانی ریاست ہی کرسکتی ہے سیکولر لبرل پاکستان نہیں۔ ایسا نہ کیا گیا تو عمران صاحب! صرف تقریر کرتے رہ جائیں گے اور شکست آپ کے چہرے پر لکھ دی جائے گی۔ اللہ کی نصرت کا وعدہ صرف مومنوں کے ساتھ ہے پاکستانیوں کے ساتھ نہیں۔