اعصاب شکن ڈرامہ پاناما لیکس کا اختتام ہو چکا، نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس میں پہلے ہی بیٹی اور داماد سمیت بریت کا سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے تھے، اب فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بے گناہ قرار دیا گیا ہے، العزیزیہ ریفرنس میں سات سال کی سزا قابل ضمانت ہے، پانچ ارب روپے جرمانہ ہے جو ادا بھی کردیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، نا اہلی کی سزا ایون فیلڈ ریفرنس میں ابھی تک موجود تھی، سو نواز شریف کسی گھاٹے میں نہیں رہے، ستے ای خیراں،نواز شریف، شریف کے شریف ہی رہے، ہمارا فرسودہ عدالتی نظام تو ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی کو بھی دو راتیں جیل میں نہ روک سکا، جو مبینہ طور پر لوگوں کی اربوں ،کھربوں کی جائیدادوں پر قبضے کے الزامات پر احاطہ عدالت سے گرفتار کئے گئے، انہیں اگلی صبح ہی ضمانت پر رہائی مل گئی اور وہ بھی صرف ایک لاکھ روپوں کے مچلکوں کے عوض۔۔۔۔۔۔ چیف جسٹس صاحب کے احکامات پر انہی لوگوں کے زیر قبضہ بہت ساری زمینیں واگزار کرائی گئیں، بہت ساری زیر قبضہ عمارتیں مسمار کی گئیں، لیکن قبضے اتنے زیادہ ہیں کہ گنتے گنتے بھی کئی مہ و سال لگ جائیں گے، چیف جسٹس صاحب کے پاس یقینی طور پر وقت تھوڑا اور کام زیادہ ہے، ورنہ انہی سے گزارش کرتے کہ اسی فیملی کی ملکیت اینٹوں کے بھٹوں سے بھی ان غلاموں کو رہائی دلائیں جو نسل در نسل ان کی قید میں ہیں۔ ہم بات کر رہے تھے نواز شریف صاحب کی اور میں حسب عادت آپ کو لے گیا جوہر ٹاؤن کے مقبوضہ علاقوں میں،ہمارے ساتھ بڑا ظلم یہ ہے کہ سارے قاعدے قانون غریبوں کیلئے ہیں، طاقتوروں کو بچانے کیلئے قانون سے ہزاروں لکونے تلاش کر لئے جاتے ہیں،عوام کو دال روٹی اور چھت سے زیادہ انصاف کی ضرورت ہے جو ان سے کوسوں دور اور ناراض ناراض رہتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ سن تھا انیس سو اٹھہتر ،اکتوبر کا مہینہ چل رہا تھا ، بھٹو کو پھانسی سے بچانے کیلئے لاہور سمیت مختلف شہروں میں جیالوں نے خود سوزیاں شروع کر دی تھیں، بہت سارے لوگوں کی طرح میں بھی یہی سمجھتا تھا اور سمجھتاہوں کہ یہ ایک غلط اور منفی تحریک تھی، جب آپ احتجاج کی آخری حد کو چھو لیں تو اس کے بعد صرف ڈیپریشن باقی رہ جاتی ہے، تحریک دم توڑ دیتی ہے، خود سوزیوں کے دیگر واقعات طے شدہ ہو سکتے ہیں ،لیکن15اکتوبر کو اوکاڑہ میں غیرطے شدہ واقعہ رونما ہو گیا ، وکلاء کا احتجاجی جلوس تھا ،اچانک ایک ریڑھی والے شیخ منور حسین نے،خود کو آگ لگا لی، وہ جل رہا تھا اور وہاں موجود لوگ اور پولیس والے تماشہ دیکھ رہے تھے، ایک مقامی صحافی دوسرے نمائندوں کے ساتھ رپورٹنگ کے لئے موجود تھا ، اس نے نہ صرف جلتے ہوئے مزدور کی تصاویر بنوا لیں، بلکہ وہاں موجود پولیس اہلکاروں کوکوستا بھی رہا کہ وہ اسکی جان کیوں نہیں بچارہے، یہ مقامی صحافی جلتے ہوئے انسان کی فوٹو لے کر لاہور میں اپنے اخبار کے دفتر پہنچ گیا۔ نیوز ایڈیٹر نے تصویر انلارج کراکے فرنٹ پیج پر لیڈ اسٹوری کے طورپر چھاپ دی، مقامی صحافی اگلی صبح جب واپس اوکاڑہ پہنچا تو اس کے ساتھی اس کے منتظر تھے، جنہوں نے اسے بتایا کہ خود سوزی کرنے والے کے قتل کا مقدمہ اس کے خلاف درج کر لیا گیا ہے ، پرچے میں کہا گیا ہے کہ تم نے ریڑھی والے پر مٹی کا تیل چھڑکا اور اسے آگ لگائی، اس کے والدین اور بیوی بچوں کو بھی پولیس اٹھا کر لے گئی تھی، وہ صحافی اس امید پر واپس لاہور آیا کہ شاید کوئی اس کی مدد کر سکے؟ جسٹس سعیدحسن ان دنوں پی پی پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل تھے، وہ ان سے بھی ملا اور بہت لوگوں کے پاس گیا، کسی نے اس کی مدد نہ کی، سب کا ایک ہی مشورہ تھا، بھاگ جاؤ اگر کہیں بھاگ سکتے ہو، پھر وہ کسی نہ کسی طور بیرون ملک چلا گیا، دو سال بعد اوکاڑا سے پارٹی کے سینئر لیڈراور سابق وفاقی وزیر یاسین وٹو مرحوم نے اسے واپسی کا پیغام بھجوایا، ان کا کہنا تھا کہ اب اس کی ضمانت کرائی جا سکتی ہے، وہ اگلے ہفتے ہی واپس آگیا، مجھ سے ملا تو میں نے پوچھا گھر والوں سے مل آئے ہو، اور تمہاری ضمانت کا کیا بنا؟، اس نے جواب دیا،، پہلے ،،بے بی،، سے ملوں گا پھر گھر واپس جاؤں گا اور ضمانت کراؤں گا، اس زمانے میں کم عمری کے باعث بینظیر شہید کو بے بی کے نام سے پکارا جاتا تھا، وہ بے بی کو اپنی اور اپنے مصائب سے آگاہ کرکے ان سے داد لینا چاہتا تھا، بھٹو صاحب کو پھانسی کے بعد بے بی اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ساتھ پوری قوت سے سیاسی امور چلا رہی تھیں،۔ ان دنوں بے بی کے پرسنل سیکرٹری تھے اچھی میمن، جو میرے کولیگ رہ چکے تھے، بھٹو صاحب کے ذاتی ڈینٹسٹ ڈاکٹر نیازی کی بیٹی یاسمین بھی بے نظیر صاحبہ کے ساتھ ہوا کرتی تھیں، میں نے اچھی میمن کو فون کرکے مدعا بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ آجاؤ، میں اس صحافی کو لے کر ستر کلفٹن پہنچ گیا، اچھی میمن ہمیں گھر کے اندر لے گئے، بے بی بے نظیر اس وقت سندھی عورتوں کے ایک وفد سے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ انہیں اردو زبان بھی سیکھنی چاہئے، یہ سندھ کی وحدت کے لئے ضروری ہے، اسی دوران میں نے دیکھا ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ، جتوئی اور کئی دوسرے لیڈر ہمارے سامنے سے گزر رہے ہیں، اچھی میمن نے بتایا تھوڑی دیر بعد پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کا اجلاس ہے لیکن پہلے آپ کی ان سے ملاقات ہوگی، بے بی نے وہ نشست برخاست کی اور اس کمرے کی جانب چل پڑیں جہاں اجلاس ہونے والا تھا،یاسمین نیازی ان کے پیچھے تھیں، میں نے اچھی میمن کو دیکھا تو وہ آگے بڑھ گیا، بے بی نے واپس مڑ کے دیکھا اور واپس پیچھے آکر میرا ہاتھ پکڑ لیا، اب بے بی بے نظیر کا رخ دوسری طرف تھا ، وہ ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئیں، جہاں ایک سنگل چارپائی اور دو کرسیاں رکھی تھیں، ہمیں کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے وہ خود چار پائی پر بیٹھ گئیں، کیا حال ہیں؟ کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا کہ میرے ساتھ آنے والا اوکاڑا کا صحافی ہے(اوکاڑا کو ان دنوں منی لاڑکانہ کہا جاتا تھا) ، اس نے بہت مصائب اٹھائے ہیں، آپ سے ملنا چاہتا تھا، میں ساتھ لے آیا، اس کے بعد وہ صحافی کرسی سے اٹھا اور جوشیلے انداز میں آپ بیتی سنانے لگا، جب اس کی داستان مکمل ہو گئی تو بے بی تیزی سے کھڑی ہوئیں اور اس سے پوچھا، کتنے پیسے چاہئیں آپ کو؟ بے بی کے سوال نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔ آپ سے ملنے کوئی بے غرض نہیں آ سکتا؟، اب یہ سوال تھا میرا ، بے بی سے، اس سے پہلے کہ بات اور بڑھ جاتی، یاسمین نیازی میرے اور بے بی کے درمیان آگئیں، انہوں نے بے بی سے کہا ، آپ کو دیکھنا چاہئے تھا کہ آیا کون ؟ یہ بات بے بی کو سمجھ آگئی، وہ پھر چارپائی پر بیٹھ گئیں، معذرت کی اور بولنا شروع ہوئیں،ہمارے پاس لوگ آ رہے ہیں ایسی ہی داستانیں سنا کر پیسے مانگتے ہیں، انہوں نے کئی پارٹی لیڈروں کے نام بھی گنوائے، بے بی سنٹرل ایگزیکٹو کی میٹنگ بھول چکی تھیں، ہمیں واقعہ پہ واقعہ سنا رہی تھیں یہ نشست چارگھنٹے جاری رہی، ان سے بے شمار کہانیاں سننے کے بعد میں خود اپنے اچانکجوش میں آجانے پر شرمندہ تھا، لیکن میری ان سے یہ آخری لڑائی نہیں تھی،بہت محبتیں تھیں ان سے اور بہت لڑائیاں بھی۔