میں روز وہاں سے گزرتا ہوں اور دکھی ہوتا ہوں۔ میں کڑھتا ہوں۔ فردوس مارکیٹ کے چوک میں فلم سٹار فردوس کی سابقہ رہائش گاہ کے عین سامنے جو کارنر ہے وہاں نوجوان سیاحوں کی ایک پناہ گاہ ہوا کرتی تھی جسے ’’یوتھ ہوسٹل‘‘ کہا جاتا تھا۔ پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس یوتھ ہوسٹل کے دروازے بند ہوگئے۔ کس نے دروازے بند کئے‘ سرکاری عمارت کو مقفل کیا؟ ’’نامعلوم افراد‘‘ نے۔ پھر ایک روز کیا دیکھتا ہوں کہ نہایت پردہ پوش رہے یوتھ ہوسٹل کو مسمار کیا جارہا ہے۔ یہ کس کے حکم سے مسمار کیا جارہا تھا میں نہیں جانتا تھا لیکن مجھے اس کی مسماری میں بھی نامعلوم افراد کی شرکت کا شک ہوتا ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد یوتھ ہوسٹل کے اب خالی ہو چکے پلاٹ پر ایک شاندار پلازہ سر اٹھانے لگا۔ سرکاری یوتھ ہوسٹل کی سرکاری زمین کیسے پرائیویٹ ہاتھوں میں منتقل ہو گئی۔ میں نہیں جانتا۔ جیسے گورنمنٹ کالج لاہور سرکار کا ادارہ ہے اور جس زمین پر یہ تعمیر شدہ ہے وہ بھی ظاہر ہے سرکار کی ہے۔ کیا اس کالج کو مسمار کر کے اس کی زمین کو پرائیویٹ ہاتھوں میں فروخت کیا جاسکتا ہے تاکہ وہاں ایک پلازہ تعمیر کیا جا سکے۔ یوتھ ہوسٹل بھی ایک سرکاری عمارت تھی اور یہ کوئی عام سی سرکاری عمارت نہ تھی۔ یہ عمارت دنیا کے سینکڑوں ملکوں میں نوجوانوں کے لیے جو ’’یوتھ ہوسٹل‘‘ تعمیر کئے گئے یہ ان سے منسلک تھی۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو بہت مختصر مختصر یوتھ ہوسٹل تحریک کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔ اس لیے کہ میں اس تحریک کا ابتدائی کارڈ ہولڈر تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یکدم نوجوان نسل جو جنگی تباہ کاریوں کو بھول جانا چاہتی تھی اور اپنی آنکھوں سے نہ صرف اپنے ملک کو بلکہ دیگر ملکوں کو بھی دیکھنا چاہتی تھی۔ نوجوان تھے‘ ان کے پلے اتنے پیسے نہ تھے کہ مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرسکیں۔ چنانچہ خصوصی طور پر یورپ کے نہ صرف اہم شہروں میں بلکہ تاریخی قصبوں اور پہاڑوں میں ایسے ہوسٹل تعمیر کئے گئے جہاں نوجوان نسل بہت معمولی کرائے پر رات بسر کرسکے۔ یہ ایک بین الاقوامی تنظیم تھی اور ان دنوں ہم بھی بہت بین الاقوامی ہوا کرتے تھے۔ اپنے کنویں کے مینڈک نہ تھے جو آج سیاست اور مذہب کی وجہ سے ہو گئے ہیں۔ ہمارے ارادے نیک نام تھے۔ پی آئی اے میں لوڈر بھرتی ہونے والے سینیٹر منتخب نہیں ہوتے تھے بلکہ یہ فضائی کمپنی دنیا بھر میں سب سے باکمال اور شاندار حیثیت میں پہلے نمبر پر تھی۔ چنانچہ پاکستان میں بھی ’’پاکستان یوتھ ہوسٹل ایسوسی ایشن‘‘ قائم ہوئی۔ ملک کے مختص حصوں میں نوجوانوں کے ذوق سفر کی آبیاری کے لیے یوتھ ہوسٹل تعمیر کئے گئے۔ 1955ء میں جب گورنمنٹ کالج لاہور کی کوہ پیما ٹیم کے ایک ممبر کی حیثیت میں ہم ’’کشن گنگا مہم‘‘ پر نکلے تھے تو ہمارے سفر کا آغاز وادی کاغان کے قصبے ناران سے ہوا اور تب ناران کیا تھا؟ ایک ویرانہ‘ دریائے کنہار کے کناروں پر گوجروں کے کچھ جھونپڑے‘ ایک انگریزوں کی یادگار ریسٹ ہائوس اور صرف دو تنور ہوٹل جن میں صرف آلو شوربہ ملتا تھا۔ ناران کے داخلے پر دائیں جانب ایک گھنے جنگل کی چوٹی پر شاید پاکستان کا سب سے پہلا یوتھ ہوسٹل تعمیر کیا گیا تھا۔ ہم نے وہاں قیام کرنے کے لیے ایسوسی ایشن سے معمولی ادائیگی کے بعد ’’یوتھ ہوسٹل کارڈ‘‘ حاصل کئے اور مجھے فخر ہے کہ ہم لوگ پاکستان بھر میں اس حوالے سے اولیت رکھتے تھے۔ ہم پاکستان یوتھ ہوسٹل ایسوسی ایشن کے پہلے آٹھ ممبر تھے۔ مجھے یاد نہیں لیکن شاید میرے کارڈ کا نمبر غالباً تین یا چار تھا۔ البتہ مجھے یہ یاد ہے کہ اس نو تعمیر شدہ یوتھ ہوسٹل میں اندھیرا بہت ہوتا تھا۔ اکلوتی لالٹین کے لیے مٹی کا تیل بھی میسر نہ تھا اور ہم راتوں کو سو نہ سکتے تھے کہ چوکیدار ہمیں ڈراتا رہتا تھا کہ ادھر ریچھ آتا ہے اور شہر کے نرم نرم لڑکوں کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔ ڈیفنس میں منتقل ہونے سے پیشتر میں فردوس مارکیٹ کے قریب گلبرگ کے جے بلاک میں مقیم تھا۔ تقریباً پینتیس برس سے مقیم تھا۔ فردوس مارکیٹ کی فردوس ہیر چوک کے کارنر میں رہتی تھی۔ ذرا برابر میں ایک مسجد کے زیر سایہ محمد علی زیبا کا شاندار ٹھکانا تھا جہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ قبرستان سے ذرا آگے وحید مراد ایک روپوش حالت میں زندگی کرتا تھا۔ جے بلاک کے اسی قبرستان میں سب سے پہلے دائمی رہائش اختیار کرنے والا اداکار علائوالدین تھا یعنی ’’پھنے خان‘‘ ازاں بعد وحید مراد آ گیا۔ پھر میرے ماں باپ اور چھوٹا بھائی زبیر بھی اسی شہر میں منتقل ہو کر خاموش ہو گئے۔ فردوس کے گھر کے سامنے نکڑ پر ’’یوتھ ہوسٹل‘‘ کی جدید عمارت تھی۔ یوں جانئے کہ تقریباً میرے گھر کے سامنے تھی۔ وہاں غیر ملکی سیاحوں کا میلہ لگا رہتا‘ وہ بلاخطر لاہور کے گلی کوچوں میں گھومتے اور پھر بہت مشکل سے یوتھ ہوسٹل پہنچتے کہ تب یہ بہت دور ہوا کرتا تھا‘ سواری مشکل سے دستیاب ہوتی تھی۔ کبھی کبھی مجھ سے ملنے کے لیے کوئی نوجوان دور دراز کے کسی شہر سے آتا تو اس یوتھ ہوسٹل میں آ ٹھہرتا کہ یہاں سے تارڑ کا گھر بس آمنے سامنے ہے۔ ایک دو مرتبہ مجھے بھی ہوسٹل کے اندر جانے کا اتفاق ہوا اور یہ ایک صاف ستھری اور ارزاں قیام گاہ تھی اور میں جب کبھی اس عمارت کے باہر آویزاں بورڈ پر ’’یوتھ ہوسٹل لاہور‘‘ کی عبارت کے برابر میں یوتھ ہوسٹلوں کا امتیازی نقش ایک ڈھلوان چھت کا مکان اور ایک سرو کا بوٹا ترچھا اس پر جھکا دیکھتا تو مجھے پرانے زمانوں کی یادیں دم نہ لینے دیتیں کہ میری آوارگی یوتھ ہوسٹلوں سے منسلک تھی۔ 1956ء میں جب میں انگلستان گیا تو میری جیب میں ’’پاکستان یوتھ ہوسٹل ایسوسی ایشن‘‘ کا پانچ برس کے لیے قابل استعمال ایک کارڈ تھا جس پر میری ایک بیوقوفانہ سی نوجوانی کی حماقتوں سے لبریز رومانوی تصویر چسپاں تھی اور یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں جتنے بھی یوتھ ہوسٹل تھے ان سب کے لیے کارآمد تھا۔ میں نے نہ صرف انگلستان میں بلکہ پورے یورپ میں اپنے پاکستانی کارڈ کا استعمال کیا اور ان قصبوں اور پہاڑی مقامات اور تاریخی شہروں کا تذکرہ بہت طویل ہے جہاں کے یوتھ ہوسٹلوں میں میں نے قیام کیا۔ میرے دو آسرے ہوتے تھے آوارگی کے زمانوں میں ایک میرا خیمہ اور اگر چھت درکار ہے تو مقامی یوتھ ہوسٹل۔ میں جب کبھی کسی یوتھ ہوسٹل میں داخل ہوتا اور وارڈن یا نگہبان کے سامنے اپنا پاکستانی کارڈ رکھتا تو اسے یقین نہ آتا۔ کیا پاکستان میں بھی یوتھ ہوسٹل ایسوسی ایشن قائم ہو چکی ہے۔ کیا آپ کے ہاں بھی یوتھ ہوسٹل ہیں۔ انہیں حیرت اس لیے ہوتی کہ ابھی تک ہندوستان میں یہ ایسوسی ایشن قائم نہ ہوئی تھی۔ ان شہروں کا کہاں تک تذکرہ کروں جن کے یوتھ ہوسٹل میری پناہ گاہ ہوئے۔ انگلستان کے جھیلوں کے ضلع میں جہاں ایک انچارج صاحب نے ہم سے گندے برتن دھلوائے اور بعدازاں ہمیں گیت گانے پر مجبور کیا۔ جرمنی کا بلیک فارسٹ‘ برلن‘ فرینکفرٹ‘ کوپن ہیگن اور اوسلو جس کے یوتھ ہوسٹل میں قیام کرنے والا میں پہلا پاکستانی تھا۔ بعدازاں ناروے میں پاکستانیوں کی اتنی کثرت ہو گئی کہ اسے ’’کھاروے‘‘ کہا جانا لگا کہ بیشتر حضرات کھاریاں کے تھے۔ چند یوتھ ہوسٹلوں میں میرے کارڈ کی تصویر اتار کر بورڈ پر لگائی گئی اور برابر میں میری تصویر کہ یہ ہمارے پہلے پاکستانی ہیں۔ چنانچہ ان دنوں جب کہ میں بڑھاپے کے برگد کی داڑھیوں کی لپیٹ میں ہوں‘ وہ مسمار ہو چکا یوتھ ہوسٹل میری جوانی کی یادگار تھا۔ میں اس کے پھاٹک کے باہر وہ بورڈ دیکھتا جس پر یوتھ ہوسٹل کا امتیازی نشان ایک جھونپڑا اور اس پر جھکا ہوا ایک سرو کا بوٹا دیکھتا تو مجھے وہ زمانے یاد آنے لگتے جب یہ امتیازی نشان دنیا بھر میں میرے لیے پناہ کی ایک منزل تھی۔ میں روز وہاں سے گزرتا ہوں اور کڑھتا ہوں۔ فردوس مارکیٹ کے چوک میں یوتھ ہوسٹل کی زمین پر ایک پلازہ ابھر رہا ہے اور وہ پلازہ میرے سینے میں ایک تیر کی مانند کھب جاتا ہے۔ ویسے ہم جیسے خواب دیکھنے والے‘ نکمے اور بیکار لوگوں کے کڑھنے سے کیا ہوتا ہے۔ ہم کڑھتے گئے جب شہر لاہور کے دل کو تقسیم کر کے سیمنٹ کی ایک دیوار برلن تعمیر کردی گئی۔ اس شہر کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ چوبرجی‘ شالیمار‘ لکشمی چوک‘ جی پی او چوک سب کے سب دفن کردیئے گئے۔ سیمنٹ کے انباروں میں اور کہا گیا کہ قدیم ثقافت کا شہر ہم دوبارہ تعمیر کرلیں گے۔ کیا آج تک کسی نے دیکھا کہ پیرس کے آئفل ٹاور‘ لنڈن کے پکاڈی سرکس‘ روم کے کلوسیم‘ اہرام مصر یا استنبول کی نیلی مسجد کے فن کو مجروح کیا جائے۔ جانے کون سی اورنج ٹرین ان سب آثار پر چھک چھک کرتی چلی جائے اور اس کے ماتھے پر ایک حکمران کی تصویر ہو۔ فردوس مارکیٹ کے چوک میں وہ پلازہ تقریباً تکمیل کو پہنچ چکا ہے جس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ یہ کس کا ہے۔ شنید ہے کہ ماضی کے اہل اقتدار میں سے کسی کے داماد کا ہے۔ کوئی ہے جو میرے اس دکھ کا مداوا کرے۔ فردوس مارکیٹ کے یوتھ ہوسٹل کو کس نے مسمار کیا‘ میری جہاں گردی کے ایک نشیمن کو گرا کر کون ہے جو راتوں رات ارب پتی ہورہا ہے۔ کوئی تو ہوگا۔ میں روز وہاں سے گزرتا ہوں اور کڑھتا رہتا ہوں۔ اس پلازے کے نیچے میرے جوانی کے خواب دفن کردیئے گئے ہیں۔