کوئی زمانہ تھا جب گھر گھر میں موٹی موٹی لغات اور ڈکشنریاں ہوتی تھیں۔ گفتگو اور بات چیت میں بھی صحت زبان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ کسی لفظ کے املا اور تلفظ پر ذرا بھی شبہ ہوتا تھا تو لغت کھول کر اپنی اصلاح کر لی جاتی تھیں۔ اب کسی گھر، کسی خاندان میں چلے جائو‘ مجال ہے جو کہیں کتاب نظر آ جائے۔ کتاب تو چھوڑیے اردو کی کوئی لغت یا انگریزی کی کوئی ڈکشنری طالب علمانہ ضرورت کے لئے بھی مشکل ہی سے رکھی جاتی ہے۔ ایک طالب علم سے یہ سن کے کہ اس کے گھر میں کوئی لغت نہیں ہے‘ ہم نے لغت کی اہمیت پر اسے فاضلانہ خطبہ دیا۔ تو بھی اس پر اثر نہیں ہوا۔ اس نے بہت اطمینان سے جواب دیا کہ سر! موبائل پہ ڈکشنری موجود ہے۔ جب بھی کسی لفظ کے معنی دیکھنے ہوتے ہیں‘ فوراً دیکھ لیتا ہوں ڈکشنری دیکھنے میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔ہمیں چپکی لگ گئی۔ کہتے بھی تو کیا کہتے۔ پچھلے دنوں ہماری نظر سے دو جلدوں پر مشتمل ایک دلچسپ‘ معلومات افزا کتاب گزری۔ یہ اصطلاحات سیاسیات کی فرہنگ تھی۔ علم سیاسیات میں جتنے مخصوص الفاظ و اصطلاحات استعمال کئے جاتے یں ان کی وضاحت اس فرہنگ میں کر دی گئی ہے۔ قاعدے سے اس فرہنگ کا مطالعہ جملہ سیاست دانوں اور سیاست کے طالب علموں کو کرنا چاہیے لیکن ہمارے ملک میں سیاست کل وقتی مصروفیت ہے۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ مطالعے کے لئے وقت نکالے۔ ہم نے اس فرہنگ سے ایسی اصلاحات اور ان کی تشریح کا انتخاب کیا ہے،ملاحظہ فرمائیے! Absolute Monarchy:مطلق بادشاہت: بادشاہت کی وہ قسم جس میں بادشاہ پر کسی قسم کی پابندیاں نہ ہوں۔ وہ بالکل آزاد ہو۔ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہو۔ بادشاہ کی ذات میں قانون سازی‘ منصفی اور انتظامیہ کے اختیارات جمع ہو گئے ہوں۔ چین میں بادشاہ خود کو ’’خدا کا فرزند‘‘ کہلواتا تھا۔ مغلیہ دور حکومت میں بادشاہ کو ظل الٰہی پکارا جاتا تھا جس کے معنی تھے اللہ کا سایہ۔ مطلق العنان بادشاہت مشرق میں بھی رہی اور مغرب میں بھی۔ Absolutism:مطلق العنانیت۔ وہ طرز حکومت جس میں اختیارات کو آمرانہ انداز میں استعمال کیا جائے۔ اس میں نمائندگی اور رائے دہی کے اصولوں کا فقدان ہوتا ہے۔ قدیم یونان کی شہری ریاستوں کے فرمانروا مطلق العنان ہوتے تھے۔ فرانس کا بادشاہ لوئی چہار دہم مطلق العنانیت کا مظہر تھا( کالم نگار کے خیال میں صدر ایوب خاں‘ جنرل ضیاء الحق‘ جنرل یحییٰ خاں اور جنرل پرویز مشرف‘ یہ سب مطلق العنان حکمران تھے۔ وزیر اعظم بھٹو میں بھی مطلق العنانیت کے جراثیم پائے جاتے تھے) Acclamation:پرجوش تائید‘ مرحبا ۔ اس اصطلاح کے کئی معنی ہیں۔ حکمراں یا صدر‘ وزیر اعظم یا بادشاہ کو دیکھ کر نعرہ تحسین بلند کرنا۔ ایک اور معنی کے مطابق کسی مجلس مثلاً پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی میں کسی بل کی منظوری پر نعرہ صدہائے آفریں بلند کرنا ۔آمرانہ حکومتوں کی قانون ساز مجلسوں میں رائے دہی ایسے ہی طریقوں سے لی جاتی ہے۔ Adjournment motion:تحریک التوا۔ اسمبلی کی کارروائی روک کر کوئی تحریک پیش کرنا۔ Administrative lie:انتظامی دروغ۔ اخلاقی اصلاح کے لئے عوامی مطالبہ کے جواب میں منظور کیا ہوا ایسا قانون جسے جان بوجھ کر اتنا سخت بنایا جاتا ہے کہ وہ نافذ ہی نہ ہو سکے۔ اس اصطلاح کی اختراع امریکا میں ہوئی۔ Alarmist:وہ فرد جو حکومت کی کسی پالیسی کے بارے میں عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کرے(کیا آج بھی الارمسٹ پائے جاتے ہیں؟) Amnesty:امان‘ بخشش وغیرہ۔ یہ ایک یونانی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں بھول۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ وہ اقدام جس کی رو سے سربراہ مملکت سیاسی یا دیگر مجرموں کو معاف کر دیتا ہے۔ وہ لوگ جو پہلے ہی جیل میں ہیں ان کو رہا کردیا جاتا ہے تاکہ خوشگوار سیاسی پیدا فضا پیدا کی جا سکے۔ ایسی حالت تبدیلئی حکومت سے رونما ہوتی ہے(آج کل کی ایمنسٹی سکیم اس تشریح کی روشنی میں سمجھی جا سکتی ہے) Anarchy:طوائف الملوکی‘ نراج‘ انارکی یا نراجیت کا اطلاق اس ملک پر ہوتا جہاں…(1) حکومت کا مکمل فقدان ہو۔ (2)ایسی حالت جو حکومت کی عدم موجودگی میں پیدا ہو جاتی ہے۔ (3) قانون اور امن عامہ کی موجودگی کا نہ ہونا(کبھی کبھی ہمارے ہاں بھی ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً کراچی میں عرصہ ہائے دراز تک نراجیت کی کیفیت رہی) Aristocracy:طبقہ اشرافیہ‘ طبقہ امرائ۔ وہ طرز حکومت جس میں چالاک اور زیرک افراد اور شرفا کے ہاتھوں میں حکومت کی لگام ہو۔ ارسطو کے خیال میں یہ معقول و متوازن طرز حکومت ہے۔ روسو نے اسے قدرتی‘ انتخابی اور موروثی تین اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ اس نظام میں طوائف الملوکی کا خطرہ نہیں ہوتا(کیا ہمارے ملک میں اقتدار ان کے ہاتھوں میں کبھی آیا ہے؟ ذرا سوچیے!) Civil liberty:شہری آزادی۔ یہ ان حقوق اور مراعات پر مشتمل ہوتی ہے جو ریاست اپنے عوام کے لئے تخلیق کرتی ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ شہری آزادی اس وقت مکمل ہوتی ہے جب وہ دوسرے شہریوں اور سرکاری مداخلت سے بیک وقت محفوظ ہو(قابل غور بات ہے کہ کیا ہمارے ملک میں سول لبرٹی یا شہری آزادی ہے؟) Class Struggle:طبقاتی کشمکش۔ آج کے جدید معاشرے میں مختلف اقتصادی اور معاشی گروہوں کا ایک دوسرے سے متصادم ہونا۔ نہ صرف ایک دوسرے سے معاشی بنیادوں پر مخاصمت ظاہر کرنا بلکہ ایک دوسرے کا استحصال کر کے اپنی طاقت مرتبے اور دولت میں اضافہ کرنا۔ کارل مارکس کی نظر میں طبقاتی کشمکش ہر اس معاشرے میں ہوتی ہے جہاں سرمایہ داروں اور محنت کشوں میںدولت اور محنت کی بنیادوں پر تقسیم ہوتی ہے۔ Closure:ختم بحث: پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث و تکرار سے بچانا اور اسے ختم کرنا، اور اس کے لئے رائے شماری کرانا۔ پارلیمنٹ میں اگر ایک رکن کسی مسئلے پر تقریر کر رہا ہو تو دوسرا رکن کسی سابقہ مسئلے کو تحریک پیش کر سکتا ہے۔ اس کا مقصد زیر بحث مسئلے کو چھوڑ کر سابقہ مسئلے کو زیر بحث لانا ہوتا ہے۔ Democracy: جمہوریت یہ عوام کی حکومت ہوتی ہے اور ان ہی کے مفادات کے لئے ہوتی ہے۔ اس کا آغاز یونان شہری ریاستوں میں ہوا۔ جمہوریہ روم میں عوام کی نمائندگی کے اصول کو تسلیم کیا جاتا تھا اور یہی جدید جمہوری ریاستوں کی بنیاد ہے۔ اس کی رو سے سرکاری حکمت عملی کے اہم امور کا تعین کرنے کے اختیارات عوام کے پاس ہونے چاہئیں لہٰذا جمہوریت رضا مندی اور سیاسی مساوات کی حامل حکومتی ہوتی ہے اور اس میں فرد کی رائے کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ Opposition: حزب اختلاف۔ ایسی جماعت یا جماعتیں جو اقتدار ہی نہیں ہوتیں اور حکومت پر تنقید کرتی ہوں۔ عوام کی قوت حاکمہ کا نام جمہوریت اور قوت احتساب کا نام حزب اختلاف یا اپوزیشن ہے۔ پارلیمنٹ میں یہ اپوزیشن اقلیت میں ہوتی ہے۔(باقی پھر کبھی سہی) (بحوالہ کشاف اصطلاحات سیاسیات مرتبہ محمد صدیق قریشی۔ ناظر مقتدرہ قومی زبان)