"لکھنے کو تو بے شمار موضوعات ہیں لیکن میراجی چاہتاہے کہ آج آپ سے چند مفید اور دل میں اتر جانے والی باتیں شیئر کروں۔ یہ باتیں دراصل پیش گوئیاں ہیں جو ہمارے دور کے سیاستدانوں اور دانشور وں کی نہیں بلکہ سرورِ کونین ؐکی مبارک زبان سے نکلے ہوئے بیش بہا موتی ہیں۔ ان پیش گوئیوں کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ شک اور اشتباہ سے مبرا اور حرف بہ حرف صادق ہونے والی ہیں۔ پیارے آقاؐ نے اپنی امت کو جن کڑی آزمائشوں سے خبردار کیاتھا انہی آزمائشوں کو فتنے کہتے ہیں۔ فتنہ دراصل عربی زبان کا لفظ ہے ،اہل لغت کے ہاں سونے کوآگ پرتپانے(کہ اس کاکھراپن اورکھوٹا پن معلوم کیاجاسکے ) کے عمل کو فتنہ کہاجاتاہے۔ مسلمان بندہ بھی چونکہ سونے کی مانندہوتاہے یوں مزید کھرا ثابت ہونے کیلئے وہ اپنے حقیقی مالک کی طرف سے آزمایا جاتاہے۔انہیں ہر وقت گوناگوں آزمائشوں اور امتحانات سے پالا پڑتاہے۔خصوصاً آخری زمانے میں تو وہ آزمائشوں کے ایسے ہجوم میں اپنے آپ کو گھرا ہوامحسوس کرے گا گویا کہ وہ تپتی ہوئی آگ کے نزدیک بیٹھا ہو۔ آج اکیسویں صدی کازمانہ ہے اور ہم خیرْالقرون کے زمانے سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ مادیت کے اسی عروج ہی کی وجہ سے انسان کا روحانیت اور الٰہیات سے رابطہ کمزور پڑتا جارہاہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے دل ودماغ پر نفسانی خواہشات غالب آرہی ہیں۔یوں سمجھیے کہ مادیت کے ظاہراًاس خوشنما اور درون خانہ مہلک ترین دور میںہم ایسے کھڑے ہیں کہ مختلف النوع فتنے سائے کی طرح ہمارا پیچھا کررہے ہیں۔ان فتنوں سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے مسیحائے اعظم نے ہمیں ساڑھے چودہ سو سال پہلے خبردار کیاہے کہ محتاط رہو اور پھونک پھونک کر قدم رکھا کرو۔آپ ؐ نے فرمایا کہ '' میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ فتنے تمہارے گھروں میں اس طرح آگریں گے جیسے بارش کے قطرے ''(صحیح البخاری ، کتاب الفتن )۔ اس دور کے فتنوں کے بارے میں آپ ؐنے ایک موقع پر فرمایا کہ : خود قاتل کو یہ علم نہیں ہوگا کہ وہ کیوں قتل کررہاہے ،اور نہ مقتول کو معلوم ہوگا کہ اسے کس جرم کی پاداش میں قتل کردیا گیاہے ''(صحیح مسلم ، حدیث )۔ اس حدیث کی جانکاری ہونے کے بعد کس سالِم العقل مسلمان کو پھر بھی شک ہوگا کہ یہ فتنہ ہم تک آنہیں پہنچا ہے ؟ غور کیا جائے توآج عراق سے لے کر شام اور لبنان تک اوریمن سے ایران ،ترکی، افغانستان اور پاکستان تک ہمارا معاشرہ بلاوجہ قتل عام اور مظالم کا شکارہے۔ نمازیوں سے بھری مسجدوں میں ہونے والے خودکش حملوں ، بازاروں اور مارکیٹوں میں خون ریزیوں اور ٹارگٹ کلنگ میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھنے والوں میں کیا کسی کویہ علم تھا کہ ان کے چیتھڑے کیوں اڑائے گئے؟ کیاجلسہ گاہوں اور اجتماعات میں شہید ہونے والے سامعین کے لواحقین کو یہ پتہ چل سکے گاکہ پَل بھر میں ان کے پیاروں کی زندگیوں سے موت کا کھیل کیوں اور کس نے کھیلا ؟ دوسری طرف دیکھاجائے توان بدبخت قاتلوں کو بھی یہ علم نہیں کہ وہ کس کی خوشنودی کیلئے کلمہ گو مسلمانوں اور بے گناہ انسانوں کی لاشیں گرا رہے ہیں؟ فتنوں ہی کے بارے میں آپؐ نے ایک دفعہ فرمایاکہ ''جو لوگ ننگے پاوں پھرتے تھے وہ حکومتوں کے سربراہ بن جائیں گے ، مرد عورتوں کی شباہت اختیار کریں گے اور عورتیں مردوں کی نقالیاں کریں گی ''۔کیا ہم نے کبھی غور کیاہے کہ ہادی برحق کی یہ پیش گوئی آج حرف بہ حرف سچی ثابت ہوئی ہے ؟ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس دور میں وہ لوگ حکمران بن گئے ہیں جن میں اہلیت اور شرافت نام کی کوئی وصف باقی نہیں ہے۔ جو بندہ جتنا زیادہ خلق خدا کی حق تلفی اور خالق کائنات کی حکم عدولی میں طاق ہوتاہے، لوگ اسی کو اپنا راہنمابنادیتے ہیں۔اسی طرح دیکھاجائے اکیسویں صدی کایہ زمانہ نقالیوں اور فحش فیشنوں کا زمانہ بن چکاہے۔ ایک زمانے میں مرد اپنی مردانگی کے لباس،بامروت چال چلن اوراپنے مخصوص حلیے پر فخر محسوس کرتاتھالیکن آج مردوں کو زنانہ لباس اختیار کرنے کا ایسا چسکالگاہے کہ اسکے بغیر وہ اپنے آپ کو کمتر تصور کرتے ہیں۔دوسری طرف عورتوں نے مردوں کی نقالی کرنے کو اپنی اولین ترجیح سمجھ رکھا ہے۔پردہ اور حیا آج کل عورتوں کے ہاں ایک دقیانوسی اور پتھر کے زمانے کی ایک پسماندہ روایت لگتی ہے۔ ان احادیث کے پڑھنے اور سننے کے بعد کیا کوئی شخص اب بھی یہ دعویٰ کرسکتاہے کہ ہم فتنوں کے دور میں جی نہیں رہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان مہلک فتنوں میں مبتلا ہونے سے بچائے اورپھونک پھونک کر قدم رکھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین یا رب العٰلمین۔