فروری کا یہ دن بارش میں بھیگا ہوا ہے۔ رات سے بوندوں کی رم جھم لگی ہے۔ کبھی ہلکی تو کبھی تیز بارش، ہر شے بارش میں بھیگی ہوئی ہے۔ قدرت اپنا حسین ترین اظہار بارش کی صورت میں کرتی ہے۔ بارش میں کوئی طلسم ہے کہ سارے ماحول پر چھا جاتا ہے۔ یہ منظر سے پس منظر تک سب کچھ بدل دیتی ہے۔ رم جھم، کن مِن برستی بارش دل کے دروازوں پر دستک دیتی ہے۔ یاد کے پرانے سامان کھولتی ہے۔ کبھی نئے خواب جگاتی ہے۔ گرد آلود زمانوں کی گرد جھاڑتی ان چہروں کو ڈھونڈتی اور آواز دیتی ہے جن کے دم سے کبھی زندگی آباد تھی۔ بارش اداس کرتی ہے تو کبھی دل کو خوشی سے بھر دیتی ہے۔ روٹین میں جکڑے ہوئے، ایک ہی جیسی مصروفیت کا بوجھ ڈھوتے دنوں کی یکسانیت کو دھو ڈالتی ہے۔ بارش میں ایسا کیا ہے کہ یہ ہنساتی بھی ہے اور آنکھیں بھی نم کرتی ہے۔ بارش میں کوئی سحر ہے کہ کبھی دل کو خوشی سے سرشار کر دیتی ہے اور کبھی اداسی سے بوجھل۔ ورڈز ورتھ نے لیک ڈسٹرکٹ میں جھیل پر تیرے ہوئے آبی نرگس کے پھولوں کو دیکھا تو اس کا جی ایک سرشار کردینے والی خوشی سے بھر گیا۔ ہوا کے سنگ آبی نرگس کے پھولوں کارقص وہ منظر تھا جس نے شاعر کے دل کو اپنے ساتھ باندھ لیا اور وہ اعتراف کرتا ہے کہ جب بھی اس کی طبیعت اور مزاج بجھا ہوا سا ہو، آبی نرگس کے وہ رقص کرتے ہوئے پھول مجھے ایک روشنی اور ایک خوشی سے ہمکنار کرنے آ جاتے ہیں۔ پھر میرا دل بھی ان کے ساتھ رقص کرتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے بارش کے قطروں پر بھی آبی نرگس کے پھولوں کا گمان ہوتا ہے جو ہمارے دلوں کو خوشی اور خوب صورتی سے بھرنے کے لیے آسمانی سے خاک تک رقص کرتے اور اپنی آواز اور ساز سے ایک انوکھی موسیقیت پیدا کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ ایسی ہی ایک بارش میں نے چولستان کے صحرا میں برستی دیکھی تھی۔ صحرا توبارشوں کو ترسے ہوئے ہوتے ہیں۔ خشک زمین میں پیاس کی دراڑیں پڑی رہتی ہیں۔ صحرا میں بارش پڑے تو صحرا کے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں۔ صحرا کی یہ طلسمی بارش میں نے ان دنوں دیکھی جب میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں انگریزی ادب کی طالبہ تھی۔ اسلامیہ یونیورسٹی کا بغداد الجدید کیمپس باقاعدہ صحرا میں تعمیر کیا گیا ہے۔ انسانی ہاتھوں کی محنت نے اگرچہ صحرا میں یونیورسٹی کیمپس کی صورت میں سرسبز باغ کھلا دیئے ہیں لیکن اس کے پاس بنجر، پیاسا صحرا سانس لیتا تھا۔ اس پیاسے صحرا پر میگھ ملہار نے اپنا جادو یوں جگایا کہ جھاڑیوں پر پھول کھل اٹھے۔ پھولوں کے وہ نقش اور وہ رنگ صرف صحرا میں بسنے والوں کی آنکھوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی یاد مجھے انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے لیکچر روم تک لے گئی ہے جہاں ہم نے پہلی بار ارنسٹ ہیمنگوے کا فیئر ویل ٹو آرمز پڑھا۔ ہیمنگوے سے پہلا تعارف اولڈ مین اینڈ دی سی (Old man and the Sea) کے ذریعے ہوچکا تھا لیکن Fare well to Arms۔ اس کا ایک بالکل مختلف ذائقے کا ناول تھا اور اس ناول میں ہیمنگوے نے بارش کو تباہی، جدائی اور درد کا استعارہ بنا کر پیش کیا ہے۔ ناول کا ہیرو ہر بار جب زندگی کے مشکل مرحلے سے گزرتا ہے۔ جب کسی درد اور تکلیف سے گزر رہا ہوتا ہے تو پس منظر میں بارش ہورہی ہوتی ہے۔ ناول پہلی جنگ عظیم کے پس منظر میں لکھا گیا ناول کا ہیرو۔ ہنری ایک فوجی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ موسلا د ھار بارش اس کے اندر درد کی کیفیت کا اظہار ہے۔ ناول کے آغاز میں جب ہیضے کی وبا سے سات ہزار فوجی مر جاتے ہیں۔ جنگ کی تباہی اور موت کو نگلتی ہوئی زندگی سے ایک انتہائی دکھ سے دوچار کردینے والا منظر ہے تو اس منظر کے پس منظر میں بارش ہورہی ہے۔ اس وقت بھی جب اس کی محبوبہ کیتھرین بچے کو جنم دیتے ہوئے مر جاتی ہے تو پس منظر میں بارش ہورہی ہوتی ہے۔ یقینا اپنی ذاتی زندگی ہیمنگوے کا بارش کے ساتھ کچھ ایسا ہی ربط ہوگا جس کا اظہار اس نے اپنے ناول میں کیا ہے۔ ویسے بھی اس ناول کو نقادوں نے ہیمنگوے کا سوانحی ناول کہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے آخری سال میں یہ ناول نگار جنگ کے محاذ پر ایمبولینس ڈرائیور کی حیثیت سے شامل رہا۔ بارش تخلیق کاروں کے لیے ایک انسپریشن اور تحریک ہے۔ یونانی دیومالائی کہانیوں میں میوز (Muse) شاعری کا دیوتا ہے اور ہر شاعر خواہش رکھتا ہے کہ میوز اس پر مہربان ہو جائے تاکہ اس کا قلم شعر کہے اور نظمیں بن سکے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ کبھی کبھی میوز بارش کی صورت میں آتا ہے۔ اس لیے بارش بھی شاعروں اور تخلیق کاروں کو اظہار کرنے پر اکساتی ہے۔ تخلیقی لکھائی سکھانے والے ایک استاد کے پاس اس کا ایک شاگرد آیا اور بولا کہ میرے اندر ایک عجیب بنجر پن ہے۔ تخلیقی سوتے خشک ہو چکے ہیں۔ اچھا برا کچھ بھی لکھنے کی تحریک نہیں دیتا۔ کیا کروں۔ روٹھے ہوئے میوز کو کیسے منائوں؟ کہنہ مشق استاد نے شاگرد کا مسئلہ بنا اور مسکرا کر بولا۔ دیکھو بادل گھر کر آ رہے ہیں۔ بارش ہو تو کمرے کی کھڑکی کھول کر بارش کو دیکھتے رہنا۔ میوز کبھی کبھی بارش کی شکل میں بھی آتا ہے اور بارش تخلیق کاروں پر مہربان ہوتی ہے۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ میوز کبھی کبھی بارش بن کر آتا ہے۔ بوندیں در دل پر ایسی دست دیتی ہیں کہ تخلیق کار کا دامن نظموں اور شعروں سے بھر دیتی ہیں۔ بارش میں کہے ہوئے چند شعر جو بارش ہی کے نام ہوئے قارئین کی نذر: بوندوں نے وہ شور مچایا بارش میں گہری چپ کو آن جگایا بارش میں خوشبو نے جب دیواروں پہ رقص کیا دل نے بھی اک گیت سنایا بارش میں دھوپ میں رکھا سارے گیلے حرفوں کو پھر ان سے اک گیت بنایا بارش میں آنچل کے پلو سے باندھا رم جھم کو میں نے بھی اک خواب چرایا بارش میں آج فروری کی بارش میں بھی ورڈز ورتھ کے آبی نرگس کے پھولوں جیسا طلسم ہے۔ ہر قطرہ ایک آبی نرگس کی طرح رقص کرتا آسمانوں سے اترتا اور دلوں کو خوشی سے ہمکنار کرتا ہے۔