کچھ دن کے لیے بند کرنے کے بعد ٹک ٹاک کو دوبارہ کھول دیا گیا۔ ساتھ ہی ہدایت جاری کی گئی کہ فحش مواد ہٹا دیا جائے ۔ فحش کسے کہتے ہیں ؟ اس کی تعریف ہونا شاید باقی ہے یا اس کی تعریف ہمارے علم میں آنا باقی ہے یا پھر فحاشی کا پیمانہ مختلف پلیٹ فارمز اور اداروں کے لیے مختلف ہے ۔ کسی کے لیے برہنگی کا مطلب فحاشی ہے تو کوئی خواتین کے برقع نہ پہننے کو فحاشی سمجھتا ہے ۔ کسی کے خیال میں خواتین کا کھلے بالوں سے بازاروں میں گھومنا فحاشی ہے تو کوئی چہرہ نہ ڈھانپنے کو بھی فحاشی سمجھتا ہے ۔ تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ فحاشی کے لفظ کو صرف عورت کی مختلف حالتوں پر ڈیفائن کیا جاتا ہے، مرد اس سے مستثنیٰ سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارا سماج تضادات سے بھرا پڑا ہے ۔ ٹک ٹاک پر رقص اور فحش جملے ناپسند یدہ ٹھہرے لیکن حیرت ہے کہ پاکستانی تھیٹر فحش ڈانس دیکھنے کی لیگل جگہ بن گیا ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں۔ ذو معنی جملوں نے مزاح کی جگہ لے لی ہے اور ماں بہن کی گالی جگت کا متبادل ٹھہری ہے ۔ مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارا سنسر بورڈ یہ سب کرنے کی اجازت دے رہا ہے اور اس کی سند کے بعد کسی کا کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔ہماری اسٹیج انڈسٹری تو دہری مجرم ہے ، یہ مزاح کی قاتل، فن اداکاری کی دشمن اور رقص کی جگہ فحش جسمانی حرکات کے اظہار کی موجد ہے۔اسٹیج ایک ورثہ تھا جو تباہ ہوا، ایک تہذیب تھی جو ختم ہوئی۔یوں موجودہ اسٹیج قیمتی ورثے کی تباہی کا ذمہ دار بھی ہے اور فحش گوئی کے فروغ کا ذریعہ بھی۔ کوئی غور کرے تو اسٹیج کی گندی جگت تھیٹر سے باہر نکل کر اسکولوں اور کالجوں کی کلاس رومز اور بے تکلف دوستوں کی محفلوں تک پہنچ گئی ہے ۔ لوگوں نے مشتاق یوسفی کو پڑھنا چھوڑ دیااور سٹیج کے مزاح سے لطف لینے لگے ۔ پنجابی فلموں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔جس قسم کے ڈانس کو پنجابی کلچر کے نام پر معاشرے میں رواج دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ فحش بھی ہے اور جمالیاتی حس کو سخت تکلیف پہنچانے کا باعث بھی ۔ پنجابی فلموں کا یہی نامعقول کلچر فلم انڈسٹری کو تباہ کرنے کی وجوہات میں سے ایک بنا ۔مگر مجال ہے کسی نے اسے بند کرنے یا ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہو۔ سنسر بورڈ میں بیٹھے لوگ کیا جمالیاتی حس سے بالکل عاری ہیں؟ فحاشی کا الزام مول لینا بھی ہے توکم از کم جمالیات کے کسی پیمانے پر تو پورا اترے۔ اب آئیے ٹک ٹاک پر جہاںاگرچہ بہت سی نامعقول چیزیں ہو رہی ہیںلیکن اسے بند کرنے کا فارمولہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اسے فحاشی کی کس تعریف کے تحت بند کیا گیا ؟فرض کریں اگر یہ پابندی لگا دی جائے کہ ٹک ٹاک پر چلنے والی ہر ویڈیو پہلے سنسر بورڈ سے پاس ہوگی پھر اپلوڈ کی جا سکے گی اور سنسر بورڈکی جانب سے فحاشی کا معیار جانچنے کے لیے پیمانہ وہی ہوگا جو سٹیج اور فلم کے لیے ہے ، تو ٹک ٹاک کی کوئی بھی ویڈیو روکی نہیں جا سکے گی۔ یعنی موجودہ اسٹیج اور فلم کی منظوری دینے والا سنسر بورڈ ٹک ٹک کی شاید ایک بھی ویڈیو روک نہ پائے ماسوائے چند برہنہ ویڈیوز کے۔ گویاہمارا سماج تضادات سے بھرا پڑا ہے جو ایک نامناسب چیز پر پابندی کے حق میں ہے اور دوسری کو خود اپنے دستخطوں سے اجازت دے دیتا ہے ۔ ہو سکتا ہے اس بحث میں آپ ایک دلیل لے آئیں کہ فلم اور اسٹیج میں کام کرنے والے فحش لوگ محدود تعداد میں ہیں لیکن ٹک ٹاک ہر ہاتھ میں جا چکی ہے اس لیے اسے روکنا ضروری ہے۔ اگر اسی بنیاد پر ٹک ٹاک کو بین کرنا ہے تو پھر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فحش فلموں کے ٹکڑے پھیلانے کا سب بڑا ذریعہ تو وٹس ایپ ہے اسے آج تک بند کیوں نہیں کیا گیا؟ جو کچھ ٹک ٹاک پر ہے وہ سب کچھ تو یوٹیوب اور انسٹاگرام پہ بھی موجود ہے ، ایسی ہی دوسری ایپلی کیشنز بھی ہیں ،انہیں بند کیوں نہیں کیا گیا؟اور اگر ٹک ٹاک کو بند کرنا صحیح فیصلہ تھا تو پھر یہ فیصلہ واپس کیوں لیا گیا؟ کیافیصلہ واپس لے کر اعتراف نہیں کر لیا گیا کہ پابندی کا فیصلہ جلد بازی میں اور تمام پہلوئوں کا جائزہ لئے بغیر کیا گیا تھا۔ ہمارے ہاں کسی بھی چیز کو ریگولیٹ کرنے کی بجائے بند کر دینا مسئلے کا آسان حل سمجھا جاتاہے۔ سالِ نو پر سی ویو جانے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا جاتا ہے تاکہ نوجوان ہلڑ بازی نہ کریںلیکن نوجوانوں کو ہلڑ بازی سے روکنے کے لیے قانون کا نفاذ نہیں کیا جائے گا۔ اہم مواقع پر سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی بجائے موبائل سگنلز بند کر دیے جاتے ہیں۔ وی آئی پی موومنٹ کے لیے سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ بند کر دینا ہمارے اداروں کو آسان لگتا ہے ۔ ایسا ہی پی ٹی اے نے ٹک ٹاک کے ساتھ کیا۔ اگر دس فیصد لوگ غلط کر رہے ہیںتو انہیں ٹک ٹاک پر بین کرنے کی حکمت عملی ہونی چاہیے ۔ پوری دنیا اسی اصول پر کام کرتی ہے ، یوٹیوب نے اپنے پلیٹ فارم سے چینلز بند کرنے کی حکمت عملی اپنے صارفین کو بتا رکھی ہے جو پالیسی پر عمل نہیں کرتا اسے بین کر دیا جاتا ہے ۔اگر چند لوگوں کے غلط مواد کی بنا پرپورے پلیٹ فارم کو بند کرنے کی اصول پر عمل ہونے لگے تو دنیا بھر میں کوئی ایپلی کیشن چلائی نہیں جا سکتی۔ بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ادارے بنائے گئے ہیں ، ضوابط سے ہٹ کر مواد نشر کرنے والے کو پہلے جرمانہ اور پھر لائسنس بھی معطل کیا جا سکتاہے۔ حکومت اور پی ٹی اے کو چاہیے کہ پاکستان میں چلنے والی سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کی انتظامیہ سے مستقل بنیادوں پر معاہدے کر کے مسئلے کا حل نکالے اور اس سلسلے میں مستقل حکمت عملی وضع کرے۔ انہیں پاکستان میں بند کر کے دھمکی دینے سے نہ صرف پاکستان کی ڈیجیٹل اکانومی متاثر ہو گی بلکہ بہت سے نوجوان بیروزگار ہو جائیں گے ، ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر کے نام کمانے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی۔