بیروت:اُس کی آواز میں لغزش تھی،زینب مرزا کا آنسوئوں پر قابو نہ رہاتھا۔۔یہ بیروت کی امریکی یونی ورسٹی میںسیاسی علوم کی لیکچرر ہے۔وہ لبنان کے بیدار ہونے کا رونا رورہی تھی،اُس کا کہناتھا کہ ’’ایک لحاظ سے دیکھا جائے توہم پہلے کومامیں تھے‘‘ بیروت سے بغداد تک لوگ سڑکوں پر ہیں ،وہ اقوام کے لیے آواز اُٹھارہے ہیں کہ فرقوں کو تبدیل کریں۔اُنہیں عراق میں بندوق کی گولیاں ملی ہیں۔اُنہیں لبنان میں ہنگامہ آرائی ملی ہے۔وہ ابھی تک وہاں ہیں۔ایک نئی نسل پرانے راستوں سے تنگ آچکی ہے۔یہ بات انقلاب کی ہے۔یہاں قوم اتحاد کی نشاندہی کرتی ہے ،قوم پرستی کی نہیں۔یہاں ہرطرف لبنانی اور عراقی پرچم ہیں،جو ریاستی قوانین میں انفرادی حقوق کے مطالبے کی علامت ہیں۔ایک صدی عیسوی سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد معاہدہ سائیکوس ،پیکوٹ کے ذریعہ جب برطانیہ اور فرانس نے کمزور ریاستیں حاصل کیں تو لوگوں نے اس کی بھاری قیمت چکائی تھی۔ (16 مئی 1916ء کو حکومت برطانیہ اور فرانس کے درمیان طے پانے والا ایک خفیہ معاہدہ’’ سائیکوس،پیکوٹ معاہدہ‘‘ کہلاتا ہے۔ جس میں دونوں ممالک نے جنگ عظیم اول کے بعد اور سلطنت عثمانیہ کے ممکنہ خاتمے کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اپنے حلقۂ اثر کا تعین کیا۔ اس معاہدے کے تحت طے پانی والی سرحدیں تقریباً وہی ہیں جو آج شام اور اردن کی مشترکہ سرحد ہے۔معاہدے پر مذاکرات نومبر 1915ء کو فرانسیسی سفیر فرانکوئس جورجز پیکوٹ اور برطانیہ کے مارک سائیکس کے درمیان ہوئے۔ اردن، عراق اور حیفہ کے گرد مختصر علاقہ برطانیہ کو دیا گیا۔ فرانس کو جنوب مشرقی ترکی، شمالی عراق، شام اور لبنان کے علاقے دیے گئے۔ دونوں قوتوں کو اپنے علاقوں میں ریاستی سرحدوں کے تعین کی کھلی چھوٹ دی گئی۔بعد ازاں اس معاہدے میں اٹلی اور روس کو بھی شامل کر لیا گیا۔ روس کو آرمینیا اور کردستان کے علاقے دیے گئے جبکہ اٹلی کو جزائر ایجبین اور جنوب مغربی اناطولیہ میں ازمیر کے اردگرد کے علاقوں سے نوازا گیا۔ اناطولیہ میں اطالوی موجودگی اور عرب سرزمین کی تقسیم کا معاملہ بعد ازاں 1920ء میں معاہدہ سیورے میں طے ہوا) یہی وجہ ہے کہ آج شام کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔سیاست کے ذریعے فرقہ وارانہ بہروپ کی بدولت ،لوگ بیمار ہیں (یعنی فرقہ وارانہ سیاست کی بدولت لوگ بڑے پیمانے پر مارے گئے ) وہ خوف کی وجہ سے بیما رہیں۔وہ بیمار ہیں کہ زندگی نے اُن کو نچوڑ لیا ہوا ہے۔ زینب مرزا نے اپنے آنسوئوں پر قابو پایا اور خود کو یکجاکرتے ہوئے ،طالبِ علموں سے گویا ہوئی ،شمالی لبنان میں سنی طرابلس دیکھنا کس قدر غیر معمولی بات ہے،قدامت پسندی کا ایک گڑھ،جنوب نبطیہ(لبنان کا ایک رہائشی علاقہ) میں شیعہ کندھا سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔زینب مرزا طالبِ علموں سے بولی’’یہاں ایک احساس ہے کہ ایک ہی دردتمام جگہ موجود ہے‘‘ زینب مرزا کی ایک رفیقِ کار،حبہ خودر جو عوامی پالیسی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ، نے اچانک لبنانی پرچم کی ڈرائنگ بنانے والے بچوں سے بات کی،اُس کا کہنا تھا ’’ہم ایک نئی لغت تشکیل دے رہے ہیں‘‘لوگوں کی لغت اُن کے اسلاف کی مایوسی اور زنجیروں سے آزاد ہے۔