سید علی گیلانی کی رحلت پر بین الاقوامی میڈیا نے جزوی طور پر انہیں ’’ علیحدگی پسند‘‘ اور’’ سخت گیر ‘‘ رہنما کے الفاظ کے ساتھ یاد کیا۔ سوال یہ ہے کیا صحافتی اخلاقیات کے تحت یہ ایک درست حرکت ہے ؟کیا ان اصطلاحات کا استعمال بین الاقوامی میڈیا کے معیار ِ صحافت پر سوال نہیں اٹھا رہا۔ سید علی گیلانی Seperatist یعنی علحدگی پسند کیسے ہو گئے؟ وہ تو آزادی پسند تھے۔انہیں مگر حریت پسند نہیں لکھا جا رہا علیحدگی پسند لکھا جا رہا ہے۔ کیا کشمیر بھارت کا حصہ بن چکا ہے کہ سید علی گیلانی اس سے علحدہ ہونا چاہتے تھے؟ علحدگی کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ابھی تو کشمیر نے شمولیت کا فیصلہ بھی نہیں کیا۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ ہو چکا ہوتا اور اس کے بعد علی گیلانی آواز بلند کرتے تو انہیں علحدگی پسند کہا جا سکتا تھا ۔ علی گیلانی تو اقوام متحدہ کے دیے گئے حق خود ارادیت کے لیے جدو جہد کرتے رہے۔علحدگی کا سوال تو وہاں کھڑا ہوتا ہے جہاں کوئی بندھن قائم ہو چکا ہو۔ جہاں شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ ابھی ہونا ہو وہاں علحدگی پسند کی اصطلاح کیسے استعمال کی جا رہی ہے؟ بھارت کی کسی اور ریاست یا صوبے کا کوئی رہنما ہو جو بھارت سے الگ ہونا چاہے تو اس کے لیے علحدگی پسند کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ کہ وہ ایک طے شدہ اور معینہ بھارتی حدود سے الگ ہونا چاہتا ہو گا۔ لیکن اقوام متحدہ کے ضوابط اور بین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر بھارت کا حصہ نہیںہے۔ کشمیر نے اپنے مستقبل کا فیصلہ ابھی کرنا ہے۔سلامتی کونسل اپنی 30مارچ 1951 اور پھر نومبر 1956 کی قراردادوں میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ مقامی سطح پر کیا گیا کوئی بندوبست حق خود ارادیت کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ جو مسئلہ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہو اور جس میں حق خود ارادیت جیسے آفاقی اصول کی بات ہو اور جس کے بارے میں سلامتی کونسل طے کر چکی ہو کہ اسے یکطرفہ طور پر سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج نہیں کیا جا سکتا اور جس معاملے کا اقوام متحدہ میں عنوان ہی بھارت پاکستان تنازعہ کا ہو اس مسئلے کو بھارتی آئین میں ترمیم کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ مسئلہ اقوام متحدہ کے طے شدہ طریق کار کے مطابق ہی حل ہونا ہے۔ سید علی گیلانی غلامی کے خلاف مزاحمت کا استعارہ تھے۔وہ آزادی کے دیے کی لو تھے۔ ایک لمحے کو بھی وہ یہ راستہ چھوڑنے پر مائل ہو جاتے تو بھارت اقتدار کا سارا جاہ و جلال پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ وہ مگر اور ہی دنیا کے آدمی تھے۔ مبالغہ نہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت روئے زمین پر کوئی ایسا انسان موجود نہیںجو اس میدان میں سید علی گیلانی کا ہم پلہ ہو۔ آزادی کے خواب کو سینچنے کے لیے زندگی کے تیس سال قید میں گزار دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ وہ کوہ کنی ہے جس کے تصور ہی سے زہرہ آب ہو جاتا ہے۔انسان کی آزادی اور حق خود ارادیت کے تصور کو اس بوڑھے نے اپنے عزم سے امر کر دیا تھا۔حریت پسندی اگر انسانی شکل میں ظہور کرے تو اس کا نام علی گیلانی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے حریت پسند کی اصطلاح استعمال نہیں ہو گی تو پھر کس کے لیے ہو گی؟ مشرقی تیمور میں مسئلہ پیدا ہو تو وہاں فورا حق خود ارادیت کے لیے اقوام متحدہ پہنچ جاتی ہے لیکن کشمیر کا مسئلہ ہو تو بین الاقوامی اخبارات و جرائد یہ بھی نہیں لکھتے کہ ساری زندگی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرنے والے حریت پسند سید علی گیلانی انتقال کر گئے ۔بلکہ یہ لکھتے ہیں کہ علیحدگی پسند سید علی گیلانی کا انتقال ہو گا۔سوال وہی ہے : کیا صحافتی اخلاقیات میں یہ ایک مستحسن عمل ہے؟ یہی معاملہ ’’ سخت گیر ُ‘‘ کی اصطلاح کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا صحافتی پیمانہ ہے جس پر علی گیلانی سخت گیر ٹھہرے۔زندگی کے تین عشرے جیلوں اور نظر بندی کی صورت حراست میں گزارنے والے اس شخص کا موقف کیا تھا؟ یہی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر کو حق خود ارادیت کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ یہی کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کے تحت سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل کرنا سب پر لازم ہے اور اس موقف کی تصدیق خود اقوام متحدہ کی Collective Measures Committee کر چکی ہے۔ علی گیلانی کا مطالبہ کیا تھا؟ یہی کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے اور بھارت غاصبانہ قبضہ ختم کرے۔ سید علی گیلانی کا نعرہ کیا تھا ؟ یہی کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔ خود کے لیے پاکستانی کی شناخت کا تعین کرنا علی گیلانی کا وہ حق تھا جو انہیں بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ نے دے رکھا تھا۔ علی گیلانی بھارتی وزرائے اعظم کو بار بار وہ وعدے یاد دلاتے رہے جو نہرو نے پاکستان سے کیے تھے ، کشمیریوں سے کیے تھے اور خود اقوام متحدہ سے کیے تھے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے سے ہو گا۔ لیاقت علی خان کو لکھے گئے خط میں نہرو نے وعدہ کیا تھا: بہت جلد بھارت کشمیر سے فوج نکال لے گا اور کشمیر کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے اور وعدہ صرف حکومت پاکستان سے نہیں ، یہ وعدہ کشمیریوں سے بھی ہے اور ساری دنیا سے بھی۔ سید علی گیلانی اسی وعدے کی تکمیل کا مطالبہ کرتے رہے۔کیا کسی کو اس کا وعدہ یاد دلاتے رہنا ایک’’ سخت گیر‘‘ رویہ ہے۔ ایک آدمی یہ مطالبہ ہتھیلی پر رکھ کر زندگی کے تیس سال قید میں گزار دیتا ہے کہ اس کی قوم کو وہ حق دیا جائے جو اقوام متحدہ اور انٹر نیشنل لاء نے اسے دے رکھا ہے۔ اس آدمی کو یہ بین الاقوامی میڈیا ’’سخت گیر‘‘ لکھ رہا ہے۔ اصطلاحات کا یہ کھیل بڑا ذو معنی ہے۔ نیلسن منڈیلا کے لیے تو یہ میڈیا انقلابی رہنما کی اصطلاح استعمال کرتا ہے( اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت بڑے انقلابی تھے) لیکن علی گیلانی جیسے عظیم انسان کے لیے ’’ سخت گیر‘‘ اور ’’ علحدگی پسند‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ عزیمت ، جرات اور کردار اگر معیار ہے تو اس وقت علی گیلانی کا کوئی ہم سر نہیں۔قریب 70 سال جس شخص نے پہاڑوں جیسی استقامت سے جدو جہد میں گزار دیے اور کامل تیس سال جو قید میں پڑا رہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے سوا کوئی حل قبول نہیں ، یہ کردار کے اس ہمالہ کو ’’ سخت گیر‘‘ کہ رہے ہیں۔ حق خود ارادیت کے لیے جنرل اسمبلی کی قراردادوں ( قرارداد نمبر 3314 اور قرارداد نمبر 37/43)کے تحت مسلمان اگر مزاحمت پر اتر آئے تو دہشت گرد کہلائے اور ذلت قبول نہ کرے اور سیاسی جدو جہد کرے تو سخت گیر ٹھہرے۔ اسے آزادی پسند نہیںلکھاجاتا بلکہ علیحدگی پسند لکھا جاتا ہے۔کیا صحافت ہے ، کیا معیار ہے اور کیا معروضیت ہے۔ آفرین ہے صاحب۔