معزز قارئین!جب آپ یہ میرا کالم پڑھ رہے ہوں گے تو،قومی اخبارات کے صفحہ اوّل پر وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں ’’کرتارپور راہداری ‘‘کا سنگ بنیاد رکھنے اور وہاں موجود حاضرین سے خطاب کرنے کی خبر بھی پڑھ چکے ہوں گے ۔ مَیں نے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے دفتر میں اپنا کالم آج اُس سے قبل ہی "E-mail"کردِیا تھا ۔ بہرحال یہ کریڈٹ تو بھارتی پنجاب کے وزیر بلدیات ، سیاحت و ثقافت کرکٹر سردار نوجوت سنگھ سِدّھُو کو دینا ہی پڑے گا کہ وہ اپنے کرکٹر دوست وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے دوستی اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے جپھّی کے طفیل حکومتِ پاکستان سے ، ایک ایسی "Favour" (خاص رعایت ) حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کی وجہ سے وہ بھارت سمیت دُنیا کے کئی ملکوں میں آباد (بقول اُن کے ) 12 کروڑ سِکھوں کی "Favour" (خوشنودی) حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اِس طرح سِدّھُو صاحب بلا شبہ 12 کروڑ سِکھوں کے "Hero" بن گئے ہیں ۔ میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے اپنے تصّور میں مختلف مقامات پر سِکھوں کے کئی جتھوں کو یہ نعرہ لگاتے ہُوئے دیکھا اور سُنا کہ … مائوں، بَھینوں ، بزرگوں ، ویرو! نَوجوت سِنگھ جی ، ساڈے ہیرو! معزز قارئین!۔ 1981ء سے میرے دوست گلاسگو کے ’’ بابائے امن ‘‘ ملک غلام ربانی نے کل صبح مجھ سے ٹیلی فون پر پوچھا کہ اثر چوہان بھائی ! کیا آپ مجھے اور اپنے قارئین کو بتا سکتے ہیں کہ یہ سِدّھُو ۔ ذات یا گوت ہے کیا؟‘‘۔ تو مَیں نے انہیں بتا دِیا اور آپ کو بھی بتا رہا ہُوں کہ قدیم بھارت میں صوبہ راجستھان کے شہر "Golden City of Jaisalmer" کے بانی راجا راجپوت (بھٹی) جیلسمیر (Jaisalmer) رائو جیسل کے ’’ پڑپوتے‘‘(Great Grandson) رائو کھیوا نے جاٹؔ برادری میں شادی کرلی تھی، راجا کے گھر بیٹا پیدا ہُوا تو، اُس کا نام سِدّھُوؔ (Sidhu) رکھا گیا ، پھر اُس کی اولاد سِدّھُو کہلائی۔ مَیں فی الحال مشرقی پنجاب ( اب بھارتی پنجاب) میں 1947ء سے پہلے دو سِکھ ریاستوں ۔ نابھہؔ اور پٹیالہؔ کے دو سِدّھُو مہاراجائوں کا ذکر کروں گا ۔ ریاست نابھہؔ کے آخری مہاراجا پرتاپ سنگھ تھے اور پٹیالہ کے یادوِندر سنگھ ۔ میرا ددھیال ریاست نابھہ ؔمیں تھا ۔ مہاراجا پرتاپ سنگھ سِدّھُو ، سِکھوں ، ہندوئوں اور مسلمانوں سے یکساں سلوک کرتے تھے ۔ تقسیم ہند کے دَوران ریاست نابھہ (خاص طور پر) شہر میں سِکھوں کو مسلمان پر حملہ کرنے کی جُرأت نہیں ہُوئی۔ یہ 14 اگست 1947ء کے بعد ہُوا کہ جب نابھہ سے 24 بسوں میں مسلمان ریاست مالیر کوٹلہ ؔ کی طرف ہجرت کر رہے تھے تو، راستے میں مہاراجا پٹیالہ کی فوج اور سِکھوں کے مختلف جتھّوں نے اُن پر حملہ کردِیا تھا ۔ بسوں میں سوار آل انڈیا مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز نے اُن حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کِیا لیکن ، سِکھ فوجیوں اور دوسرے سِکھوں نے اُنہیں شہید کردِیا ، جن میں میرے چچا رانا فتح محمد چوہان اور پھوپھا چودھری محمد صدیق بھٹی بھی شامل تھے ۔ اِس کے برعکس مہاراجا پٹیالہ یا دوندر سنگھ سِدّھُو کے حکم سے سِکھ فوج اور دوسرے سِکھ جتّھوں نے دو اڑھائی لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کِیا اور لا تعداد مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کی ۔بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن (ر) امرندر سِنگھ آنجہانی مہاراجا پٹیالہ یادوندر سنگھ کے بیٹے ہیں ۔ اُن کا مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں روّیہ اب بھی دشمنانہ ہے ۔کرکٹ کے کھلاڑی نوجوت سنگھ سِدّھُو 20 اکتوبر 1963ء کو پٹیالہ میں پیدا ہُوئے تھے ۔ حالانکہ سِدّھُو صاحب ہندوئوں کی بدنامِ زمانہ دہشت گرد تنظیم ’’ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (R.S.S.S) کی ذیلی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر ’’راجیہ سبھا ‘‘ ( ایوان ِ بالا) کے رُکن بھی رہے لیکن، اُنہوں نے کیسی ترکیب لڑائی ہے کہ’’ وزیراعظم پاکستان اور پاک فوج کے سربراہ کو رام ؔ کرلِیا ہے۔ گذشتہ تین چار دِن سے نوجوت سنگھ سِدّھُو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر چھائے ہُوئے ہیں اور دُنیا بھر کی سِکھ برداری سے داد وتحسین وصول کر رہے ہیں لیکن، کیپٹن (ر) امرندر سنگھ تو سوگوار اور تکلیف زدہ معلوم ہوتے ہیں ۔ 