ایسے افراد کی لغت جو فرقہ وارانہ ممنوعہ مسائل سے آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ لغت مذہب کے سیاسی مقاصد کے استعمال سے روکے گی۔یہ لغت لوگوں کو خوف سے آزاد کردے گی۔ یہ بہت خوب صورت ہے۔یہ بہت نازک ہے۔یہ مشرقِ وسطیٰ کی ضرورت ہے۔یہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے ناممکن ہے،کہ اُن کے لیے وعدوں کے گھر میں تاخیر ہو۔یہ مشرقِ وسطیٰ سے مختلف ہے ۔اس علاقے میں ،کئی ہفتوں سے ،شاید ہی مَیں نے کسی سے امریکا کا ذکرسنا ہو۔لبنان کے ایک تاجر نے مجھے بتایا کہ صدر ٹرمپ یہ کر سکتے ہیں کہ وہ ولادیمیر پیوتن کی مدد کریں ، تاکہ حزب اللہ کو احتجاج سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔اس کے علاوہ جو کچھ مَیں نے سنا ہے ،وہ یہ کہ صدر ٹرمپ نے کردوں سے غداری کی ہے اور لبنانی مسلح افواج کی امداد منجمد کی ہے،حالانکہ لبنانی فوج کا طرزِ عمل مثالی ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے لیڈر ز یہ نتیجہ اخذ کر چکے ہیں کہ امریکا کے لیے سعودی عرب شطرنج کا ایک مہرہ ہے۔اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو ٹرمپ کی جانب سے بہت نظرانداز کیا گیا۔اُردن میں مذاق کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ’’لبنان کو دیکھو!اُن کا احتجاج ،ہماری شادیوں سے زیادہ تفریح کا حامل ہوتا ہے‘‘ عراق اور لبنان کی سڑکوں سے ایک انداز کی چیخیں بلند ہوتی ہیں’’عراقی کہتے ہیں کہ ہم ایک وطن چاہتے ہیں‘‘لبنانی مسلک کے ذریعے حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں:ایک صدر جو Maronite (عیسائیوں کا ایک فرقہ جس کے زیادہ تر لوگ لبنان میں آباد ہیں)عیسائی ہوناچاہیے۔وزیرِ اعظم ایک سنی العقیدہ مسلم ہونا چاہیے ،جبکہ پارلیمان کا اسپیکر شیعہ مسلک سے ہوناچاہیے۔(جبکہ عراق میں شیعہ مسلک کا وزیرِ اعظم ہوناچاہیے ،پارلیمان کا اسپیکر سنی العقیدہ کا ہونا چاہیے جبکہ صدر کے عہدے پرکوئی کرد قبیلے کا فرد ہوناچاہیے) اسی طرح کی شناخت کا جنون ،اُن کی مشترکہ شہریت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔انتخابی اصلاحات ، عدالتی اصلاحات اور لبنان میں سول میرج قوانین (جو مختلف مذاہب کے شہریوں کے لئے شادی کرنا ممکن بناتا ہے) کے تعارف جیسے اقدامات کے ذریعے یہاں سے جانے والی راہ طویل ، گستاخ اور ممکنہ طور پر نسل در نسل ہے۔ دریں اثنا ، لبنان کی معیشت ، اس کے بینک زیادہ تر خوف کے سائے میں ہیں اور یہاں کی معیشت کسی بھی دن ڈوب سکتی ہے۔’’ہم فرقہ واریت کے بعد کی نسل ہیں‘‘یہ بات مجھے حسین الچی نے بتائی ،حسین الچی ایک وکیل ہے جو احتجاج کو منظم کرنے اور ترتیب دینے میں متحرک تھا۔اُس کا کہنا تھاکہ’’یہ ملک تبدیل ہورہاہے ،کیونکہ پہلی بار اجتماعی شعور موجود ہے۔اگر ہم کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہماری کامیابی مشرقِ وسطیٰ پر گراں قدر اثرات مرتب کرے گی‘‘ مَیں نے ایک لبنانی فوجی سے پوچھا کہ احتجاج کے بارے اُس کا کیا خیال ہے؟وہ بولا’’ ہم اس کا حق رکھتے ہیں‘‘یہاں ’’ہم ‘‘کا لفظ استعمال کرنا بہت اہمیت اور وسعت رکھتا ہے۔ (بہ شکریہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ترجمہ:احمد اعجاز)