پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کے کریڈٹ پر دو کارنامے ہیں۔ ایک کرکٹ ورلڈکپ جیتنا اور دوسرا شوکت خانم کینسر ہسپتال قائم کرنا۔ ان میں سے پہلے کارنامے میں ان کے ساتھ دس کھلاڑی اور بھی شریک رہے۔ کرکٹ ٹیم سپورٹس ہے یہ باکسنگ کی طرح ون مین شو نہیں کہ آپ تنہاء محمد علی یا مائیک ٹائسن بن جائیں۔ لیکن بطور کپتان عمران خان کی اہمیت اور قائدانہ کردار مسلم ہے۔ یہ تنازعہ اس وقت بھی پیدا ہوا تھا کہ فتح کی تقریر کرتے ہوئے انہوں نے سارا زور ’’میں‘‘ پر لگادیا تھا اور ٹیم کا ذکر گول کرگئے تھے۔ ان کی وہی ذہنیت آج بھی بدستور قائم ہے اور یہ ورلڈکپ کو ہمیشہ اپنا کارنامہ بتاتے ہیں۔ کبھی غور کیجئے گا عمران خان جب بھی 1987ء ورلڈکپ کا ذکر کرتے ہیں تو فرماتے ہیں ’’جب ہم 1987ء کا ورلڈ کپ ہارے‘‘ لیکن یہی کپتان جب 1992ء ورلڈکپ کا ذکر کرتے ہیں توجمع متکلم واحد متکلم ہوجاتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے ’’جب میں ورلڈکپ جیتا‘‘ اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ جیت کے ہزار باپ پیدا ہوجاتے ہیں اور شکست ہمیشہ لاوارث رہتی ہے۔ ورلڈکپ کے بعد شوکت خانم کینسر ہسپتال عمران خان کا دوسرا غیر سیاسی کارنامہ ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ کارنامہ تن تنہاان کی ذات سے وابستہ ہے۔ انہوں نے تنہا اس کا خواب دیکھا، تنہا اس پر غور کیا، تنہا اس کا عزم کیا اور پھر بالکل ذاتی طور پر ایک ٹیم کھڑی کی جس کے اکثر ارکان ان کے ساتھ کام کرنے کی تنخواہ لیتے تھے، یعنی ان کے لئے یہ ایک جاب تھی۔ آج بھی جو لوگ اس ادارے سے وابستہ ہیں سب کے سب وہاں سے تنخواہ لیتے ہیں سوائے عمران خان کے۔ اس منصوبے کے لئے جتنا چندہ آیا اس کا ہر روپیہ عمران خان کی وجہ سے آیا۔ یہ ادارہ آج بھی ایک کامیاب ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے اور صد شکر کہ مزید پھل پھول رہا ہے۔ اس پورے پس منظر کے سبب مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں شوکت خانم کینسر ہسپتال عمران خان کا تن تنہاکارنامہ ہے جس کے لئے ہر شخص کو ان کا شکر گزار بھی رہنا چاہئے اور اس ادارے کے مزید پھیلاؤ میں ان سے تعاون بھی کرنا چاہئے۔ کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت ہو خواہ شوکت خانم کینسر ہسپتال یہ عمران خان کے کارنامے تو ہوسکتے ہیں لیکن ان کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دونوں کارنامے انجام ہی ایسے دور میں پائے جب پی ٹی آئی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا اور ویسے بھی یہ دونوں غیر سیاسی کارنامے ہیں۔ لیکن اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی سپورٹس اور کینسر ہسپتال کے بعد عمران خان کی تیسری بڑی مصروفیت ہے۔ پچھلے بیس سال سے زبان حال سے خان صاحب کا اصرار ہے کہ چونکہ میں نے ورلڈ کپ جیتا ، اور کینسر ہسپتال بنایا ہے لہٰذا اس کے صلے میں مجھے وزیر اعظم بنایا جائے۔ بطور صلہ اس لئے کہ وہ جب بھی وزارت عظمیٰ مانگتے ہیں ان دو غیر سیاسی کارناموں کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔ 2011ء میں انہوں نے لاہور میں ایک بڑا جلسہ منعقد کرکے یہی کہا کہ میں نے ورلڈ کپ جیتا ہے اور شوکت خانم کینسر ہسپتال قائم کیا ہے لہٰذا اب مجھے اقتدار بھی دیا جائے۔ اقتدار کے لئے ایک منشور بھی درکار ہوتا ہے سو منشور بھی پیش کیا گیا۔ پاکستانی عوام بڑی سمجھدار نکلی۔ اس نے اقتدار عظمیٰ دینے سے قبل کسی چھوٹے صوبے میں خان صاحب کو آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں خیبر پختون خوا کا اقتدار دیدیا گیا جس کا اب یوم حساب آرہا ہے۔ عام انتخابات سر پر ہیں سو ملک میں آج کل کار گزاری پیش کرنے کا ماحول ہے۔ جہاں نون لیگ اپنے بنائے ہوئے میگا پروجیکٹس اور دہشت گردی و لوڈشیڈنگ کے خاتمے جیسے کارنامے عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے وہیں عمران خان کو بھی پانچ سالہ صوبائی کار کردگی پیش کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ اتوار کی شام لاہور میں ہونے والے جلسہ عام سے عمران خان نے لگ بھگ دو گھنٹے طویل خطاب کیا۔ اسقدر طویل خطاب اس لئے نہیں کہ گنوانے کو کارنامے بہت تھے بلکہ اس لئے کہ ان کی تقریر میں ’’کروں گا، بناؤں گا، پکڑوں گا، دکھاؤں گا اور چلاؤںگا‘‘ کی تکرار بہت طویل تھی۔ دو گھنٹے کے اس خطاب میں حرام ہے جو انہیں یہ کہنے کی توفیق ہوئی ہو کہ اے اہل لاہور و اہل وطن !میں نے اسی مینار پاکستان پر 2011ء میں آپ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ میں کیا کیا کرکے دکھاؤں گا، تب میں نے جو منشور پیش کیا تھا اس پر ایک صوبے میں یہ یہ عمل ہوچکا، جس کا مطلب ہے کہ میں اپنی اہلیت ثابت کر چکالہٰذا اب مجھے مرکز میں حکومت بنانے کا موقع دیا جائے تاکہ میں قومی سطح پر بھی یہ کارنامے انجام دے سکوں۔ عمران خان کے دامن میں ایک ارب درختوں کی غلط بیانی کے سوا کچھ ہو تو بتاتے۔ جو پانچ سال خیبر پختون خوا میں کچھ کرنے کے تھے وہ تو انہوں نے سڑکوں پر گزار دیے۔ سو پیش کرنے کو کارنامہ کوئی نہیں نتیجہ یہ 2011ء کی طرح 2018ء میں بھی وہ لاہور کے سٹیج پر وہی ورلڈکپ اور شوکت خانم والی گھسی پٹی قوالی پیش کر رہے تھے۔ کتنا تہی دست ہوگا وہ کپتان جسے جلسے میں بتانے تو 2013ء سے 2018ء کے مابین کے کارنامے تھے لیکن وہ وہی 1992ء والے کرکٹ ورلڈکپ اور 1994ء والے شوکت خانم ہسپتال جیسے غیر سیاسی کارنامے دہرانے پر مجبور تھا۔اس تقریر میں انہوں نے ایک بار پھر مستقبل کے منصوبے پیش کئے اور دیکھئے کہ گیارہ نکات میں سے اکثر نکات وفاقی نہیں صوبائی امور ہیں۔ مثلا ًپہلا ہی نکتہ دیکھ لیجئے جو تعلیم سے متعلق ہے یہ مکمل طور پر صوبائی سبجیکٹ ہے مرکز کے پاس سوائے ہائرایجوکیشن اور فیڈرل بورڈ کے کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح دوسرا نکتہ انہوں نے صحت کا پیش کیا، یہ بھی صوبائی معاملہ ہے مرکز اس میں کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ تیسرا نکتہ کرپشن کے خاتمے کا ہے تو اس باب میں ان کی حالت یہ ہے کہ اپنا الگ صوبائی احتساب کمیشن تو بنا لیا لیکن جب اس احتساب کمیشن نے پی ٹی آئی کے ہی مگرمچھوں پر ہاتھ ڈلا تو خان صاحب نے اسے تالا لگادیا لہٰذا یہ سمجھنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مرکز میں بھی نیب کے ساتھ وہی کچھ کریںگے جو اپنے بنائے صوبائی احتساب کمیشن کے ساتھ کیا۔ چوتھے نمبر پر ملک میں بھاری سرمایہ کاری لانے کا وعدہ ہے تو یہ کام مرکز اور صوبہ دونوں ہی کر سکتے ہیں۔ خان صاحب یہ نہیںبتاتے کہ گزشتہ پانچ سال میں وہ کے پی کے میں کتنی سرمایہ کاری لائے ؟ وہاں تو یہ ریکارڈ شکن قرضے لائے ہیں سو کیسے مان لیا جائے کہ جو کام یہ حضرت صوبے میں نہ کر سکے وہ مرکز میں کر پائیں گے ؟ ان چار نکات پر ہی کیا موقوف، باقی نکات کا بھی یہی حال ہے کہ ان پر معمولی غور کے نتیجے میں ایک ہی لفظ ذہن میں گونجنے لگتا ہے اور وہ لفظ ’’فریب‘‘ کے سوا کچھ نہیں !