ایک فارسی ضرب اُلمِثل کے مطابق ’’کلام اُلملوک ، ملُوک اُلکلام، یعنی بادشاہوں کا کلام (بیان) کلام (بیاں) کا بادشاہ ہوتا ہے‘‘ ۔ جناب عارف اُلرحمن علوی اگرچہ آئینی صدر ہیں لیکن عالمی سطح پر اُن کا مرتبہ تو بادشاہ ہی کا ہے ۔ اِس لحاظ سے اُن کے کلام کو بھی کلام کا بادشاہ سمجھنا چاہیے۔ 16 نومبر کو لاہور میں جنابِ صدر نے’’ دماغی امراض کے مُعالجین/ ڈاکٹروںکی انجمن کی طرف سے منعقدہ 22 ویں انٹرنیشنل کانفرنس کا افتتاح کِیا اور اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا کہ ’’ہماری ( یعنی پاکستان کی ) قومی اسمبلی میں بھی بہت ؔسے لوگ (ارکان) دماغی مریض ہیں ۔ مُعالجین ( Psychiatrists) توجہ فرمائیں‘‘۔ معزز قارئین!۔ انٹرنیشنل کاؔنفرنس کے حوالے سے صدرِ قابل احترام کے کلامِ بلاغت نظام کو دُنیا بھر میں عام ہُوئے آج (19 نومبر کو ) تیسرا دِن ہے لیکن ،(تادمِ تحریر) بہت سے ؔدماغی مریضان ِارکان قومی اسمبلی میں سے کسی ایک نے بھی صدرِ خُوش کلام سے مخاطب ہو کر اپنے بارے میں وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ’’جنابِ والا! ۔کم از کم مَیں تو دماغی مریض نہیں ہُوں ، بے شک آپ ’’انٹرنیشنل کانفرنس ‘‘ میں شریک (پاکستانی یا غیر ملکی) دماغی امراض کے کسی معالج (ڈاکٹر )سے سرکاری خرچ ؔپر میرے دماغ کا (معائنہ ) کرا کر اپنا اطمینان کرلیں؟‘‘ ۔ سب سے پہلے تو،قوم کو جناب عارف اُلرحمن علوی کا ممنون ہونا چاہیے کہ وہ ،خود تو Dentist ہیں لیکن ، اُنہوں نے 16 نومبر کو لاہور میں ’’دماغی امراض کے مُعالجین/ ڈاکٹروں کی انجمن کی انٹرنیشنل کانفرنس ‘‘ میں شرکت سے پہلے یہ معلومات حاصل کرلیں کہ ’’ پاکستان کی قومی اسمبلی کے بہت سے ارکان دماغی امراض میں مبتلا ہیں؟۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے پڑھا ہے کہ قدیم ہندوستان میں ریاست ایودھیا کے راجا رامؔ ، شہنشاہ ایران نوشیرواں اور خلیفۂ اِسلام دوم حضرت عمرؓ بن الخطاب بھیس بدل کر ، اپنی رعایا ( عوام) کے حالات معلوم کرنے کے لئے راتوں کو گشت کِیا کرتے تھے ۔ کیا ہمارے صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف اُلرحمن علوی نے بھی اِسی طرح کی مشق کر کے پتہ چلایا ہے کہ قومی اسمبلی میں بہت سے ارکان اور ریاستِ پاکستان میں 2 کروڑ لوگ ذہنی مریض ہیں ؟۔ غوث اُلاعظم حضرت عبداُلقادر جیلانی ؒ نے اپنے دَور کے کسی بادشاہ کے بارے میں ایک شعر کہا تھا کہ … شب اندر ،خُود کہ چوں سُلطان بہ جا سوسی ہمی گردد! کسے واقف شوَد ،زِیں سرکہ اُو شب گرد عیّارست ! یعنی۔ ’’ رات کے وقت جب بادشاہ خُود جاسوس بن کر گشت کرنے لگے تو، پھر اُس راز کو صِرف وہی شخص پا سکتا ہے جو، خوب واقف ہو ، راتوں کو گشت کرنے والا ، ہوشیار اور پرکھنے والا ہو‘‘۔ صدر پاکستان نے دماغی مریضانِ قومی اسمبلی کے لئے بہت سے ؔ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ یعنی۔ اکثریت ؔ(Majority) خُدانخواستہ بھولے بھالے عوام کہیںیہ تاثر نہ لے لیں کہ ، صدرِ مملکت ، قومی اسمبلی میں اپنی ہی پارٹی ( حکومتی پارٹی ) اور اُس کی اتحادی پارٹیوں کے فاضلؔ ارکان قومی اسمبلی کے بارے میں عوام کو اپنے زریں خیالات سے آگاہ تو نہیں کر رہے ؟ ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ، اپنی شناخت ظاہر ہونے پر دو چار فاضل ارکان ِ قومی اسمبلی اپنا اپنا رُخِ روشن ( مزید روشن کرکے ) ایوانِ صدر کی طرف مُنہ کر کے ترنم سے یہ شعر گاتے کہ … وہ ہُوئے ہم سے ہم کلام، اللہ اللہ! کہاں ’’ہم‘‘ ، کہاں یہ مقام، اللہ ، اللہ! مسئلہ یہ ہے کہ ’’ قومی اسمبلی میں اگر بہت سے ارکان دماغی مریض ہیں تو، اُن کی تو، تنخواہیں اور مراعات بہت ہی زیادہ ہیں وہ، اگر سرکاری خرچ پر اپنا علاج نہ بھی کرا سکیں تو اپنے پَلے سے بھی خرچ کرسکتے ہیں ‘‘ لیکن، اُن دو ہزار عام اِنسانوں (جن میں خواتین کی اکثریت بہت زیادہ ہے ) کا کیا بنے گا؟۔ کسی کو اپنے اقتدار ، حُسن ، یا دولت پر غرور، تکبر یا گھمنڈ ہو جائے تو اُس کے دماغ کے بارے میں طنز کِیا جاتاہے ۔ حضرت امیر مینائیؔ نے نہ جانے کِسے مخاطب کر کے کہا تھا کہ … ہر ذرّہ ، آفتاب سے کرتا ہے ہمسری! اللہ رے دماغ تیرے پائمال کا! مرزا غالبؔ نے عشق کو ’’دماغ کا خلل ‘‘ قرار دیتے ہُوئے کہا تھا کہ … بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے ‘ گُل کہتے ہیں جِس کو عشقؔ ، خلل ہے دماغ کا معزز قارئین!۔ دماغی مریض شخص کو دیوانہ ؔبھی کہا جاتا ہے۔ کسی فارسی شاعر نے کہا تھا کہ… مجنوں ، لیلیٰ کا ہے ، طلب گار ! دیوانہ ، بکارِ خویش ،ہُشیار! ذہنی مریض قومی اسمبلی کے بہت سے ارکان قومی اسمبلی پر یہ شعر صادق آتا ہے ۔ ایک ضربِ مِثل ہے کہ ’’ پاگلوںکے سر پر سینگ نہیں ہوتے‘‘۔ اگر ہوں بھی تو بھلا قومی اسمبلی کے کسی معزز رُکن کے سر کی پگڑی اُتارنے کی کون جُرأت کرسکتا ہے۔ مسئلہ تو، اُن 2 کروڑ عام لوگوں ، ذہنی مریضوں کا ہے ۔ جو، پاکستان کے 60 فیصد مفلوک اُلحال عوام کے ساتھ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں؟ ۔ صدرِ مملکت نے اپنے کلام میں یہ بھی کہا کہ ’’ عوام اپنے دماغی امراض کے علاج کے لئے پیروںؔ ، فقیروںؔ کے پاس جاتے ہیں اور پِیر، فقیر اُن کا ( عوام کا ) معاشی اور ذہنی استحصال کرتے ہیں‘‘۔ جناب صدر نے کراچی کے ایک پیر کا واقعہ سُنایا جِس نے 2002ء کے انتخابات میں کامیابی دلانے کے لئے اُن کا ( ڈاکٹر علوی صاحب کا) معاشی اور ذہنی استحصال کِیا تھا’’ فرمایا کہ ’’ میرے کچھ دوست مجھے ایک پیر کے پاس لے گئے۔ اُن نے مجھ سے 2800 روپے بٹور لئے اورمیری کامیابی کی پیش گوئی بھی کردِی تھی، لیکن مَیں ہار گیا۔ پھر مجھے پیر صاحب نے کہا کہ ’’ آپ پر کسی نے جادو کردِیا ہے‘‘۔ مَیں حیران ہُوں کہ ، حضرت علی مرتضیٰ ؑکی غیر فاطمی سلام اللہ علیہا اولاد ہونے کے ناتے ڈاکٹر عارف اُلرحمن ۔علوی ؔ اگر چاہتے تو خُود پیرؔ ہونے کا دعویٰ کرسکتے تھے۔ اِس لئے کہ یہ ٹائٹل اختیار کرنے کے لئے کوئی لائسنس تو نہیں لینا پڑتا۔ (خاص طور پر کسی سیاستدان کے لئے ) فارسی کے نامور شاعر حافظ شیرازی (1315ء ۔ 1390ئ) نے اپنے کسی پیرؔ کے بارے میں کہا تھا کہ … دوش از مسجد ،سُوئے میخانہ آمد ،پیر ما! چِیست یارانِ طریقت، بعد ازیں ،تدبیر ما! یعنی۔ ’’ کل ہمارا پیر مسجد سے میخانہ کی طرف آگیا، یارانِ طریقت اِس کے بعد ہم کیا تدبیر کریں ؟‘‘۔پرانا دَور واقعی حقیقی پیروں ، فقیروں کا دَور تھا۔ فی الحال مَیں صِرف ایک مثال پیش کرتا ہُوں۔ پاک پتن شریف میں آسودۂ خاک، چشتیہ سِلسلے کی ولی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر فرید اُلدین مسعود المعروف بابا فرید شکر گنج ؒکی زندگی کا خاص پہلو یہ ہے کہ آپؒ ہندوستان کے خاندانِ غُلاماں کے بادشاہ سُلطان غیاث اُلدّین بلبن (1266ء ۔ 1286ئ) کے داماد تھے لیکن، آپ ؒ نے اپنے سُسر بادشاہ سے کوئی مراعات حاصل نہیں کی تھیں۔ بابا جی کی اہلیہٓ محترمہ نے بھی اپنے درویش شوہر کے ساتھ سادگی میں گزار دِی تھی اپنی درویشی کے بارے میں بابا فریدؒ نے کہا تھا کہ… فریدا! دَر، درویشی کا گھڑی، چلاّں دنیا بُھّت! بنھ اُٹھائی پوٹلی، کِتھّے ونجاں گھت! یعنی۔ ’’ اے فریدا!۔ درویشی راہ فقیر بہت کھٹن ہے۔ مَیں گھوم پھر کر اِس نتیجے پہ پہنچا ہُوں کہ کیوںنہ مَیں دُنیا کا راستہ اختیار کرلوں لیکن مَیں جو درویشی/ فقیری کی گٹھڑی اُٹھائے پھرتاہُوں ، اُسے کہاں پھینکوں؟‘‘۔معزز قارئین!۔ حروفِ آخر کے طور پر ۔علاّمہ اقبال ؒ کی تخلیق ’’جاوید نامہ ‘‘میں قدیم ’’ خراسان‘‘ کے عوام دوست ادیب اور شاعر ناصر خُسرو علوی (1014ء ۔ 1087ئ) کی نظم کا عنوان ہے … نمودار ،می شود، رُوح ناصر خُسرو علوی! غزلے مستانہ ،سرائیدہ و غائب میشود! یعنی۔’’ناصر خُسرو علوی کی رُوح ظاہر ہوتی ہے اورمستانہ وار غزل گاکر غائب ہو جاتی ہے ‘‘۔ مَیں 16 نومبر کو لاہور میں ’’دماغی امراض کے مُعالجین/ ڈاکٹروں کی انجمن‘‘ میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف اُلرحمن علوی کے کلام کو بھی غزل کی حیثیت دے سکتا ہُوں بشرطِ کہ وہ اِسی طرح ’’غزلو غزلی‘‘ہوتے رہیں ؟۔