مسلم امہ پرمسلط حکمران جہاں از خود حرارت آفریںزندگی سے بے فکر اور بے پراہ ہیں، انکی ساکت وصامت کیفیت اوران کی بے حسی کے باعث امہ پرغضب ناک تندی سے یلغار کردی جاتی ہے ، اس کا سینہ چھلنی کردیاجاتاہے،اسے پیچ وتاب میں مبتلاکیاجاتاہے ۔مگرخوابیدہ حکمرانوںکی گہری نیند سے ان کی آنکھ پھربھی نہیں کھلتی ۔البتہ ملت کے ہر فردکادل حب رسولؐ کی دولت گراں مایہ سے مالا مال ہے ۔ اعمال کے کم درجے کاحامل ایک ادنیٰ ساامتی بھی آپؐ کے نام پاک پر اپناتن ، من ،دھن قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیارہے ۔ صلیبیوں کو علمبرداران توحیدکااپنے نبیؐ کے ساتھ محبت کے تمام حساس زاویوں اورفہم وادراک کے غنچوں کابھرپور علم ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ خیرالقرون کے دورمیں صحابہ کی طرح امی وابی فداک کہنے والے آج کے ملت کے گھبرو جوان روحی فداک اورجان نچھاور کرنے پر ایمان افروز جذبات کے اظہار کسی پس و پیش کی پرواہ نہیں کرتے۔رواں برس ستمبراوراکتوبر میں دو مرتبہ فرانس میں شان رسالت مآب ؐمیں گستاخی کا ارتکاب ہوچکاہے ۔ یکم ستمبر2020ء منگل کورسوائے زمانہ فرانسیسی ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈنے وہ توہین آمیز خاکے پھر سے شائع کیے ہیں جواس نے 2015ء میں چھاپے تھے۔رسوائے زمانہ میگزین کی اس ناپا ک حرکت پر 26ستمبر 2020ء ہفتے کو پیرس میں اس کے پرانے دفاتر کے باہر چھری کے وار سے دو افراد کو زخمی کردیاجب وہ دفترسے باہرآچکے تھے ۔واضح رہے کہ 2015ء کے پہلے ہفتے میں اپنے اوپر گند اچھالتے ہوئے اس اسلام دشمن میگزین نے آہانت آمیزخاکے شائع کئے جس کے بعد 7 جنوری 2015ء کو دو بھائیوں سعد اور شریف کواچی نے چارلی ایبڈو کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کر دی تھی جس میں اس اخبار کے ایڈیٹر سٹیفن شربونیئر، گستاخانہ خاکے بنانے والا کارٹونسٹ سمیت چار کارٹونسٹ، دو کالم نگار، ایک کاپی ایڈیٹر اور ایک اورشخص جو اس وقت وہاں موجود تھا، جہنم واصل ہو گئے تھے۔ اس ایڈیٹر کا محافظ اور ایک پولیس والا بھی فائرنگ کے دوران مارے گئے تھے۔ جبکہ اکتوبر2020ء کے وسط میں سیموئل پیٹی نامی فرانسیسی ٹیچر نے اپنے طالبعلموں کونبی اکرمؐ کی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے توہین آمیز خاکے دکھائے جس پر اسے 16 اکتوبر 2020ء جمعہ کو سرقلم کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ یہ دراصل فرانس کے بدترین عمل کاشدیدرعمل تھاجوپوری دنیا پرواضح ہو گیا۔ ہوناتویہ چاہئے تھاکہ فرانس کے حکمران اپنے سیاہ کرتوت پرمسلمانان عالم سے معافی مانگ لیتے ہوئے آہانت آمیزطرزعمل سے باز آنے کااعلان کرتے لیکن اس کے علیٰ الرغم فرانس کے شیطان صفت صدر میکرون سینہ زوری پراتر آئے ۔ اسلام دشمنی کے تعفن زدہ ذہنیت کے حامل میکرون نے فرانس میں رہنے والے مسلمان شہریوں کی مذہبی آزادیوں پر مزید پابندیاں لگانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ وہ فرانس کی سیکولر ویلیوز کو اسلامی شدت پسندی سے بچانے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان، خصوصا خواتین جب باہر نکلیں تو وہ اپنے لباس سے مسلمان نہ لگیں یعنی ان پر گھر سے باہر سر ڈھانپ کر نکلنے پر پابندی ہوگی، اسکولوں میں بھی مسلمان بچیاں اسلامی لباس نہیں پہن سکیں گی۔ حجاب کی تو فرانس میں پہلے ہی پابندی ہے، اب وہاں رہنے والی مسلمان خواتین اور بچیوں کیلئے سر ڈھاپنا بھی جرم بن جائے گا اور یہ سب سیکولرازم کو بچانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ میکرون نے یہ بھی اعلان کیا کہ مسجدوں اور ان کی فنڈنگ پر بھی کڑی نظر رکھی جائے گی۔ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے میکرون نے اپنی اس تکلیف کا بھی اظہار کیا کہ فرانس میں مسلمان اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارتے ہیں جس سے فرانس کے کلچر کے اندر ایک ایسا کلچر پنپ رہا ہے جو اپنے مذہبی عقائد کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ میکرون نے یہ بھی کہا کہ اسلام کو دنیا بھر میں کرائسز کا سامنا ہے۔ 16اکتوبر2020ء جمعہ کوفرانس میں اپنے شاگردوں کو آہانت آمیزخاکے دکھانے والے ٹیچر کا سر قلم کیے جانے کے واقعے کے بعد میکرون جائے موقع پرپہنچے اورکہا کہ ٹیچر کو اس لئے قتل کردیا گیا کیونکہ وہ آزادی رائے کے متعلق پڑھاتا تھا؛ بلکہ حد تو یہ ہے کہ پوری ارکان پارلیمنٹ نے گستاخ ٹیچر کو کھڑے ہو کر خراج عقیدت پیش کی اور وزیر تعلیم نے ٹویٹ کر کے اسے ملک پر حملہ قرار دیا۔ یورپ میں اظہاررائے کی آزادی کی تعریف کیا ہے ۔اظہار رائے کی آزادی کا سب سے بڑے علم بردار یورپ میں’’ہولوکاسٹ ‘‘کومحض ایک مفروضہ قراردینااور یہودیوں کے خلاف کوئی بات لکھنا یا ان کی مخالفت کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ یورپی یونین نے تو اپنے رکن ملکوں کے لئے باضابطہ ایک ہدایت نامہ بھی جاری کیا ہے کہ ہولوکاسٹ کو غلط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنفین کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ جس میں ایک سے تین سال قید بامشقت کی سزا بھی شامل ہے۔2003 ء میں اس حکم نامے میں ایک اضافی پروٹوکول شامل کیا گیا جس میں ہولوکاسٹ کے خلاف انٹرنیٹ پربھی کچھ لکھنا قابل گردن زدنی جرم قرار پایا ہے جن ملکوں میں ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ بھی لکھنا انتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے ان میں آسٹریا ہنگری رومانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔ حالانکہ المیہ یہ ہے کہ یہی ممالک یہودیوں کے خلاف کارروائیوں میں آگے آگے رہے تھے۔ 1998ء سے لے کر 2015ء سترہ برسوں میں تقریباًاٹھارہ ادیبوں اور مصنفین کو اظہار رائے کی آزادی کے علم برداروں کے عتاب کا شکار ہونا پڑا ہے۔مگرفرانس کے صدرکے تعفن زدہ بیان کے بعد پتاچلتاہے کہ سیدالانبیاء کی شان اقدس میں گستاخی کرکے مسلمانان عالم کے سینوں پرمونگ دلنااظہارآزادی ہے تف تم پر۔ چہرے کے سپید،اور دل کے کالے یورپ کے ہاں آزادی اظہار رائے کاجو تصور پایا جاتاہے وہ منافقت اورتضاد سے بھرپورہے۔ ایک تو ان کے ہاں عملاً اظہار رائے کی آزادی کی کوئی لمٹس نہیں، چنانچہ چغل خوری، عیب جوئی، تمسخر، مذاق وغیرہ وہاں معمول ہے۔ دوسرا آزادی اظہار رائے کے نام پر جو چیزیں وہ خود پسند نہیں کرتے مسلمانوں سے ان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثلاً ہولوکاسٹ پر بات کرنا، دونوں جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں پر بات کرنا، امریکہ کے قومی پرچم ، قومی پرندے کی قید ، عدلیہ اور دیگر بعض دفاعی اداروں پر بات کرنا جرم سمجھاجاتاہے۔