26 نومبر کو بھارتی پنجاب کے شہر گُرداسپور میں ’’ کرتار پور راہداری‘‘ کا سنگ ِ بنیاد رکھنے کی تقریب جھگڑے کا شکار ہوگئی تھی ۔ بھارتی نشریاتی ادارے ’’نیوز 18‘‘ اور کچھ دوسرے غیر ملکی نشریاتی اداروں کے مطابق بھارت کے نائب صدر "Mr.Venkaiah Naidu" نے ’’کرتار پور راہداری‘‘ کاسنگِ بنیاد رکھا اور کہا کہ ’’ یہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہت بڑا واقعہ ہے لیکن ، ہم ( اہلِ بھارت) کسی قسم کی دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے ‘‘۔ وزیراعلیٰ پنجاب کیپٹن (ر) امرندر سنگھ نے ’’بین الاقوامی آداب ِ اخلاقیات‘‘ کو نظر انداز کرتے ہُوئے ، جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہُوئے الزام لگایا کہ ’’ جنرل قمر جاوید باجوہ "Ceasefire Line" ۔کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس، سے بھارت میں ماحول خراب ہوگیا ہے ‘‘۔ حیرت تو یہ ہے کہ بھارتی پنجاب کے ایک وزیر سُکھ وِندر سنگھ رندھاوا نے تو، سنگ ِ بنیاد کی تختی پر اپنے وزیراعلیٰ (کیپٹن (ر) امرندر سنگھ) اور سابق وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادلؔ ؔاور اُن کے بیٹے سُکھ بیر سنگھ بادل ؔکے ناموں پر "Black Tape" لگا دِیا۔ جس سے ثابت ہُوا کہ ’’ وزیراعظم پاکستان اور پاک آرمی کے سربراہ کی طرف سے سِکھوں کے ساتھ جو ’’حُسنِ سلوک ‘‘ کِیا گیا ہے اُسے آنجہانی مہاراجا پٹیالہ کے بیٹے اور اُن کے مکتبۂ فکر کے سِکھوں کو تو بہت تکلیف ہُوئی ہے؟۔ معزز قارئین!۔ مجھے اِس بات سے غرض نہیں ہے کہ ’’ کرتار پور راہداری‘‘ کے سنگِ بنیاد رکھنے پر سِکھوں کے مختلف گروپوں اور طبقوں کو خُوشی ہُوئی ہے یا نہیں لیکن مجھے 1947ء میں "R.S.S.S" کے ساتھ مل کر سِکھوں نے مشرقی (اب بھارتی ) پنجاب میں جن 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا تھا اور جن 55 ہزار خواتین کو اغوا کر کے اُن کی عصمت دری کی تھی ، اُن کے متعلقین کیا سوچ رہے ہوں گے ؟۔ سِکھوں کی اِس بربرّیت سے متعلق کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ 7 دسمبر 2016ء کو مجھے ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری جنرل برادرِ عزیز شاہد رشید نے تحریک پاکستان کے ایک کارکن اور کئی سال سے لندن میں مقیم ڈاکٹر سعید احمد ملک کی کتاب بھجوائی تھی ، جس پر 10 دسمبر 2016ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں میرا کالم بھی چھپا تھا۔ کتاب کا عنوان تھا "Muslim Holocaust of 1947"۔ آپ جانتے ہیں ہوں گے کہ ’’ جرمنی کے حکمران "Aolf Hitler" اور اُس کی فوج کے ہاتھوں (1939ئ۔ 1945ئ) میں 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام کو "The Holocaust" کہا جاتا ہے ۔ اسرائیل اور دُنیا کے مختلف ملکوں میں آباد یہودی قوم اُس ’’ قتلِ عام‘‘ کو نہیں بھولی اور وہ ہٹلر ، نازی جرمنی ( بلکہ پُوری جرمن قوم) کی مذّمت کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ 1947ء میں مسلمانوں کے ’’قتلِ عام‘‘ پر ہماری کسی بھی حکومت نے ، مسلمان دشمن ہندوئوں اور سِکھوں کی غیر انسانی حرکات پر فلموں کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور نہ ہی کسی بین الاقوامی "Forum" پر اِس قتلِ عام کی تشہیر میں دلچسپی لی ۔مسئلہ کشمیرکوتو، ’’بھارت سے دوستی‘‘ کی خواہش کی بھٹی میں جھونک دِیا ہے ؟۔ معزز قارئین!۔ اِس وقت سردار نوجوت سنگھ سِدّھُو ، اُن کے ہم مذہب سِکھ دانشور اور پاکستان میں امن کے علمبردار گُرونانک جی کے حوالے سے پاکستان اور بھارت میں امن کے ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ گُرو نانک جی کے شلوک(اشعار) بھی گاتے نظر آ رہے ہیں ، اُس کے جواب میں مَیں تو گُرو نانک جی کا آدھا شلوک (ایک مصرعہ ) پیش کروں گا ۔ گُرو جی نے اپنے پیروکاروں ( سِکھوں ) کو تلقین کی تھی کہ … باہج محمد ؐ ، بھگتی ناہِیں! یعنی۔ ’’ پیغمبر اِنسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بغیر عبادت قبول نہیں ہوتی ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ، اگر گُرو نانک جی کے سِکھوں نے گُروجی کی اِس ہدایت پر عمل کِیا ہوتا تو ، کیا "Muslim Holocaust of 1947" کا سانحہ رُونما ہوسکتا تھا ؟۔