فرض کرنے سے پہلے عدیم ہاشمی مرحوم کا ایک شعر ۔۔۔۔ اس نے کہا کہ ہم بھی خریدار ہو گئے ۔۔۔۔ بکنے کو سارے لوگ ہی تیار ہو گئے۔۔۔۔ غزل بہت خوبصورت ہے مگر میکائولی اور چانکیہ کے جہان میں ، گندگی کے ڈھیروں پر تتلیوں کے کیا معنی؟ کار جہاں دراز سہی ، پاور پلے خانہ خراب سہی ، بات تو کرنی پڑتی ہے۔ فرض کرلیتے ہیں کہ عدم اعتماد کے چیف معمار آصف زرداری چوہدری پرویز الہٰی کو ٹارگٹ سونپ دیتے ہیں سبھی اتحادیوں کو ایک ٹوکری میں ڈالنے کا ۔ نواز شریف بھی آمنا و صدقنا کہہ دیتے ہیں۔ مقامی سطح پر شہباز شریف اور چوہدری صاحب کی ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے منحرفوں پر انحصار بھی نہیں کرنا پڑتا تو کیا ہوگا؟ ظاہر ہے عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گا۔ عمران خان جو تین چوہوں کا شکار کرنے نکلے ہیں خود کلین بولڈ ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے جتنی بھی تحاریک عدم اعتماد ہمارے ہاں آئیں سب میں حکومت وقت ہی جیتی۔ اب کے بار بھی جیتی جا سکتی تھی۔ اگر عمران خان سیاستدان ہوتے یا اُن کے مشیر میچور ہوتے ۔ مثلاً کراچی میں علی زیدی اینڈ کو ۔۔۔ ایم کیو ایم کو جو طعنے دیتے تھے اُنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عدم اعتماد اس مرتبہ بھی حکومت ہی جیتتی اگر اسکی صفوں میں بے تحاشا دراڑیں نہ ہوتیں۔ علیم خان اور جہانگیر ترین کے احساسات زخم زخم نہ ہوتے۔ پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کی شدید ناراضگی کے باوجود بزدار پر اصرار نہ کیا جاتا ۔ پنجاب میں سیاسی پریشر ککر کے اندر چکن منچورین، کڑاہی گوشت اور مچھلی سبھی اکٹھے پک رہے تھے۔ پرویز الہی مسکرا مسکرا کر اور طارق بشیر چیمہ اشاروں کنایوں میں شکوے کرتے رہتے تھے۔ مگر جس نے مرکز میں خان صاحب کو ع سے عمران ، ع سے عثمان اور ع سے عارف علوی کی ٹپ دی تھی اُسکے STAKES خود بالکل نہ تھے۔ رہی سہی کسر گذشتہ سال اکتوبر میں خان صاحب نے ایک اہم تعیناتی کرتے ہوئے پوری کردی۔ پھر جب عرصہ دراز کے بعد چھوٹے میاں صاحب کو چوہدری شجاعت کی بیماری کا احساس اور خیال ہوا تو خان صاحب کو بھی یہ یاد آگیا۔ اسی کے ساتھ ساڑھے تین سال بعد ایم کیو ایم کی طرف جانا بھی پڑگیا۔ سیاست نام ہے ممکنات کے کھیل کا ۔ رابطوں میں رہنے کا۔ ملتے جلتے رہنے کا۔ مگر ہر حکومت میں آنے والے کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کی نبض سے اسکا ہاتھ ہٹ جاتا ہے۔ بے شمار مثالیں ہیں مگر ۔ مگر یہاں اس خلا کو چابک دست مشیر پُر کرتے ہیں۔ اس بار بھی حکومت جیت جاتی اگر مشیر واقعی باتدبیر ہوتے ۔ کیسی کیسی ARROGANCE کہ بندہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ سارا بندوبست ہی یونیک تھا۔ ساری عمارت کی ساری چنائی میں کہیں بھی یک جہتی ، اعتماد اور انڈر سٹینڈنگ کا سیمنٹ ہی نہ تھا۔ انحصار تھا تو غیر سیاسی فیکٹرز پر۔ سنگل فیکٹر۔ حکومت اس مرتبہ بھی جیت جاتی اگر حکومت کی اپنی صفوں میں شدید بے چینی نہ ہوتی۔ کچھ فیکٹرز پس پردہ تھے اور بہت سے پردہ سکرین پر۔ سکرین پر جو تھے ان میں اپنے جہانگیر ترین اور علیم خان تھے۔ پرائے جو تھے ان میں چوہدریز آف پنجاب اور ایم کیو ایم فرام کراچی بھی تھی۔ گجرات والوں کا ذکر بعد میں پہلے ایم کیو ایم ۔ انہیں شروع سے ہی اپنے فیصلے خود نہ کرنے کی عادت ہے۔ کال لندن کی ہو یا کہیں اور کی، یہ فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ سینڈوچ بن گئے۔ خان اور پیپلز پارٹی کے درمیان۔ خوب مارکھائی مگر اُف تک نہ کرسکے ۔ کرب چہروں سے عیاں تھا مگر نہ نظر آیا تو ان کو ۔۔۔ مرے تھے جن کے لیے ، وہ رہے وُضو کرتے ۔ پنجاب میں اگر کسی وقت کسی سیاسی کاریگر کو معاملات کا چارج دیدیاجاتا تو نون اور جنون دونوں ہینڈل ہو جاتے مگر جو فیصلہ ساز ’’آئی‘‘ (آنکھوں والا نہیں) اسپیشلسٹ ہو، وہ اپنی ذات کے گنبد میں قید ہوتاہے۔ اب سیاسی صورتحال حکومت کے لیے یوں ہے جیسے کسی مفلس کی قبا ہو۔ پائوں ڈھکو تو سر ننگا، سر لپیٹو تو پائوں ننگے۔ وہی جو متکبرانا اعتماد سے مخالفوں اور اتحادیوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب سوکھی زبانوں ، بدحواس چہروں اور بے اعتماد وکٹری کے نشانوں سے اَٹے ہوئے صاف نظر آتے ہیں۔ کاش کہانی تحریک عدم اعتماد کے بعد ختم ہو جاتی۔ مگر بات یہاں ختم نہیں ہوگی۔ یہ نکتہ آغاز ہے۔ مرحوم محسن نقوی کی زبان میں ۔ دے رہا تھا خبر یہ درد کا انداز مجھے۔۔۔ دور تک لیجائے گا اس راہ پر آغاز مجھے۔ دکھوں کی چادر تنی رہے گی۔ ایک اور دریا کا سامنا ہوگا۔۔۔ جب ہم اس دریا کے پار اُتریں گے۔ اس وقت سب کلائمکس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تین منظر نامے بنتے ہیں۔ تحریک کامیاب ہو جائے، تحریک ناکام ہو جائے یا پھر؟ یاپھر ایسا گھڑمس مچے کہ ’’عزیز ہم وطنو ‘‘ ہو جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پنجاب کو پرویز الہی سنبھال لیں اور مرکز کو شہباز ، باقی ماندہ مدت کے لیے۔ مگر ۔ مگر کیا اس پراگندہ صورتحال کو درست کر پائیں گے؟ کیا آصف زرداری جو ضمانتیں ہر قسم کے اتحادیوں کو دے رہے ہیں، وہ پوری ہوجائیںگی؟ کیا وکٹ ، کھلاڑی اور امپائر اپنے اپنے فرائض طے شدہ سکرپٹ کے مطابق ادا کر سکیں گے؟ کیا حکومت کی تبدیلی اس MESS سے پاکستان کو نکال پائے گی۔۔۔ جس میں پاکستان گردن تک دھنسا ہوا ہے۔ کیا پرویز الہی پنجاب میں نون اور جنون کو اکٹھا لیکر باقی ماندہ مدت کے لیے لیکر چل پائیں گے؟ کیا پیپلز پارٹی ۔۔۔۔ ایم کیو ایم سے اپنے وعدے وفا کر پائے گی؟ اور کیا مرکز میں جب میاں شہباز وزیر اعظم بنیں گے تو ان سے آصف زرداری اور فضل الرحمن کی نبھ جائے گی؟ بس خیال آ رہا ہے کہ فی الحال نوازشریف کہاں ہیں؟ نہ شکوہ ، نہ شکایت ، نہ ووٹ کو عزت دینے کی بات ۔ غالباً 60 کی دہائی کی بھارتی فلم تھی ’’برسات کی ایک رات‘‘ ۔ اس کا ایک گانا تھا۔ نہ تو کارواں کی تلاش ہے نہ ہی ہم سفر کی تلاش ہے مرے شوق خانہ خراب کو تیری راہ گزر کی تلاش ہے اس میں میری طرف سے اتنا اضافہ کہ میرے شوق خانہ خراب کو کسی دیدہ ور کی تلاش ہے۔