پاکستان میںکورونا وائرس کی تیسری لہر مسلسل شدت پکڑ رہی ہے،مثبت شرح میں مسلسل اضافہ اور وسائل کی کمی نے حکام کو باور کرادیا ہے کہ عوام کو اس موذی وبا سے بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنا خیال خود رکھیں۔ ویکسین کی فراہمی میں غیریقینی صورتحال کے پیش نظر ایس او پیز کے معاملے میں سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ لوگوں کو ماسک پہننے اور دیگر حفاظتی اقدامات کی پابندی کرانے کے لیے حساس شہروں میں فوجی دستے طلب کیے گئے ہیں تاکہ وہ اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ کی مدد کریں۔ غیر متوقع صورتحال کے خوف کی بڑی وجہ ہمسایہ ملک بھار ت میں اچانک یہ وبا پھوٹ پڑنا اور حالات کا اس حد تک بگڑ جانا ہے کہ ہسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں،آکسیجن تک دستیاب نہیں۔ شہری علاقوں میں مردے جلانے کے لیے شمشان گھاٹ کم پڑگئے ہیں۔ پاکستان میں ابھی صورتحال اتنی خراب نہیں ہوئی لیکن غیر یقینی کے بادل ہیں کہ دن بدن گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ عوام کو ان کی دہلیز پر ضروری خدمات بہم پہنچانے کے لیے نہ تو مقامی حکومتیں موجود ہیں اور نہ ہی ان کی منتخب قیادت۔ جو لوگوں میں کورونا کی حفاظتی تدابیر پرموثر طریقے سے عملدرآمد کرواسکے۔ پچھلے بارہ سال سے خود مختارصوبائی حکومتوں نے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے نہ تو آئینی تقاضوں کے مطابق قانون سازی کی اور نہ ہی ضلع اور تحصیل کی سطح تک فنڈز کی فراہمی کے لیے کوئی نظام وضح کیا ہے۔ دوسری طرف کورونا کی وبا نمودار ہونے سے پہلے ہی ملکی معیشت ہچکولے کھا رہی تھی۔ موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو سرد جنگ کے زمانے سے ملک کو حاصل بیرونی امداد کے بند ہونے کی وجہ سے مالیاتی خسارہ انتہائی بلندیوں کو چھورہا تھا۔ پیشرو سول حکومتیں نہ ہی اخراجات میں کمی لاسکی تھیں اور نہ ہی ملکی آمدنی میں اضافہ کرنیمیں کامیاب ہوئیں تھیں ۔ یوں ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ چکا تھا۔حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو اس نے کڑی شرطیں لگا دیںجن کا پورا کرنا عوام میں حکومت کی ساکھ کو بری طرح متا ثر کرسکتا تھا۔ یہ حکومت اس انقلابی نعرے کے زور پر اقتدار میں آئی تھی کہ امیر طبقے کی مراعات میں کمی کرے گی اور دوسری طرف ان سے ٹیکس وصولی بھی یقینی بنائے گئی ۔ لیکن اس سلسلے میں کوئی واضح پیشرفت نہ ہوسکی۔کرپشن سے کمائی گئی دولت کی احتسابی عمل کے ذریعے بازیابی کی امیدیں بھی اس وقت جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں جب ملزم سیاسی انتقام کی دہائی دیتے ، یکے بعد دیگرے جیلوں سے باہر آنے لگے۔ چونکہ ویزا عظم نے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی تھی ، زرمبادلہ بڑھانے کے لیے گندم کے سٹاک برآمد کردیے اور ستائیس ارب روپے کی سبسڈی پر چینی بھی۔ شرح سود میں پندرہ فیصد کا ہوشربا اضافہ کردیا گیا تاکہ مقامی بنکوں سے قرضہ لینے میں آسانی ہو۔ برآمدات بڑھانے کے لیے روپے کی قدر حیران کن حد تک گرادی گئی جس سے ایک تو بیرونی قرضوں کی مالیت بڑھ گئی دوسرے عام لوگوں کی قوت خرید پر بھی زد پڑی۔ جب کورونا وائرس نمودار ہوا تو مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ ابھی تک تھمنے میں نہیں آرہا۔ مزے کی بات یہ کہ آئی ایم سے قرضہ بھی لیا گیا اور اسکی شرائط پر عمل بھی۔ اس وقت مہنگائی کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں کا بوجھ بھی عوام پر لدا جا رہاہے اور قومی خزانے کی آمدنی کا بڑا ذریعہ گھی ، دالیں ، ڈیزل، پٹرولیم اور مواصلاتی مصنوعات ہیں۔ سولین دور حکومت میں درمیانی آمدنی والا طبقہ دس فیصد کے لگ بھگ سکڑ گیا ہے اور کورونا کی یلغار نے اس سلسلے کو مزید تیز کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق مراعات یافتہ طبقہ ، جس میں صنعتکار ، جاگیردار، کارپوریٹ ادارے اور تعمیراتی شعبے سے وابستہ 'قبضہ مافیا' شامل ہے ، مختلف مدوں میں ہر سال اس غریب قوم کے سترہ ار ب ڈالر ڈکار جاتے ہیں ، اس ملک کی آبادی کا ایک فیصد بالائی طقبہ ملک کی آمدنی کے نو فیصد پر قابض ہے۔ ایک فیصد جاگیردار بائیس فیصد قابل کاشت زرعی رقبے پر قابض ہیں۔مراعات یافتہ طبقے کے نمائندے خود کابینہ کا حصہ ہیںاور انکی حمایت کے بغیر حکومت نہ تو بن سکتی تھی اور نہ ہی ایک دن کے لیے ٹک سکتی ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں اپوزیشن کی ملک بھر میں چلائی گئی تحریک اور پھر اس کے جھاگ کی طرح بیٹھ جانے میں بہت سے راز پوشیدہ ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں اور معاشی مفادات میں گٹھ جوڑ پوشیدہ نہیں۔ تحریک لبیک کا ہفتہ بھر کی پرتشدد کاروائیاں بھی اسی تناظر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران اب اس بہانے کے پیچھے نہیں چھپ سکتے کہ وہ اس نظام کو نہیں سمجھتے۔ وہ نہیں سمجھتے لیکن ان کے تجربہ کار وزرا تو بخوبی سمجھتے تھے ! کیا وجہ ہے کہ قومی و صوبائی اور سینٹ کے انتخابات تو باقاعدگی سے ہورہے ہیں لیکن مقامی حکومتوںکا نظام معطل ہے ؟ وزیر اعظم کی 'سادگی ' کا یہ عالم ہے کہ وہ عوام کو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے خواب دکھاتے ہیں۔ تحریک لبیک کی ہفتہ بھر کی کاروائی نے کاش ان کی آنکھیں کھولی ہوں ، یہ میدان بھی انکی طبع آزمائی کے لیے نہیں۔ حکومت نے اس تنظیم کو کالعدم بھی قرار دیا اور پھر اسکے غصیلے کارکنوں کو پرسکون رکھنے کے لیے اسکی قیادت سے مذاکرات بھی کیے۔ اسی کالعدم جماعت نے سندھ میں ایک قومی اسمبلی کی سیٹ پر بطور سیاسی جماعت انتخاب بھی لڑا ہے اور اسے حصہ بقدر جثہ ووٹ بھی پڑے ہیں ! حکمرانوں کے ' جمہوری ' فریب کا عوام کے پاس علاج نہ سہی کہ ان میں احتجاج کی سکت تک نہیں رہ گئی لیکن دہشتگردی کے معاملے میں فیٹف کا دبائو اور اب مذہبی آزادیوں کے تناظر میں یورپین یونین کی پارلیمان سے پاس شدہ قرارداد، بدلتے حالات کا واضح پتہ دے رہی ہے۔