وزیر اعظم نے امریکہ روانگی سے قبل اپنے خطاب میں بجا طور پر کرپشن کے خلاف چین کی مہم کا حوالہ دیا اور بتایا کہ وہاں 450وزیر کرپشن کے جرم میں پکڑے جا چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ بہت بار ان درجنوں چینی وزیروں کا ذکر کر چکے ہیں جن کوکرپشن پر پھانسی ہوئی۔ اس بار انہوں نے پھانسی پانے والوں کا ذکر نہیں کیا۔ کوئی وجہ رہی ہو گی۔ بلاشبہ چین میں کرپشن کے خلاف بہت بڑی مہم چلی۔ 2012 ء میں شروع ہونے والی مہم بطور ایک پلان چلتی رہی اور بطور عمومی پالیسی ابھی تک جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں یہ اس نوعیت کی سب سے بڑی مہم تھی۔عظیم چین، عظیم مہم۔ ڈیڑھ ارب سے کچھ ہی کم آبادی والا ملک پاکستان کے مقابلے میں سات گنا بڑا تو ہو گا۔ مہم کے دوران ایک سو بیس120بڑی مچھلیاں گرفتار ہوئیں۔ زیادہ تر ان میں بڑے بڑے سول اور ملٹری حکام‘ بڑی بڑی کارپوریشنوں اور کمپنیوں کے افسر شامل تھے۔ سیاستدان بھی زدمیں آئے۔ پکڑے جانے والے سیاستدانوں کی تعداد 5تھی۔ ان پانچ میں سے ایک وزیر ریلوے اور ایک نائب وزیر خزانہ تھا۔ نائب وزیر خزانہ کو آدھا وزیر مانا جائے تو یہ کل ڈیڑھ وزیر بنتے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ تعداد چار سو پچاس بتائی۔ چار سو پچاس میں سے ڈیڑھ وزیر منہا کر دیے جائیں تو باقی چار سو ساڑھے اڑتالیس وزیر بچتے ہیں۔گنتی کا یہ ’’بجٹ خسارہ‘‘ (گیپ) بہت زیادہ ہے۔ اسے پر کرنے کی کوئی صورت نیٹ پر نہیں آئی۔ شاید شبر زیدی اور حماد اظہر کوئی مدد فرما سکیں۔ چین کی وفاقی کابینہ میں کل 21وزیر ہوتے ہیں اور یہاں … ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے یہ بھی بجا فرمایاکہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوںگا۔ البتہ حکمران جماعت‘ وفاقی کابینہ بشمول مشیران معاونان و ترجمانان میں جو ایسے ہیں‘ انہیں ہرگز نہیں چھیڑوں گا۔ وزیر اعظم کو یہ کہنا چاہیے تھا لیکن نہیں کہا۔ ماشاء اللہ ایسوں کی لمبی فہرست ہے۔ کسی نے تین ارب کا ہاتھ مارا ہے تو کسی نے پانچ ارب کا۔ کسی نے دوائوں کے سکینڈل میں اربوں کمائے ہیں۔ کسی کے لندن میں بے شمار فلیٹ ہیں تو کوئی وہاں کی منی لانڈرنگ کا بے تاج بادشاہ ہے۔ کوئی پنجاب کا سب سے بڑا شہنشاہ ہے تو کسی نے پشاور میٹرو میں سوا کھرب کا چھکا مارا ہے۔ کوئی سوات کا بڑا ہے تو کوئی بخارا کی زلف۔ اچھی خاصی لمبی فہرست ہے۔ وزیر اعظم نے اچھا کیا کہ ان کی طرف نگاہ نہیں کی‘ کرتے تو تھک جاتے ویسے بھی یہ سارے ’’ایماندار‘‘ حضرات رات دن کرپشن کے خلاف خطابت کے جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔ یعنی کچھ تو کرتے ہیں۔ باقی تو کام کے نہ کاج کے‘ دشمن اناج کے‘ بیان تک نہیں دیتے۔ ٭٭٭٭٭ اس سے ایک دن قبل وزیر اعظم لاہور میں تھے جہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کی تعریف کی اور ساتھ ہی انہیں ہدایت فرمائی کہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی روک تھام کریں۔ وزیر اعلیٰ کو دوہری حیرت ہوئی۔ ایک تو کارکردگی پر تعریف کی۔ دوسری پر شاباش ملی۔ دوسری حیرت اور بھی حیرت ناک ہے۔ وفاق کی برپا کی گئی مہنگائی کو میں کیسے قابو کروں۔ یہی سوچے جا رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ شیخ رشید نے فرمایا ہے کہ وہ مدارس کا دفاع کریں گے اور ختم نبوت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ لال مسجد کی فتح میں پرویز مشرف چیف غازی تھے اور ان کے کئی ساتھی ڈپٹی غازی یا ڈپٹی فاتح تھے۔ مثلاً شوکت عزیزاور ایم اے درانی بہرحال یہ ماجرا یاد دلانے کا مقصد ان کے اس وعدے کی تصدیق کرنا تھا کہ وہ مدارس کے محافظ ہیں۔ ختم نبوت پر آنچ آنیوالی بات معنی خیز ہے۔ ان دنوں سہمی سہمی سی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ناقابل اشاعت قسم کی‘ شاید شیخ جی تک بھی پہنچی ہوں۔ شیخ صاحب نے ’’کھلیفہ حجور مرزا مصرور‘‘کا وہ خطاب سنا ہو گا جو ان دنوں سوشل میڈیا پر محو گردش ہے۔ منجملہ دیگر دعوئوں کے ایک دعویٰ یہ بھی فرمایا کہ’’آئین تو بہرحال تبدیل ہو گا‘‘ اس ’’الہام‘‘ کے بارے میں شیخ جی کیا فرماتے ہیں۔ انہی خدشات کے حوالے سے حوالہ زنداں ہونے سے ایک دن پہلے حافظ سعید نے بھی ایک خطاب کیا تھا‘ اس کا کلپ بھی زیر گردش ہے۔ شیخ جی نے مزید فرمایا کہ اپوزیشن جو چاہے کر لے‘دھرنے‘ جلسے وغیرہ حکومت کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو لیکن پھر اسلام آباد میں سخت ترین دفعہ 144کس’’اندیشے‘‘ پر لگائی ہے۔ اجتماع کی پابندی تو خیر ہے ہی‘ دو ورقے اور اشتہارات تقسیم کرنے کی بھی منا ہی ہے۔ حالانکہ اشتہاروں میں سیاست کہاں ہوتی ہے۔ رنگ گورا کرنے کے دعوے‘ منشیات کے چھڑانے کے دعوے ‘ موت کا منظر بمع مرنے کے بعد کیا ہو گا کی خریداری پر رعایت وغیرہ۔ پھر میڈیا پر اتنی تاریخ ساز سختی؟ ٭٭٭٭٭ سراج الحق فرماتے ہیں کہ قوم ہر شے پر 42قسم کے ٹیکس دے رہی ہے‘ پھر بھی اسے چور کہا جا رہا ہے(محترم نے مبالغہ کیا تصحیح فرما لیں‘ ساری قوم کو چور نہیں کہا‘ صرف 99یعنی ننانوے فیصد کو چور کہا ہے۔ باقی سارے ایک فیصد ایماندار ہیں۔ وزیر اعظم کا خطاب پھر سن لیں۔