کراچی کی مالا سے ایک اور موتی کم ہوگیا۔ اس شہر میں کیسے کیسے لوگ تھے۔ ایسے لوگ جن کے لیے مرزا غالب نے کیا خوب کہا تھا: ’’سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں‘‘ وہ ساری زندگی کراچی میں رہے۔ مگر سچ بات یہ ہے کہ ہمارا ملک اپنے قابل فخر بیٹے سے محروم ہوگیا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ ہرروز پیدا نہیں ہوتے۔ ایسے اشخاص کے لیے میر تقی میر نے کہا ہے: ’’مت سہل ہمیں جانو؛ پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں‘‘ فخرو بھائی بھی ایسے انسان تھے۔ان کا اصل اور آفیشل نام فخرالدین جی ابراہیم تھا مگر ان کو اس نام سے پکارنا اچھا نہیں لگتا۔ کیوں کہ فخرالدین جی ابراہیم میں وہ اپنائیت اور محبت نہیں ہے جو ’’فخرو بھائی ‘‘ میں ہے۔ انہیں زندگی میں سب فخرو بھائی کہہ کر بلاتے تھے اور انہوں نے اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ان کو عزت سے زیادہ محبت پسند تھی۔ وہ محبت کرنے والے شخص تھے۔ ان کی پوری زندگی محنت اور محبت کا مرکب تھی۔ وہ عجیب شخص تھے۔ پہلی ملاقات میں ہی دل میں اترجانے والی، من موہ لینے والی شخصیت تھی ان کی۔ ان سے جو ملتا ان کا گرویدہ بن جاتا ،وہ نہ صرف اپنی صورت میں بلکہ اپنی سیرت میں بھی معصوم تھے۔ ان سے مل کر اور ان سے بات کرکے ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے اپنی ذات کے معصوم بچے کو بڑی حفاظت کے ساتھ سنبھال کر رکھا ہے۔ وہ معصوم بچے کی طرح بات کرتے تھے۔ مگر ان کا دماغ قانون کے علم اور دانش کی وجہ سے بہت بلند تھا۔ان کا جسمانی قد چھوٹا مگر اپنے کردار میں وہ کسی پہاڑ سے کم نہ تھے۔ جب کہ ان کا دل سمندر کی مانند گہرا اور وسیع تھا۔ وہ اکثر خاموش رہنے والے شخص تھے اور خاموشی کے ساتھ چلے گئے۔ ان کے چلے جانے پر میڈیا نے بھی زیادہ بات نہ کی۔ کیوں؟ کیا کوئی احساس جرم تھا؟ کیا اس کے جانے سے میڈیا کو محسوس ہوا کہ اس نے اس شخص کے ساتھ انصاف نہیں کیا تھا جس کے سیاسی خیالات کیسے بھی ہوں مگر جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہ تھا۔ بڑی بات یہ تھی کہ اس نے کبھی کسی سے دشمنی نہیں کی۔ اس نے کسی کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ اس نے کسی سے تلخ لہجے میں بات نہیں کی۔ اس نے کبھی اپنے حیثیت کے حوالے سے غرور کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ پیشے کے حوالے سے ایک وکیل تھے مگر وہ ملک کے اٹارنی جنرل کے ساتھ ساتھ وزیرقانون اور بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں سندھ کے گورنر رہے مگر وہ کبھی بھی ان قوتوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلے جنہیں ’’مقتدر‘‘ کے نام سے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ان قوتوں نے بھی کبھی اس شخص کو پریشان نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ قوتیں جانتی تھیں کہ فخرو بھائی اگر لڑنے والے نہیں ہیں تو ڈرنے والے بھی نہیں ہیں۔انہیں اس بات کا احساس بھی تھا کہ فخرو بھائی کی حب الوطنی ہر شک سے بلند تھی۔وہ پاکستان کے لیے پریشان رہنے والے شخص تھے۔ ان کو ملکی سلامتی اور ترقی کی بڑی فکر رہا کرتی تھی۔ وہ سیاسی مزاج کے شخص ضرور تھے مگر انہوں نے کبھی جلسے نہیں کیے۔ انہوں نے عوام سے ووٹ نہیں مانگے۔ انہوں نے قوم کے ساتھ جھوٹے وعدے نہیں کیے۔ان کے سلسلے میں بہت ساری باتیں ہیں۔ اگر وہ کچھ اور نہ کرتے اور کراچی جیسے شہر کے لیے سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی(CPLC) بناتے تو بھی ان کا نام اس شہر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا۔ جس طرح میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ وہ خاموش رہنے والے شخص تھے؛ اس لیے ان کے ہونٹوں پر کبھی اپنی تعریف نہیں آئی۔ ایک تو وہ اپنی بات بہت کم کرتے تھے اور اگر بات کرنی پڑ جائے تو وہ خود پر تنقید کیا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جتنا کیا گیا ہے وہ بہت کم ہے انہیں اس سے زیادہ کرنا چاہئیے۔ انہوں نے کبھی بھی ملک سے شکایت نہیں کی۔ انہوں نے کبھی ایسا نہیں کہا کہ اس ملک نے ہمارے لیے کیا کیا؟ انہوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ ہمیں اس ملک کے لیے جتنا کرنا چاہئیے تھا ہم نے نہیں کیا۔ فخرو بھائی خوبیوں کی کان تھے مگر ان کی خوبیوں کی شاخ پر جو پھول سب سے زیادہ نمایاں تھا وہ تھا ان کی سچائی اور سادگی۔ وہ اصل میں گجرات سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ انہوں نے اپنے ضمیر کا سودا کیے بغیر اپنے ذہن کی وجہ سے بڑی حیثیت حاصل کی مگر وہ اپنے رشتہ داروں اور اپنے محلے والوں اور اپنے دوستوں کے لیے آخری دم تک فخرو بھائی رہے۔انہوں نے عزت کے ساتھ ساتھ اچھی معاشرتی اور اقتصادی حیثیت بھی حاصل کی مگر وہ پیسے بنانے والی مشین نہیں رہے۔ انہیں پڑھنے میں بڑا لطف آتا تھا۔ وہ صرف قانون کی کتابوں تک محدود نہیں رہے۔ وہ مستقل طور پر علم کے لیے سرگرداں رہے۔ وہ بڑے عہدوں پر رہے مگر ان کو عہدوں پر بٹھانے والوں کو بھی معلوم تھا کہ وہ ناجائز بات کسی صورت میں نہیں مانیں گے۔ پاکستان کو اپنے اس صاف ستھرے اور باضمیر بیٹے پر فخر کرنا چاہئیے۔ وہ اپنے عہدے کا استعفی اپنی جیب میں رکھا کرتے تھے،وہ کبھی بلیک میل نہیں ہوئے۔ اور پوری زندگی قانون کی خدمت کی۔ انہوں نے کبھی قانون بیچا۔ نہ کبھی قانون کو اپنے پیروں تلے روندا۔ وہ سب کا بھلا اور سب کی خیر مانگنے والے شخص تھے۔وہ قانون کے معلم بھی رہے مگر ان میں آخر تک ایک طالب علم کا دل دھڑکتا تھا۔وہ ساری زندگی سیکھتے اور سکھاتے رہے۔ اب وہ نہیں رہے تو ایسا لگتا ہے کہ نہ صرف یہ شہر بلکہ یہ ملک اپنے قابل فخر بیٹے سے محروم ہوگیا ہے۔ فخرو بھائی بجا طور پر قابل فخر انسان تھے۔ایسے انسانوں کے بارے میں مرزا غالب سے بہتر اور کون لکھ سکتا ہے۔ مرزا غالب کے اس شعر کے آئینے میں ان کی صورت دیکھی جاسکتی ہے: ’’دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک‘‘ ان کے بارے میں لکھنا اور پڑھنا صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ان کے کام اور ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ ان کی زندگی کے بارے میں ہماری نئی نسل کو جاننا چاہئیے۔ کیوں کہ ان کی زندگی ایک روڈ میپ ہے۔ وہ اپنی زندگی کی معرفت ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ایک قطرہ کس طرح گہر بنتا ہے؟ فخرو بھائی کی زندگی مسلسل محنت کا نام تھی۔ وہ محنت بیزاری کے ساتھ نہیں بلکہ بڑی لگن کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی محنت کو اس وقت تک جاری رکھا جس وقت تک وہ محنت کرسکتے تھے۔ اس ملک کے اہل دانش اور اہل نظر افراد کو فخرو بھائی کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہے مگر ہماری نوجوان نسل ان کے بارے اتنا نہیں جانتی۔ ہماری نوجوان نسل کو ان کے بارے میں معلوم ہونا چاہئیے کہ انسان محنت سے کس طرح موتی بنتا ہے۔ فخرو بھائی کی زندگی کا سفر بھی قطرے سے گہر ہونے کا سفر ہے۔ اس سفر میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ اس سفر میں نہ صرف محنت ہے مگر یہ سفر بڑے احتیاط سے کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کے حالات کی ہر لہر میں بہت سارے دام ہوتے ہیں۔ ان سے بچنا گہر ہونے کے لیے لازمی ہے۔ ٭٭٭٭٭