برنارڈ شا نے کہا تھا ؛ فرائضِ منصبی اور خواہش قلبی اکٹھے ہوجائیں، تواسے خوش قسمتی کہتے ہیں ۔ہمارے مہربان ،قاسم علی شاہ صاحب نے ایسی ہی بات غالب کے ایک خط کے حوالے سے یوں تحریر فرمائی ہے ؛’’دنیا کا خوش بخت انسان وہ ہے ،جس کا ذریعۂ معاش اور شوق ایک ہی ہو،‘‘ ذریعہ معاش اور شوق ایک ہونے سے زندگی کا باکمال ہو جانا فطری امر ہے ۔کیونکہ دنیا کا ہر انسان کام سے تھک جاتاہے ،لیکن محبت سے نہیں ۔ہر شخص دنیا میں ایک خاص مقصد کے لیے آیا ہے ،وہ مقصد تب ہی پورا ہوتا ہے، اگر ان مقاصد کے حصول کے لیے تگ وتاز ہو ۔حضرت علی المرتضیٰؓ نے فرمایا تھا ؛ اللہ تعالیٰ نے علم کو مشقت میں رکھا ہے، جبکہ لوگ اسے آسانی میں تلاش کرتے ہیں ۔ آپؓ مزید فرماتے ہیں ؛ اگر محض خواہش کی بناء پر لوگ عالم بنتے تو دنیا میں کوئی آدمی جاہل نہ ہوتا۔ یورپ اور امریکہ کی دانشگاہیں انسانی روّیوں کے حوالے سے نت نئے تجربات کرتی رہتی ہیں ،ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں ستانوے فیصد (97%)لوگ وہ کام کررہے ہوتے ہیں ،جس کے لیے وہ پیدا ہی نہیں ہوئے ہوتے ۔بنابریں وہ کسی لگن اور شوق کے بغیر ہی زندگی گزار دیتے ہیں ۔صرف تین فیصد لوگ وہ ہیں جن کے مقدر میں وہ پروفیشن آتا ہے ،جو ان کا شوق بھی ہوتا ہے ۔جس کے لیے ان کے اندر طلب ،تڑپ اور Passionبھی ہوتا ہے ۔ایسے خوش قسمت لوگ پھر جس شعبہ میں بھی ہوں ، وہ اپنے دیگر ہمسفر ساتھیوں سے ذرا آگے اوران کی کارکردگی انہیں نمایاں کیے رکھتی ہے ۔جس کا انہیں’’ خراج‘‘ بھی ادا کرنا پڑتا ہے کہ احباب ’’سنگ زنی‘‘تو کرتے ہی ہیں ،بہر حال ---یہ ساری باتیں اس لیے یاد پڑیں کہ گذشتہ دنوں قطب الاقطاب حضرت شاہ ِ رکن عالم کا 706واں سالانہ عرس روبہ عمل رہا ۔مقامِ مسرت کہ حضرت سجادہ نشین صاحب، مخدوم شاہ محمود قریشی نے عرس کی افتتاحی نشست میں نہایت فراخدلی کے ساتھ محکمہ اوقاف کی طرف سے عمدہ عرس انتظامات پر سیکرٹری اوقاف محترم گلزار حسین شاہ کو ہدیۂ تشکر وامتنان سے نوازا۔یہ بات اہم اس لیے کہ کسی صاحب سجادہ کا محکمہ اوقاف کے ساتھ نرم خُو ہونا، بہت اہم بات ہے ، اس لیے کہ شاید انہیں ہر وقت یہی کھٹکا رہتا ہے کہ : زندگی ’’وقف‘‘ تو کر دوں میں تیرے نام مگر ڈر رہا ہوں کہیں اوقاف نہ قبضہ کر لے گذشتہ سال انہیں ایا م میں حضرت ابو الفتح شاہ رکن عالم ؒ کے 705ویں عرس پر ، صاحبِ عرس کی بار گاہ میں 320صفحات پر محیط ایک عظیم تصنیف پیش ہوئی، جس کی تحقیق وتالیف کا اعزاز میرے ہمدم دیرینہ ،ڈاکٹر محمد سلطان شاہ کو میسر آیا ۔ڈاکٹر صاحب ان دنوں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف لینگوئجز عربیک &اسلامک سٹڈیز ،ممتاز ماہرِ تعلیم اور پھر گلا سکو یونیورسٹی ،یو کے،سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں ،ا ن کے اس گراں تحقیقی پراجیکٹ میں ان کے ساتھ ایک پوری ٹیم ان کی معاون تھی اور یقینا یہ علمی اور تحقیقی منصوبہ زرِ کثیر کا متقاضی بھی تھا ، ان کی محبت اور مہربانی کہ انہوں نے میری درخواست پر اس کو عقیدت ،خدمت اور محبت کے جذبے کے تحت سرانجام دیا ،اور یوں حضرت مخدوم المخادیم کی خدمت میں اس ’’نذرِ عقیدت‘‘ کا اہتمام عمل میں آیا ۔ قبل ازیں غوث العالمین حضرت بہاء الدین زکریا ؒ ملتانی کی بار گاہ میں، ان کے 778ویں سالانہ عرس بمطابق 26تا28اکتوبر2017ء کے موقع پربھی ’’معارفِ حضرت بہاء الدین زکریا ؒ ملتانی‘‘ کی طباعت و اشاعت کا انتظام ہوا،اس کا اصل سبب یہ ہے کہ اُوچ شریف کے ’’ساداتِ بخاری‘‘ مذکورہ عظیم المرتبت ہستیوں سے فیض یافتہ اور سہروردی نسبتوں سے آراستہ اور بالخصوص حضرت سیّد جلال الدین حسین مخدوم جہانیاں جہانگشت ،جن سے میرا شجرئہ نسب 21واسطوں سے متصل ہوتا ہے ،حضرت ابوالفتح شاہِ رکن عالم کے خلیفہ خاص تھے ،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ---عقیدت ،ارادت ومحبت کا یہ عالم ---کہ ایک مرتبہ حضرت شاہ رکن عالم ؒ سیڑھی سے نیچے آرہے تھے کہ آخری زینے کا زمین سے فاصلہ قدرے زیادہ تھا ،حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت ؒ نے زمین پر لیٹ کر اپنا سینہ آگے بڑھا دیا ---مبادا آخری زینے سے قدم براہِ راست زمین پر قدم رکھنے میں دقّت نہ ہو۔ اس واقعے کو پڑھنے کے بعد سے ،حضرت شاہِ رکن عالم کی بار گاہ میں،اپنی حاضری کو بالا ہتما م لاز م کیا ، اورمذکورہ ہدیہ محبت کا التزام بھی اسی سبب سے ہے ۔ حضرت مخدوم جہانیاںؒ اپنے عہد کی نہایت بلند اور ممتاز ہستی اور خطہّ میںنہایت وسیع اثر ونفوذ کے حامل تھے ، سلطان محمد تغلق ،جس کی بعض پالیسیوں کے سبب دینی طبقات اوربالخصوص خانقاہ نشین ، اس سے زیادہ خوش نہ تھے ---کہ اس نے ان صوفیاء کے دینی اور روحانی رسوخ کو شاہی وقار اور حکومتی دبدبے کے لیے ہمیشہ ایک خطرہ سمجھا۔جس کے لیے اس نے کئی غیر موزوں اقدامات بھی کیے ، سلطان محمدتغلق ٹھٹھہ کی مہم کے دوران اچانک بیمار ہوا اور 20مارچ1351ء کو دارِ فانی سے کوچ کر گیا،تو اس کی اس اچانک موت سے سلطانی فوج ابتری کا شکار اورسلطنت میں مختلف فتنے سر اُٹھانے لگے ، اس مشکل وقت میں حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت ،اپنی خانقاہ سے باہر تشریف لائے اور حضرت نصیر الدین چراغ ؒ کی معاونت کرتے ہوئے فیروز شاہ کواس عہد کے ساتھ تختِ اقتدارپر متمکن کیا کہ وہ عدل وانصاف کے اصولوں کے مطابق کاروبار سلطنت انجام دے گا ۔فیروز شاہ جس کی تخت نشینی کی رسم ٹھٹھہ میں ادا کی گئی،اس کے بعد ،وہ وہاں سے سیدھا اوچ شریف حاضر ہوا، اور گذشتہ دور کی تلخیوں کا ازالہ کیا۔ حضرت مخدوم جہانیاں محض ریاستی اور سیاسی شکوہ ہی کے حامل نہ تھے ،بلکہ اپنے عہد کی سب سے بلند علمی اور روحانی ہستی ہی تھے ، ان کے قلمی اور خطّی نسخے اسلامی اور دینی ذخیرہ علم میں ایک گنج گراں مایہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ صد افسوس ،کہ ان پر تحقیقی کام نہ ہوا اور نہ ہی وہ طبع ہوسکے ۔حالیہ دنوںمیں ایک خوشگوار جھونکا مشامِ قلب وجاں کو معطر کر گیا کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے آستاں کے قُرب میں’’ ادارہ تحقیقات حضرت جلال الدین سُرخ پوش بخاری ؒ ‘‘ سرگرمِ عمل ہوا ۔جس کے ساتھ محققین کی ایک جواں سال ٹیم وابستہ ہے ،جو ’’ساداتِ اُچوی‘‘ کے علمی کارہا ئے نمایاں کو منصہ شہود پرلانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اُوچ شریف کے موجودہ سجادہ نشین کے والد گرامی مخدوم المخادیم سیّد علی اصغر بخاری المعروف اَچّھی سائیں،جوکہ اس سلسلۃ الذہب کے شاید آخری بڑے آدمی ہوں ، سے تقریباً بیس سال قبل ، حضرت سیّد شفیق حسین بخاری کی معیت میں ان کے ہاں جانا ہوا، تو انہوں نے اپنے قدیم مہمان خانے میں حاضری کااعزاز بخشا، اور اس موقع پر انہوں نے ان گراں قدر زیارات سے بھی بہر ہ مند کیا ،جس میں نبی اکرم ﷺ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا کلاہ مبارک اور ذوالفقارِ حیدری جیسے ناد ر ونایاب تبرکات کے ساتھ ان کے علمی ذخیرے میں وہ وقیع علمی مخطوطات ، قدیم سندات اورتاریخی مسودات بھی موجود تھے ،جن کا زیور طباعت سے آراستہ ہو کر ،طالبانِ علم کے لیے فراواں ہونااز حد ضروری تھا ، صد شکر کہ مذکورہ ادارہ نے اس سلسلے میں ابتدا کاری کی ہے ،مکتوباتِ مخدوم جہانیاں جہانگشت قدس اللہ سرہ کی جلد اوّل کے ساتھ گذشتہ روز میرے آفس تشریف فرما ہوئے ،جوکہ میرے لیے انتہائی مسرت کا مقام تھا۔